الیکشن میں مذہبی جماعتوں کی مایوس کن کارکردگی

2013ءکے انتخابات ہوچکے اور انتخابات میں تاریخی دھاندلی والے نتائج بھی سب کے سامنے آچکے ہیں۔مسلم لیگ (ن) نے میدان مار لیا۔پی پی اور اے این پی نے پانچ سال جو بویا وہ انتخابات میں کاٹ لیا،تحریک انصاف ایک بڑی جماعت بن کر سامنے آئی۔ اور ”ایم کیو ایم“اس نے اپنی روایت کو برقرار رکھا۔ رہی مذہبی جماعتیں! ان انتخابات میں ان کے ساتھ بالکل وہی کچھ ہوا ہے جس کی توقع ایک عرصے سے ہر باشعور انسان کو تھی۔مذہبی جماعتوں کو ان انتخابات میں انتہائی قابل افسوس اور ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔لے دے کے ملک بھر سے جُھنگے میں گنتی کی چند سیٹیں ملی ہیں جن کی تعداد ایک ہاتھ کے پوروں کے برابر بھی نہیں۔حالانکہ ان انتخابات میںمذہبی جماعتوں نے سیاسی پارٹیوں کے ساڑھے 13ہزار امیدواروں کے مقابلے میں 1800 امیدوار میدان میں اتارے تھے۔اعدادوشمار کے مطابق مذہبی جماعتوں کے قومی اسمبلی کے 650 سے زائد اور صوبائی اسمبلی کے 1100 کے قریب امیدواروں نے عام انتخابات میں حصہ لےا۔ جمعیت علماءاسلام (ف) کے قومی اسمبلی کے لیے امیدواروں کی تعداد کچھ اس طرح تھی، پنجاب سے 90، سندھ سے 21، بلوچستان سے 25 اور خیبرپختونخوا کی تمام سیٹوں پر امیدوار تھے۔ جمعیت علماءاسلام نے صوبائی اسمبلی کے 130حلقوں سے امیدوار میدان میں اتارے تھے۔ متحدہ دینی محاذ کے قومی اسمبلی کے لیے پنجاب سے 53، خیبر پختونخوا سے 22، سندھ سے 25، بلوچستان سے 2 اور صوبائی اسمبلی کے لیے خیبر پختونخواہ سے 39، بلوچستان سے 15، سندھ سے 53 اور پنجاب سے 71 سیٹوں پر امیدواروں نے الیکشن لڑا۔ سنی اتحاد کونسل نے قومی اسمبلی کی 22 اور صوبائی اسمبلی کے ضمن میں پنجاب سے 40، سندھ سے 11، خیبرپختونخوا سے ایک اور بلوچستان سے 6 حلقوں میں انتخابات میں حصہ لیا۔

اسی طرح جماعت اسلامی نے قومی اسمبلی کے 156 اور صوبائی اسمبلی کے 345 حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کیے۔ سنی اتحاد کونسل (مشہدی گروپ) نے صرف صوبائی اسمبلی کی تین سیٹوں پر الیکشن لڑا۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث نے قومی اور صوبائی اسمبلی کی ایک ایک سیٹ پر الیکشن لڑا۔ سنی تحریک نے قومی اور صوبائی اسمبلی کی 183 سیٹوں پر امیدوار نامزد کیے، جس میں قومی اسمبلی کی 48 اور صوبائی اسمبلی کے حوالے سے پنجاب سے 62، سندھ سے 57، خیبر پختونخواہ سے 6 اور بلوچستان سے 7 امیدوار انتخابی اکھاڑے میں اترے۔ جمعیت علماءاسلام پاکستان (نورانی) کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے 210 امیدوار تھے۔ قومی اسمبلی کے حلقوں کے لیے پنجاب سے 33، سندھ سے 20، خیبر پختونخواہ سے 9 اور بلوچستان سے 4 اور صوبائی اسمبلی کے ضمن میں پنجاب سے 79، سندھ سے 33، خیبر پختونخوا سے 21 اور بلوچستان سے 10 امیدواروں نے حصہ لےا۔ایک اور مذہبی جماعت نے بھی پاکستان کے قومی اسمبلی سے 37 اور صوبائی اسمبلیوں سے 70 امیدوار الیکشن کے لیے نامزد کیے تھے۔انتخابات میں ذلت آمیز شکست کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ مذہبی جماعتوں کے اتنے زیادہ امیدواروں میں سے قومی اسمبلی کی 11سیٹیں جمعیت علماءاسلام اور صرف 3سیٹیں جماعت اسلامی کو ملی ہیں۔اس کے علاوہ صوبائی اسمبلی میں تمام مذہبی جماعتوں کو تیس سے بھی کم سیٹیں ملی ہیں۔حالات کے پیش نظر اتنی سیٹوں کو بھی زیادہ سجھا جانا چاہیے ورنہ امید تو اتنی سیٹوں کی بھی نہ تھی۔یاد رہے کہ مذہبی جماعتوں نے 2002میں انتہائی کم امیدوار کھڑے کیے اور ایک پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ کے قومی کی 63سیٹیں جیتیں تھی۔

