خدا حافظ پاکستان

ہم اس وقت کھانا کھاتے ہیں جب ہمیں بھوک کی اشتباہ ہو، اس وقت پانی پیتے ہیں جب پیاس کی طلب ہو، اس وقت بن سنور کر نہا دھو کر نکلتے ہیں جب کسی فنکشن یا دفتر وغیرہ جانا ہو، اس وقت ہنستے ہیں جب کوئی مزاحیہ بات یا ڈایئلاگ سننے پڑھنے کو ملے، اس وقت روتے ہیں جب کسی غم سے پالا پڑ جائے- گویا کھانا، پانی پینا، بن سنور کر نکلنا، ہنسنا اور غم میں مبتلا ہونے کے پیچھے کوئی عمل یا عوامل کارفرما ہوتے ہیں جو ہمیں کھانے، پینے، ہنسنے پر اُکساتے ہیں- اسی طرح ہر کام، عمل یا واقعے کے پیچھے بھی اس کا کوئی نا کوئی محرک ہوتا ہے، وہ واقعہ کسی اور واقعہ کی وجہ سے برآمد ہوتا ہے- کوئی بھی واقعہ یا عمل یا کام بذاتِ خود محرک نہیں ہوتا بلکہ اس کے وقوع پذیر ہونے کے پیچھے کوئی چیز، کوئی خیال، کوئی واقعہ، زمینی حقائق وغیرہ پوشیدہ ہوتے ہیں جو محرک کہلاتے ہیں-

ان دنوں صوبہ سرحد کے شورش زدہ علاقوں میں پاکستان آرمی نے ‘شدت پسندوں‘ اور ‘طالبانوں‘ کے خلاف وسیع پیمانے پر آپریشن شروع کیا ہوا ہے اور اسی بابت وزیراعظم پاکستان نے اپنے قوم سے خطاب میں واضح طور پر کہا ہے کہ پاکستان کو ‘شدت پسندوں‘ سے پاک کرکے دم لیں گے- اب سوال یہ ہے کہ سوات میں اچانک بڑے پیمانے پر فوجی کاروائی جسے ‘جنگ‘ کہنا بے جا نہ ہوگا، کی کیونکر ضرورت پیش آئی؟ اس کا محرک کیا ہے؟ نیز وزیراعظم پاکستان کو اچانک ‘قوم سے خطاب‘ کرنے کی ضرورت کیوں آن پڑی؟ اسکا محرک کیا ہو سکتا ہے؟

صدر ِپاکستان کے دورہ امریکہ کے دوران امریکی سول و ملٹری انتظامیہ کے پاکستان بارے عجیب و غریب بیانات، کبھی تولہ اور کبھی ماشہ جیسا کردار، پاکستان میں جمہوریت کی حمایت اور جمہوری حکومت کو پاک فوج پر دباؤ بڑھانے کے بیانات، پاک فوج پر عدم اعتماد کا سا تاثر، فوجی حکومت کی سخت الفاظ میں مذمت وغیرہ جیسے امریکہ کے تازہ ترین بیانات و تاثرات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہی وہ محرکات ہیں جس سے وزیرِاعظم پاکستان کو ‘قوم سے خطاب‘ کرنا پڑا اور سرحد میں ‘شدت پسندوں‘ کے خلاف پاک فوج کے آپریشن میں یکدم تیزی آئی- اب ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ کیا سوات میں فوجی آپریشن یا ‘نظام عدل معاہدہ‘ کا بے وقعت ہوجانا پاکستان کے مفاد میں ہے یا یہ سب اندرونی و بیرونی دباؤ ہی کے نتیجے میں کیا گیا ہے؟

اس سوال کے جواب کے حصول کے لیے ہمیں پہلے تو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آخر ‘استعمار‘ ہماری پاک فوج یا ‘آئی ایس آئی‘ کو ‘مشکوک‘ کیوں سمجھتا ہے اور اور بار بار اس پر دباؤ ڈالنے کا واویلا کیوں کرتا ہے؟ بمطابق راقم، ‘استعمار‘ ملک میں شدت پسندوں کے خلاف پاک فوج کی کاروائیوں سے اس لیے مطمئین نہیں ہے، اس لیئے ‘آئی ایس آئی‘ کو طالبانوں سے خلط ملط کیا جاتا ہے تاکہ وہ خود پاک دھرتی میں قدم رنجہ فرما سکے، ‘عالمی سامراج‘ کا پاکستان کی ‘شدت پسندی‘ کے خلاف نبٹنے کی تمام کوششوں، تمام معاہدوں، تمام آپریشنز کو شک کی نظروں سے دیکھنا یہ ثابت کر دیتا ہے کہ اسکے ہاتھوں کو ‘خارش‘ ہو رہی ہے، اب اس سے مزید ‘صبر‘ نہیں ہوسکتا، اب وہ دہشتگردی کی آڑ میں ‘خیمے‘ (جنوبی ایشیا) میں ‘مزید جگہ‘ (پاکستان میں در کرکے) گھیرنا چاہتا ہے- لیکن کیسے؟ اسے کوئی جواز ملے گا تو ہی در کرے گا؟

