کو ن بنا ئے گا قائد اعظم کا پاکستان ؟

 مملکت میں عام انتخابات کی باتوں پر دل ڈولنے اور شفاف انتخابات کے دعوؤں پرکلیجہ مُنہ کو آنے لگتا ہے۔ پاکستان ایسی منفرد مملکت ہے جہاں اقتدار کی منتقلی با رضا و رغبت ممکن کبھی نہیں ہوسکی ہے۔اب بھی" مسلح آئی جے آئی "بنا کرا نتخابات کو من پسند بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس کا بھانڈا بھی جلد پھوٹے گا لیکن اصغر خان کیس کی طرح اس کے ملزمان بھی قانون کی گرفت سے بچ جائیں گے ۔ نوابزدہ لیاقت علیخان کے بعد گورنر جنرل ملک غلا م محمد ،وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین ، وزیر اعظم محمد علی بوگرا ، وزیر اعظم چوہدری محمدعلی ،گورنر جنرل ا سکندر مرزا وزیر اعظم حسین شہید سہروردی ، وزیر اعظم ابراہیم اسماعیل چندریگر، وزیر اعظم ملک فیروز نون کو مسند اقتدار ملا لیکن قائد اعظم کا پاکستان کوئی بھی نہ بنا سکا۔17 سترہ وزراء کے استعفوں کیساتھ صدر اسکندر مرزا نے نون دوزرات کا خاتمہ اور مارشل لاء کا اعلان کرکے پہلی بار جنرل ایوب کی سرکردگی میں مارشل لاء فوجی وزیراعظم بننے کا اعزاز بھی ایوب خان کو ملا لیکن قائداعظم کا پاکستان بوٹوں کی زد میں رہا ۔ اس وقت کی سپریم کورٹ نے اقدمات درست قرار دیکر عدلیہ کے چہرے پرپہلاانمنٹ بدنما داغ لگادیا۔ایوب خانی آمریت سے انتقال اقتدار صدر یحیی خان کو منتقل ہوگیا نور الامین وزیراعظم بنے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعدذ والفقار بھٹو کو ادھر دہم ادُھر تم کے نعرے بعد حکومت دے دی گئی ملک دولخت ہوگیالیکن قائد اعظم نہ ادِھر رہے ادُھر۔ بلکہ مسند وزرات پر بیٹھنے والوں وزیر اعظم کا انجام پھانسی ا دُھر گولی پر ہوا۔ اﷲ میاں کی گائے چوہدری فضل الہی نے اپنی صدارت میں شرافت کیساتھ جنرل ضیا الحق کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا دیا اورعدلیہ کے چہرے پر دوسرا بد نما داغ 10نومبر 1977ء سپریم کورٹ کیجانب سے" نظریہ ضرورت "کی اصطلاح کی ایجاد کیساتھ سجا ۔اس بار انتقال اقتدار کا دور طویل رہا اسلام کے نام پر قائد اعظم کو جہاد کے نام پر نافذ کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن اوراور جنرل ضیا ء طیارہ حادثے میں خود قائد اعظم کے خدا کے پاس پہنچ گئے۔ غیر مدافعتی وزیراعظم محمد خان جونیجو زیادہ نہ چل سکے اور آرٹیکل 58/2Bکے تحت اِن کو کابینہ کیساتھ گھر بھیج دیا گیا۔ بینظیر صاحبہ کو دو مرتبہ انتقال اقتدار کا تاج پہنایا گیا لیکن دونوں بار انہی کے صدورنے گھر بھیج دیا نہ بھٹو کا خواب پورا ہوا نہ قائد اعظم نوٹوں سے باہر آسکے ۔ نواز شریف بھی دومرتبہ سہرا اپنے ماتھے پر سجا چکے ہیں لیکن انھیں بھی انہی کے دست راستوں نے رخصت کراکے جنرل مشرف کو قا ئداعظم کا سب سے پہلے پاکستان بنانے کا موقع ملا لیکن قائد اعظم اب بھی انتظار میں تھے کیونکہ سعودیہ جانے والوں نے اگلے وقت کیلئے کراچی میں چھوڑ دیاتھا۔