انتخابات سے قبل مذہبی جماعتوں نے انتخابات میں کامیابی اور زیادہ سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کے لیے بعض سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد اور سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بھرپور کوشش کی لیکن ناکامی ہوئی۔

مسلم لیگ (ن) نے پہلے جے یو آئی (ف) کو اپنے ساتھ لگایا اور وقت گزرنے کے ساتھ ہی پیچھے ہو گئے اور پی ٹی آئی کے ساتھ جماعت اسلامی کے ہونے والے مذاکرات ناکام ہوئے، جماعت اسلامی نے (ن) لیگ سے بھی رابطہ کیا، معاملات آگے بڑھے لیکن (ن) لیگ کی طرف سے بھی جماعت اسلامی کو جواب مل گیا۔ سنی تحریک بھی مسلم لیگ (ن) کے پیچھے پیچھے تھی لیکن ناکام رہی۔ (ن) لیگ نے اس سے قبل شیخ وقاص کے بہانے اہلسنت والجماعت سے بھی جان چھڑائی لی تھی۔ اسی طرح دوسری کئی چھوٹی دینی سیاسی جماعتوں نے پی ٹی آئی اور ن لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی کوشش کی لیکن وہ کوشش بارآور ثابت نہ ہوسکی۔ الیکشن سے تقریباً ایک مہینہ پہلے بندہ انہی صفحات پر یہ لکھ چکا ہے کہ اطلاعات کے مطابق ملک بھر کی تمام مذہبی سیاسی جماعتوں اور مذہبی شخصیات کو پارلیمنٹ تک پہنچنے سے روکنے کے لیے مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، ایم کیو ایم، اے این پی اور مسلم لیگ(ق) سمیت تمام سیاسی پارٹیوں کو مذہبی جماعتوں سے اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے سے روکنے کے بیرونی ایجنڈے کا انکشاف ہوا۔ جس کے تحت ان مذہبی جماعتوں سے اتحاد نہیں کیا گیا۔بیرونی سازش کا مقصد 2013ءکے عام انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی پارلیمنٹ سے آئین پاکستان میں موجود اسلامی شقوں کا خاتمہ تھا، ان اسلامی شقوں میں قانون تحفظ ناموس رسالت 295-C اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بجائے عوامی جمہوری پاکستان کی ترامیم بھی شامل ہیں۔ کاغذات نامزدگی کے وقت آئین کی شق نمبر باسٹھ، تریسٹھ کو بے ڈھنگے طریقے سے لاگو کرنا اور اس پر بے حد شور مچانا درحقیقت آئین کی ان شقوں کو نکالنے کے لیے راہ ہموار کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ بیرونی قوتوں کے اشاروں پر پاکستان کی حکومتیں کئی بار پاکستان کے آئین میں موجود اسلامی قوانین کو ختم کرنے،تعلیمی نصاب سے اسلامی مواد کو خارج کرنے،گستاخ رسول کی سزا ختم کرنے اور دوسرے کئی اسلامی قوانیں کو ختم کرنے کی کوشش کر چکی ہےں لیکن وہ اپنی تمام کوششوں میں ناکام رہی ہیں۔ وکی لیکس نے بھی اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ امریکا و برطانیہ سمیت تمام عالمی قوتوں کو 2002ءمیں متحدہ مجلس عمل کی بڑی سطح پر ہونے والی کامیابی کسی طور پر گوارہ نہیں تھی،وہ ہمیشہ انہیں کھٹکتی رہی ہے۔