آفرین ہے کہ ہماری جمہوری حکومت بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ‘عالمی استعمار‘ کی ایک نہیں چلنے دے رہی اور اس کی ہر سازش کو دوراندیشی سے بھانپ کر اس سازش کا بروقت توڑ کر رہی ہے- اسی طرح ہماری پاک فوج جو کہ عین ضیاالحقی فوج کی ضد ہے، پاکستان کی سلامتی کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہے اور ہمارے سپاہی وطن کی حفاظت کے لیے، پاکستان کو ‘استعمار‘ کے ہاتھوں میں جانے سے بچانے کے لیئے قربانیاں دے رہے ہیں- صوبہ سرحد میں فوج کے آپریشن میں جنگی بنیادوں پر اچانک کاروائی کا آغاز بھی پاکستان کی سالمیت کی برقراری کی ہی طرف ایک قدم ہے، اس اپریشن کا بینادی مقصد جہاں ‘طالبانائزیشن‘ سے آہنی ہاتھوں نبٹنا ہے وہیں پر اتحادیوں کے پاک فوج کے خلاف پراپیگنڈہ کا بھرپور جواب دینا ہے کہ پاک فوج ‘طالبانائزیشن‘ کو در پردہ ‘سپورٹ‘ نہیں کر رہی اور ساتھ ہی اسکا بنیادی مقصد ‘استعمار‘ کو ‘اِن ایکشن‘ ہونے سے روکنا ہے یعنی پرے پرے ہی افغانستان تک محدود رکھنا ہے- پاک فوج تجھے سلام-

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں موجود تمام شدت پسند و دہشتگرد ‘غیرملکی‘ ہیں، یا کرائے کے قاتل ہیں- ان میں کوئی بھی پاکستانی شامل نہیں ہوسکتا- کوئی اپنے ہی گھر کو کیونکر ‘غیروں‘ کے ہاتھوں دے سکتا ہے؟ ہاں یہ ممکن تب ہے جب ‘آستین کے سانپ‘ موجود ہوں، جب کالی بھیڑیں پائی جاتی ہوں، لیکن سوال یہ ہے کہ ان کالی بھیڑوں کی اتنی تعداد کیسے ہو سکتی ہے کہ وہ پاکستان کی مسلح فوج کے سامنے ‘ڈٹ‘ جائے؟ یہ بات ثابت کر دیتی ہے کہ ‘طالبانائزیشن‘ ملکی مسئلہ نہیں بلکہ اسکو ملکی مسئلہ بنانے کے لیئے باقاعدہ ایک ‘لانگ ٹرم‘ منصوبہ بندی کی گئی ہے، پاکستان کو پھنسانے میں ملک میں موجود ‘غیرملکی‘، بھارت و افغانستان سرحدوں سے ‘دراندازی‘ اور ڈالروں کے عوض بکنے والے بےضمیر لوگ اور سیاستدان پیش پیش ہیں-

ذرا بغور جائزہ لے کر دیکھا جائے تو ‘طالبانائزیشن‘ کے خودکش دھماکوں، اسکی ‘شریعت‘، اسکا سکولوں کی تباہی کرنا، لڑکیوں کی تعلیم کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑنا، اغوا برائے تاوان کی کاروائیاں کرنا، گلے کاٹنا، کان کاٹنا، کوڑے مارنا وغیرہ جیسے واقعات کی سرزنش و مذمت کرنے کے لئے سیمینارز منعقد کرنا، علما کانفرنسوں کا انعقاد کرنا، طالبانوں کی ان غیر انسانی و سنگدلانہ کاروائیوں کو ‘اسلام‘ کے ساتھ نتھی کر کے ‘اسلام‘ کا دفاع کرنا، ‘ٹیلیفونک خطابوں‘ کی سیریز برپا کرنا اور انکو سماعت فرمانے کے لیے خواتین کو گھیر گھار کر یا کچھ دے دلا کر اکٹھا کر کے ‘حقوقِ نسواں‘ کا علمبردار بننے کی کوشش کر کے سیاست چمکانا، یہ سب اعمال، یہ سب باتیں، یہ سب سیاست، یہ سب فلسفہ بلواسطہ طور پر ‘استعمار‘ کے اسلام، پاکستان اور پاک آرمی کے خلاف کیئے جانے والے پراپیگنڈہ کو سپورٹ کرتا ہے کہ ملک کو ملکی ہی تباہ کر رہے ہیں، ان کے پیچھے کوئی بھی ‘غیرملکی‘ کام نہیں کرتا، ہمارا مذہب ‘اسلام‘ اسکی اجازت نہیں دیتا، دہشتگردی کے خلاف جنگ واقع ہی دہشتگردی کے خلاف ہے، امریکہ سچا ہے، وہ ‘انسانیت‘ کا داعی و مبلغ ہے- حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے- ایسے طریقے سے سیاست چمکانے والے لوگ کیونکر پاکستان سے مخلص ہوسکتے ہیں جو ‘عالمی استعمار‘ کو در کروانے کے لئے دیدہ یا نادیدہ طور پر راہ بنا رہے ہوں؟ ایسے لوگوں کو سیاستدان کیسے کہا جا سکتا ہے؟ ان کے لیے تو ‘آستین کا سانپ‘ لفظ ہی صحیح فِٹ بیٹھتا ہے-

