۱۹۷۷ کے بعد پی پی پی پنجاب
میں کبھی بھی اپنی حکومت تشکیل نہیں دے سکی۔۱۹۷۰ میں ذولفقار علی بھٹو نے
پہلے انتخابات میں ہی اپنے سارے مخالفین کو چارں شانے چت کر کے پنجاب پر
اپنی حاکمیت کا جھنڈا گاڑ کر پی پی پی کی حکومت قائم کر لی تھی۔وہ لوگ جو
سیاست کے رموز سے واقف ہیں انھیں خبر ہو نی چائیے کہ پنجاب کے رو ائیتی سیا
ستدانوں ، جاگیرداروں اور نوابوں کو صرف انہی انتخا بات میں شکستِ فاش کا
سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ اس کے بعد انھوں نے بھی نئی حکمتِ عملی ترتیب دے
کرخود کو محفوظ بنا لیا تھا ۔ یہ ایک ایسا پر امن انقلاب تھا جو پاکستان کی
دھرتی پر پہلی بار وقوع پذیر ہوا تھا او رجسکی قیادت ذولفقار علی بھٹو جیسے
لاجواب انقلابی کے ہاتھوں میں تھی۔اس نے محروم طبقات کی طاقت سے وہ انقلاب
پرپا کیا تھا جو ناممکن دکھائی دیتا تھا ۔ ہم آج ۴۳ سال گزر جانے کے بعد اس
زمانے کے جذبوں کی صداقت کو کسی بھی طرح سے ماپ نہیں سکتے کیونکہ تا حال
کوئی ایسا پیمانہ ایجاد نہیں ہو سکا جو دلی جذ بات کا مکمل احاطہ کرکے
انھیں بیان کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ان انتخابات کے بعد پنجاب کے سارے
روائتی جاگیر داروں نے پی پی پی میں شمولیت اختیار کر لی اور یوں پر امن
انقلاب کے رخ کو موڑ نے کی کوشش کی۔انھوں نے ذولفقار علی بھٹو کو دائیں
بائیں سے گھیرے میں لے لیا تھا اور انھیں اپنی وفا داری کا یقین دلاتے رہے
جو بالکل جھوٹ تھا ۔انھیں یقین تھا کہ پی پی پی میں پناہ گزین ہو جانے سے
وہ انقلاب کی حد ت سے محفوظ ہو جائینگئے ،انقلاب کی رفتار کو دھیما بھی کر
سکیں گئے اور خود کو محفوظ بھی کر سکیں گئے۔انہیں ایسا سوچنے کی مکمل آزادی
تھی لیکن وہ یہ بھول رہے تھے کہ ذو لفقار علی بھٹو اب بھی قائدِ عوام تھے
اور عوامی انقلاب سے انکی کمٹمنٹ اور رومانس میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں
آیا تھا ۔ یہ سارے کے سارے لوگ مفاد پرست ،مکار،جھوٹے اور خو شامدی تھے اور
ہر حال میں اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے تھے کیونکہ جیسے ہی ۵ جولائی ۱۹۷۷
کو جنرل ضیاا لحق نے شب خون مار کر اقتدار پر قبضہ کیا یہ سارے کے سارے
پنچھی ذولفقار علی بھٹو کو داغِ مفارقت دے کر مارشل لاء کے گھونسلے میں جا
بیٹھے اور اپنے اپنے مفادات کا دانہ دنکا چغنے لگے ۔ذو لفقار علی بھٹو کے
قتل میں یہ بھی اتنے ہی مجرم تھے جتنا جنرل ضیا الحق مجرم تھا لیکن اسکا
کیا کیا جائے کہ یہ پھرنئے سوانگ بھر کر پی پی پی میں شامل ہو تے رہے ،آتے
رہے جاتے رہے اور اپنی اہمیت اجاگر کرتے رہے۔انھیں علم ہے کہ پاکستان میں
جمہوری کلچر انتہائی کمزور ہے ۔ سیاسی جماعتوں میں خود جمہوریت نہیں ہے
لہذا ان کی اہمیت مسلمہ رہے گی جسے کوئی بھی جماعت نظر انداز نہیں کر سکے
گی۔اگر پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں جمہوریت ہوتی اور یہ اپنے اپنے