پرویز کی پاکستا ن میں ہمیں دہشت گردی کی جنگ میں اربوں ڈالرز کے نقصانات کی صورت میں آج تک مالی اور جانی نقصان کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ صدررفیق تارڑ، غلام مصطفی جتوئی ، بلخ شیر مزاری، معین قریشی"، ملک معراج خالد،چوہدری شجاعت حسین بھی قائد اعظم کا پاکستان نہ بنا سکے۔ صدر زرداری جیسے" مفاہمتی ماہر" کئی سال سے کوشش کر ر ہے ہیں لیکن جب تک بھٹو ززندہ ہے ، قائد اعظم کا پاکستان نہیں بنا سکتے۔ ا۔اب دوبارہ سب کا دعوی ہے ہمیں موقع دے دو ہم قائد اعظم کا پاکستان بنا کر رہیں گے۔ باہمی ریشہ دوانیوں، اقتدار کی رسہ کشی، نااہل حکمرانوں کو زبردستی مسلط کرنے کی روایت اور پھر محلاتی سازشوں کے ذریعے پاکستانی حکمران اس قدر تیزی سے تبدیل کئے گئے کہ کسی غریب کے پہننے کا جوڑا بھی پُرانا نہیں ہوتا تھا کہ انتقال اقتدار کے ذریعے" ملکی حکمران" بدل جاتا تھا لیکن قائد اعظم نوٹوں پر رنگ ہی بدلنے تک محدود رہے ۔ پاکستان ایک طرف سیاست دانوں کی ریشہ دوانیوں سے نہیں نکل سکا تو دوسری جانب انہی سیاست دانوں کی شرمناک غلطیوں کی وجہ سے بار بار ہم پر متعددجنگیں بھی مسلط ہوئیں، ملک دولخت ہوااور ڈکٹیٹرگِدھ بن کر" مُردہ عوام" کا گوشت کھاتے رہے ۔ مُردہ عوام اس لئے کہ یہی عوام ہی تو ہیں جو کبھی فوجیوں کی بوٹ پر تھرکتے ہوئے رقص کرتے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی کوڑے کھا کر تلملاتے ہیں ، تو کبھی مورثی سیاست کے جاگیرداروں ، وڈیروں، سرمایہ داروں ، سرداروں ، ملکوں، خوانین اور بیورو کریٹس کو اپنا" مائی باپ "بنا لیتے ہیں ، جب یہ بھوکے پیاسے سیاسی درندے عوام کی چیر پھاڑ کرتے ہیں تو یہی عوام ، مر گئے ، تباہ ہوگئے ، لوٹ گئے ،کے نعرے بلند کرکے "بیرونی آقاؤں کے غلاموں "کے جوتے صاف کرتے نظر آتے ہیں کہ امریکہ کو کہو ناں کہ ڈرون حملے بند کرے ، بابا ، سائیں ،چوہدری صاحب ، خانصاحب ہمیں امن دو ناں ، دہشت گردی ختم کراؤ نا ں، سائیں بچہ بھوکے ہیں انھیں روزگار دلاؤ ناں ، ڈر لگتا ہے ، ٹارگٹ کلنگ ختم کراؤ نا ں، کہیں جا نہیں سکتے اغوا برائے تاوان رکواؤ نا ں، بھتہ خوری، جگا ٹیکس پر پابندی لگاؤ نا ں،گرمی بہت ہے لوڈ شیڈنگ ختم کراؤ ناں ۔ہم توسب اﷲ رسول ﷺ کے ماننے والے ہیں ہمیں مسلک کے نام" شہید "مت کراؤ ناں ، بچے یتیم ہوکر گلی گلی بھیک مانگتے ہیں۔اصل المیہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت جس" بات" پر سب سے زیادہ زور دیتی ہے اُس سے عوام سمجھ جاتی ہے کہ حکومت یہ "کام "نہیں کرے گی ۔ حکومت کہتی ہے کہ امن وامان کی بحالی ،لوڈ شیڈنگ، مہنگائی،گراں فروشی ،بے روزگاری کا خاتمہ، پارلیمنٹ کی بالا دستی ، عدلیہ کے احکامات کی پابندی، آئین کی پاسداری، رشوت ، اغوا برائے تاوان ، بھتہ خوری ، جگا ٹیکس ،پرچی سسٹم ، اقربا پروری کے بجائے میرٹ ، فرقہ پرستی ، لسانیت ٹارگٹ کلنگ اوردہشت گردی کا قلع قمع کرنا ، لاپتہ افراد اور بلوچستان کا مسئلہ کے حل ہماری" بنیادی ترجیحات" ہیں ،لیکن ان سب کا دور دور تک نام و نشان نہیں ملتا ۔ بلدیاتی انتخابات کراتے ہوئے تمام حکومتوں کی جان نکلتی رہی ۔ شفاف انتخابات کرانے کا حوصلہ کہاں سے لاتے۔ ویسے بھی پاکستان میں تو" اپوزیشن" کا تصور ہی نہیں رہا ، جس کاسہرا یقینی طور پر صدر زرداری کو جاتا ہے جنھوں نے جمہوریت کی تمام اصولوں کو الٹ پلٹ کردیا ہے ۔ شدید ترین مخالف کو قریب ترین دوست بنانے میں خصوصی مہارت کا ملکہ حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ عوام سوچنے پر مجبور اور ڈر لگا ہوا ہے کہ حکومت نے جس جس بات پر زور ڈالا ہے وہ کرنے کے بجائے نہ کرنے پر زیادقوت صَرف کی ہے۔ اس لئے عام انتخابات کے حوالے سے تمام جماعتوں کو تحفظات حاصل ہیں اور اتحادی جماعتوں کے رہنما ء تک خود ایک دوسرے سے پوچھتے نظر آتے تھے کہ منظور وسان نے "خواب" دیکھا کہ نہیں ؟۔سچ بات یہ ہے کہ جب سے سیاسی جماعتوں نے عوام کو بے وقوف بنانے کا سلسلہ شروع کیا ہے ۔ عوام نے بھی بے وقوف بننے کے تما م ریکارڈ توڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ کیا کبھی کسی نے پوچھا کہ بھائی آپ جو اتنے بڑے بڑے جلسے کر رہے ہو ایسے کون سے خدا ترس لوگ ہیں جو کروڑوں روپے" چندے "کے شکل میں صرف اس لئے دیتے ہیں کہ چند گھنٹے ، مداری ہم سے ٹک ٹک ٹک کرکے پوچھتے رہیں، بچہ جو پوچھوں گا ، بتلائیے گا ۔ جو کہوں کر ے گا۔ ہم بھی بندر کی طرح اچھل اچھل کر کہتے ہیں ، بتائیں گے ، جو کہو گے وہ بے سوچے کریں گے ۔ قائد اعظم کو پنجا بی ، سندھی ، اردو ، پشتو ، بلوچی ، شیعہ ، سُنی لوگوں کی زبان سمجھ نہیں آتی ۔ پہلے کسی" پاکستانی" کو ڈھونڈو تاکہ وہ انھیں سمجھ سکے اور ہاں مشورہ ہے کہ ابھی بھی انتخابات کا مرحلہ باقی ہے کیوں غلام ابن غلام بنتے ہو ؟ -"نقیب ِ انقلاب" بن جاؤ تو سمجھ جاؤ گے۔ ورنہ انتقال اقتدار کے بعد پھر چیخو گے اور پانچ سال تو کیا پچاس چیختے ہی رہو گے لیکن اس چیخنے ، دھاڑنے کا کوئی فائد ہ نہ ہوگا ۔ بس ایک موقع ہے آپکے پاس ، گیارہ مئی !!اگر آپ نے قائد اعظم کا پاکستان بنانا ہے تو بنا لیں گیارہ مئی کو ، نئے کپڑے پہنے ہوئے پرانے اُن چہروں کومسترد کرکے جو صرف نوٹوں پر بنے قائد اعظم کو پسند کرتے ہیں ۔ قائد اعظم کا وہ پاکستان ، جو انھوں نے دو قومی نظرئیے کے تحت حاصل کیا تھا ۔باقی آپ کی بھی مرضی !!۔۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 659054 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.