اس وقت سوات میں جاری فوجی اپریشن میں متاثرہ افراد کی محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی اور پناہ گزیں کیمپوں میں پناہ لینے کا سلسلہ جاری ہے اور بعض متاثرہ افراد بڑے شہروں بالخصوص کراچی میں جا رہے ہیں- لیکن افسوس صد افسوس، کہ کراچی پر ‘حکومت‘ کرنے والا ایک چھوٹا سا لسانی گروہ ان متاثرہ افراد کی آمد کو کراچی میں ‘طالبانائزیشن‘ کی آمد گردان کر چیخ و پکار کر رہا ہے اور پورے پاکستان کو ‘دہشتگردی‘ کی آڑ میں دیدہ یا نادیدہ ‘تورا بورا‘ بنانے کے عمل میں ‘استعمار‘ کی خواہش کو عملی جامعہ پہنا رہا ہے- کیا ایسی حرکت کوئی پاکستانی کر سکتا ہے؟ کیا ایسی حرکت کا مرتکب گروہ پاکستانی کہلا سکتا ہے؟ قطعاً نہیں- یہی وجہ ہے کہ راقم، ‘کراچی‘ پر بزور ووٹ کی بجائے بزورِ دہشت قابض ٹولہ کو ‘غیرملکی‘ کہتا ہے اور یہی حقیقت بھی ہے- اگر کسی نے اس حقیقت کو دیکھنا ہو تو وہ ضیاالحق کے دورِآمریت اور اس نے اپنی آمریت کو طول دینے اور اپنے مخالفین مثلاً پاکستان پیپلز پارٹی کو ختم کرنے یا اس کا اثر کم کرنے کے لیئے جو جو سیاہ کارنامے سر انجام دیئے تھے، کا مطالعہ فرما لے- دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ الگ ہو جائے گا-

سرحد کے شورش زدہ علاقوں میں جاری آپریشن کے بارے میں پاکستان فوج کے ترجمان اپنی بریفنگ میں بتاتے ہیں کہ آپریشن میں متعدد شدت پسندوں کی ہلاکت واقع ہوئی ہے- لیکن ‘میڈیا‘ بالخصوص ‘غیرملکی میڈیا‘ ان ہلاکتوں کو پاکستانی فوج کا ‘دعویٰ‘ قرار دے کر ایک بار پھر ہماری فوج کی دہشتگردوں کے خلاف جاری جنگ کو ایک ‘ڈرامہ‘ قرار دلوانے کے لیے سرگرم ہو چکا ہے تاکہ ‘افغانستان‘ کو ‘پاکستان‘ میں لانے کی راہ ہموار کی جائے- اب سوال یہ ہے کہ آخر وہ کونسا طریقہ باقی بچتا ہے کہ جس سے پاکستان کو جس طرح ہمارے فوج، ہماری حکومت نے نو سال سے آکسیجن کا سلنڈر لگائے رکھا ہے، اس میں آکسیجن ختم نہ ہو؟ کیسے پاکستان کو بھنور سے نکالا جا سکتا ہے؟ جہاں تک فدوی کا خیال ہے، اس کا ایک ہی حل ہے کہ ‘سارک‘ تنظیم کے ممالک حرکت میں آئیں اور بسمہ اللہ پڑھ کر ‘افغانستان‘ کو ‘آزاد‘ کروا لیں- بصورت دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کو یاد رکھنا چاہیے کہ ‘دہشتگردی‘ کی آڑ میں لڑی جانے والی مغرب کی جنگ ایک ‘چھوت کی بیماری‘ ہے جو ان ممالک کو بھی آج نہیں تو کل لگ ہی جائے گی- کیوں؟ کیونکہ جس طرح آندھی آنے کے آثار پہلے ہی نظر آ جاتے ہیں اسی طرح موجودہ حالات بھی آنے والے حالات کا اتہ پتہ دے ہی دیتے ہیں- اگر ہمسایہ ممالک مسئلہ کی نزاکت وسنجیدگی کو نہیں سمجھتے اور پاکستان کا بھرپور ساتھ بالخصوص پاکستان کے حق میں ‘میڈیا وار‘ نہیں چلاتے تو شاید جلد یا بدیر: ‘خدا حافظ پاکستان !‘-

‘اشارہ کُوچ کا تو ہو چکا ہے دیر سے مگر
بچھا رکھی ہے زندگی نے گھات درمیان میں‘ 
Najeeb Ur Rehman
About the Author: Najeeb Ur Rehman Read More Articles by Najeeb Ur Rehman: 28 Articles with 68550 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.