خاندانوں میں وراثتی اثرات سے بالا تر ہوتیں تو ان عناصر کی اہمیت بالکل
ختم ہو گئی ہوتی اور ہمارا جمہوری کلچر کافی مضبوط اورتو انا ہو گیا ہوتا ۔
لیکن ہمارے ہاں نہ تو جماعتوں میں انتخا بات کی کوئی روائت موجود ہے اور نہ
ہی قیادت کو اپنے خاندانوں سے باہر کسی کے حوالے کرنے کی کوئی مثال موجود
ہے جس کی وجہ سے کرپٹ عناصر پارٹی قیادت کے قریب ہو جاتے ہیں اور ا پنے
اقتدار کے دوام کی خاطر غیر جمہوری طرزِ فکر کی حامل قیادت کی حوصلہ افزائی
کرتے ہیں ۔ ایسی قیادت سیاست کو شطرنج کا کھیل سمجھتی ہے اور شطرنج سمجھ کر
ہی کھیلتی ہے۔انھیں اپنے غیر عوامی رویوں کی و جہ سے یہ یاد نہیں رہتا کہ
سیاست شطرنج کا کھیل نہیں بلکہ عوامی محبت کا کھیل ہے اورانھیں آخری فیصلے
کیلئے عوامی عدالت میں جانا ہوگا۔شیشے کے گھر میں بیٹھ کر سیاست کو شطرنج
کا کھیل سمجھنے والوں کا مقدر شکست ہی ہوتی ہے اور ان کی جھو لی عوامی محبت
سے خا لی ر ہتی ہے لیکن جو کوئی سیاستدان سیاست کو اس کے مقرر کردہ پیمانوں
کے مطابق کھیلتا ہے آخری فتح اسی کا مقدر بنتی ہے۔ذو لفقار علی بھٹو وہ
واحد سیا ستدان تھا جس نے اسے اس کے حقیقی پیمانوں کے مطابق کھیلا ،عوام سے
محبت کی ،عوام کے ساتھ وفا کی اور اسی وفا کی لاج رکھتے ہوئے سرِ دار بھی
جھول گیا تبھی تو اپنی موت کے چونتیس (۳۴) سالوں بعد بھی وہ پاکستانی سیاست
کا سب سے توانا کردار ہے۔
۲۰۰۸ کے انتخا بات میں پی پی پی کو ایک نادر موقع ہاتھ آیا تھا کہ وہ ایک
دفعہ پھر پنجاب کے قلعے کو فتح کر لے۔اسی سلسلے میں انتخابات کے بعد میں نے
ایک اہم تجویز آصف علی زرداری کو بھیجی تھی کہ ۳۱ سالوں بعد پی پی پی کو
پنجاب میں اپنی حکومت قائم کرنے کا نادر موقع میسر آرہا ہے لہذا اسے سیاست
کی نذر مت کیجئے گا۔جیالے سالہا سال کی جدو جہد کے بعد تھک چکے ہیں لہذا وہ
کچھ دیر کیلئے سستا نا چاہتے ہیں۔انھیں حکومتی ا مور میں شرکت کا جو نادر
موقعہ مل رہا ہے انھیں اس سے مستفید ہونے دیجئے ۔ایسے مواقع بار بار نہیں
آتے۔ایک دفعہ یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا تو پھر پتہ نہیں کتنی دیر اور ا
نتظار کرنا پڑے ۔ اس ای میل کا مجھے تو کوئی جواب موصول نہ ہوا البتہ آصف
علی زرداری نے رائے ونڈ جا کر میاں برادان سے ایک سمجھوتہ کر لیا جسکی رو
سے پنجاب ایک دفعہ پھر میاں برادران کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دیا گیا ۔
میاں برادران تو یہی چاہتے تھے کہ پنجاب پر ان کا حقِ حکومت تسلیم کر لیا
جائے اور وہ اس میں کا میاب ہو گئے تھے۔ستمبر ۲۰۰۸ میں ایوانِ صدر سے جنرل
پرویز مشرف کی رخصتی کے بعد مسلم لیگ (ق) کا فارورڈ بلاک بنا کر میاں
برادران نے اپنے اقتدار کو پکا کر لیااب انھیں پنجاب پر حکومت کرنے کیلئے
پی پی پی یا کسی دوسری جماعت کی ضر ورت نہیں تھی۔وہ اب پاکستان کے ۶۰ فیصد