اندازہ لگایے کہ مذہبی جماعتوں کی وہ نشستیں جن کووہ ایک عرصے سے وہ جیتتے آرہے ہیں اور جن پر الیکشن سے پہلے ہی تجزیہ کار مذہبی جماعتوں کی کامیابی کی یقین دہانی بھی کروا چکے تھے، ان سیٹوں پر بھی بیرونی قوتوں کے اشارے پر امیدواروں کو سازش کے تحت ہروا دیا گیا۔اصل میں بیرونی قوتیں طے کرچکی تھیں کہ اسمبلی میں کم سے کم مذہبی امیدوار جائیں ، اس کے لیے تاریخی دھاندلی بھی کروائی گئی اور نتائج بھی تبدیل کیے گئے۔لیکن اس سب کے باوجود دوسروں سے شکوہ کرنا اس لیے درست نہیں کیونکہ ان حالات کی ذمہ دار یہ مذہبی جماعتیں خود ہیں، اس سب کا مقابلہ تمام مذہبی جماعتیں ایک پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ کے کرسکتی تھیں۔اس کے بعد اگر کسی مذہبی نمائندے کو سازش کے تحت ہروانے کی کوشش کی جاتی تو تمام مذہبی جماعتیں مل کر اس کا مقابلہ کرتیں۔لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، جس کا نتیجہ ان کو شکست کی صورت میں مل گیا۔مذہبی جماعتوں نے آپس میں اتحاد تو کیا کرنا تھا بلکہ ایک دوسرے کے مدمقابل امیدوار لا کر دوسرے مذہبی امیدوار کو شکست دلوانے کی کوشش کی گئی، کیونکہ بہت سے امیدوار ایسے تھے جن کو یقین تھا کہ وہ کامیاب نہیں ہوں گے، اس کے باوجود دوسر ے مذہبی امیدوار کے مقابلے میں کھڑے ہوئے جس سے دونوں امیدواروں نے شکست کا مزہ چکھا۔اس سے بھی بڑھ کر انتخابی مہم کے دوران دونوں جانب کے ڈاڑھی اور پگڑی والے امیدوار عوامی اجتماعات مےں اےک دوسرے کے کپڑے دھوتے رہے۔مذہبی جماعتوں کو خیبر پختونخوا میں سے ہمیشہ زیادہ سیٹیں ملتی ہیں،لیکن اب کی بار مذہبی جماعتوں کا ووٹ تقسیم ہوچکا تھا،خیبر پختونخوا میں ہر سیٹ پر جماعت اسلامی اور جمعیت علماءاسلام کے امیدوار مدمقابل تھے،اس کے علاوہ کئی سیٹوں پر ان دو کے ساتھ متحدہ دینی محاذ اور جمعیت علماءاسلام نظریاتی کے امیدواربھی مدمقابل تھے،اس سے یہ ہوا کہ مذہبی ووٹ چار جماعتوں میں بٹ گیا جس سے دوسری جماعتیں فتح پاگئیں۔اس کے علاوہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں بھی بے شمار ایسی سیٹیں تھیں جن پہ کئی کئی مذہبی امیدوار کھڑے تھے،حالانکہ اکابر علماءکرام کئی دن تک بھرپور کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح مذہبی جماعتیں آپس کی چپقلش چھوڑ کر باہم متحد ہوجائیں تاکہ سیکولر قوتوں کا کسی حد تک مقابلہ کیا جاسکے، لیکن ہر کوشش بے سود ثابت ہوئی۔ ان حالات کے ہوتے ہوئے مذہبی جماعتوں کو کامیابی کیا خاک ملنی تھی۔صرف خیبر پختونخوا میں مذہبی امیدواروں نے دو درجن کے لگ بھگ نشستیں اےک سے پانچ ہزار ووٹوں کے فرق سے ہاریں اور ےہ وہی فرق تھا جو دوسری جانب کسی دوسری دینی جماعت کے امےدوار کی جانب سے ووٹ کاٹے جانے سے پےدا ہوا۔ حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا میں غیر معمولی کامیابی کی اصل وجہ بھی اس صوبے میں دینی جماعتوں کے مینڈیٹ کی تقسیم بنی۔ دینی جماعتوں کی یہ شکست نوشتہ دیوار تھی۔ یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اگر دینی جماعتیں متحد ہوتیں یا کم ازکم ایم ایم اے کا پلےٹ فارم ہی بحال کیا جاتا تو آج نہ صرف خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دینی جماعتوں کی حکومت ہوتی بلکہ سندھ اور پنجاب میں بھی معتدبہ کامیابی کا حصول ممکن ہوتا۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701443 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.