حصے پر حکمران تھے اور جیالے پہلے کی طرح ایک دفعہ پھر ان کے عتاب کا نشانہ
بن رہے تھے۔پنجاب کے گونر سلیمان تاثیر میاں برادران کیلئے لوہے کا چنا
ثابت ہو رہے تھے لہذا ایک سازش کے تحت انھیں راستے سے ہٹا دیا گیا جس کے
بعد پنجاب میں جیالوں کا کوئی بھی پرسانِ حال نہ رہا۔اس میں کو ئی دو رائے
نہیں کہ ۲۰۰۸ کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) ملک کی اکثریتی جماعت نہیں تھی
وہ کسی بھی صورت مرکز میں اپنی حکومت تشکیل نہیں دے سکتی تھی ۔ مسلم لیگ (
ق)۵۳ نشستوں کے ساتھ تیسری بڑی جماعت تھی جس کی حمائت میاں برادران کیلئے
ممکن نہیں تھی کیونکہ جنرل پرویز مشرف صدرِ مملکت تھا اور مسلم لیگ (ق) اسی
کے زیرِ اثر تھی ۔جنرل پرویز مشرف نے ہی میاں برادران کے اقتدار پر شب خون
مار کر انھیں جلا وطن کیا تھا جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو دیکھنے کے بھی
روادار نہیں تھے ۔ان میں بہت زیادہ دوریاں اور تحفظات تھے جسکی وجہ سے جنرل
پرویز مشرف کی میاں برادران سے مفاہمت ناممکنات میں سے تھی ۔ آصف علی
زرداری اگر عمیق نظری کا مظا ہرہ کرتے تو پنجاب بھی پی پی پی کی قلمرو میں
شامل ہو سکتا تھا۔انھیں جیالوں کے مصائب،ان کی قربانیوں اور تکالیف کا
احساس کرنا چائیے تھا ،اگر وہ ا پنی ذات سے بالا تر ہو کر کارکنوں کی فلاح
کا سوچتے تو پھر پنجاب پر کبھی بھی مسلم لیگ (ن) کا قبضہ نہ ہو پاتا اور پی
پی پی پنجاب میں اپنی سیای موت سے بچ جاتی ۔جیالے پی پی پی سے محبت ضرور
کرتے ہیں لیکن وہ کسی کے ذاتی ملازم تو ہیں نہیں کہ آنکھیں بند کر کے نعرے
بلند کرتے رہیں اورکوئی ان کا پرسانِ حا ل نہ ہو۔اگر قیادت صرف اپنی بقا کی
فکر کرتی رہیگی تو پھر کارکنوں کے مفادات کا تحفظ کون کریگا؟کارکنوں کو بھی
اپنی جدو جہد اور قربانیوں کا صلہ چائیے اور وہ اسی صورت میں ممکن تھا جب
پی پی پی پنجاب میں اپنی حکومت قائم کرکے انھیں شریکِ اقتدار کرتی،انھیں
عزت،مان اور اختیار دیتی تا کہ وہ بھی اپنی سیاسی جدو جہد پر فخر سے سر
اٹھا کر چلتے لیکن ایسانہ کیا گیا ۔انھیں فقط قربانی کا بکرا بنایا گیا اور
غیرا ہم سمجھ کر نظر اندازکیا گیا جس کی سز ا مل کر رہنی تھی۔ آج کے دور
میں میڈیا نے ہر انسان کو اتنا باشعور اور باخبر کر دیا ہے کہ اب وہ دوسروں
کے ہاتھوں میں کھلونا بننے کی بجائے اپنے سودو زیاں پر نظر رکھتا ہے جس کی
وجہ سے اسے دلفریب نعروں کی مدد سے بیوقوف بنا نا ممکن نہیں رہا ۔ میاں
برادران کو دباؤ میں رکھنے کیلئے ضروری تھا کہ انھیں اقتدار سے دور رکھا
جاتا تاکہ وہ اپنی بقا کی جنگ لڑتے رہتے اور یوں پی پی پی ہر دباؤ سے بے
نیاز ہو کر عوامی فلا ح و بہبود کے پروگراموں سے اپنی جڑیں عوام میں گہری
اور مضبوط کر لیتی اور یوں وہ ۲۰۱۳ کے انتخابات بڑے دھڑلے اور جذبے سے
لڑتی لیکن وہ ایسا کرنے سے قاصر رہی جسکا خمیازہ اسے موجودہ انتخابات میں
شکست کی صورت میں بھگتنا پڑا۔۔۔۔۔۔۔ |