عوام کا انتقام ،نئے آنیوالوں کیلئے بھی پیغام

گیارہ مئی ملکی تاریخ کا ایک اہم دن تھا جب پاکستان کے دسویں انتخابات منعقد ہوئے ان انتخابات کی ایک انفرادیت یہ ہے کہ ان کے ذریعے جمہوریت کو تسلسل ملااور پہلی بار جمہوری عمل ایک حکومت سے دوسری منتخب قیادت کو منتقل کیا جارہا ہے ان انتخابات کو اگر عوامی طاقت اور عوامی شعور کا بہترین مظاہرہ قراردیا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ غربت ،مہنگائی،بیروزگاری،بدامنی اور بدترین توانائی بحران کے ستائے لاچارعوام نے ان کرپٹ لوگوں کو چاروں شانے چت کردیا جنہوں نے ان کیلئے زندگی موت سے بدتر کررکھی تھی جس کی ایک ہلکی سی جھلک میں اپنے گزشتہ کالم میں آپکو دکھا بھی چکا ہوں کہ جس طرح انہوں نے حکومت کے آخری دنوں میں قومی خزانے کو بیدردی سے لوٹا بہرحال عوام نے بلٹ کے ذریعے سابقہ حکومت کے بڑے بڑے برجوں اور شہ دماغوں جن میں راجہ پرویزاشرف ،قمرالزمان کائرہ ،نذرمحمدگوندل،احمدمختار،فردوس عاشق اعوان،صمصام بخاری،غلام محمدبلور،ثمینہ خالد گھرکی،اسفندیارولی،راجہ ریاض کو اپنے''بہترین انتقام''کا نشانہ بنایا اور میاں منظور احمد وٹو جنہیں جوڑ توڑ کا بادشاہ سمجھ کر زرداری صاحب نے خاص طور پر پیپلزپارٹی پنجاب کا صدرمقررکیا تھا اور وہ آئے روز یہ کہتے نظرآتے تھے کہ میرا مقابلہ مقامی رہنماؤں کیساتھ نہیں بلکہ شریف برادران کیساتھ ہے لیکن دیپالپور اور حویلی کی عوام نے جوڑ توڑ کے اس بادشاہ کو اس طرح تنکوں کی طرح توڑپھوڑ کررکھ دیا کہ ان کاپوراخاندان ایک سیٹ پر بھی کامیاب نہ ہوسکا اور سب سے بڑھ کر ملتان کے گدی نشیں گیلانی خاندان بھی عوام کے غیض و غضب سے نہ بچ سکایادرہے کہ گیلانی خاندان کے سربراہ اور سابق وزیراعظم جناب یوسف رضاگیلانی سے ان کی وزارت عظمیٰ کے دور میں جب ایک غیرملکی خاتون اینکرنے یہ کہا کہ پاکستان میں امن و امان اور خراب معاشی صورتحال کے باعث عوام پاکستان کو چھوڑنا چاہتے ہیں تو موصوف نے ایک لمحہ بھی سوچے سمجھے بغیر کہہ دیا تھا کہ انہیں روک کون رہا ہے وہ چلے کیوں نہیں جاتے یہاں سے''ان کی اس بات کا شافی جواب عوام نے اب انتخابات میں ان کے تینوں بیٹوں اور ایک بھائی کو شکست دے کر دے دیا ہے بہرحال عوام نے مجموعی طورپر یہ ثابت کردیاکہ انہیں اب مزید بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا ان انتخابات کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ان میں عوام نے بدترین سیکیورٹی صورتحال کے بھرپور حصہ لیا اور ٹرن آؤٹ 60%کی ریکارڈ شرح تک جاپہنچالیکن جیسا کہ کہا جارہا تھا کہ زیادہ ٹرن آؤٹ اور نئے ووٹرزکی آمد کا فائدہ پی ٹی آئی کو جائے گا لیکن یہ تاثر کچھ زیادہ حدتک درست ثابت نہیں ہوسکا اور پی ٹی آئی باوجود بے پناہ کوشش کے نوجوان ووٹر کو خاطر خواہ اپنی جانب مائل کرسکی اور نہ ہی اپنے تمام تر دعووں کے باوجود مسلم لیگ نواز کے گڑھ لاہور میں نقب لگا سکی اور مسلم لیگ نواز ایک بار پھر ملک کی سب سے بڑی اکثریتی پارٹی بن کر سامنے آئی البتہ اس کی جانب سے مجموعی طور پر اچھی کارکردگی دیکھنے میں آئی اور وہ 32نشستوں کیساتھ ملک کی تیسری بڑی پارٹی بن چکی ہے اور خیبر پختونخواہ میں اس کی حیران کن کامیابی نے یہاں ان کیلئے حکومت بنانے کی راہ بھی ہموار کردی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے خیبرپختونخواہ میں حکومت عمران خان کیلئے ایک کڑا امتحان ثابت ہوگا کیوں کہ عمران خان اپنی الیکشن مہم میں بارہا ڈرون حملوں کو روکنے کا عہدوپیمان عوام سے کرتے رہے ہیں اگر وہ اپنے اس عہد کو پورا کرنے میں کامیاب ٹھہرتے ہیں تو یہ ان کی ایک بہت بڑی کامیابی ہوگی ورنہ انہیں یہ بھی یادرکھنا ہوگا کہ عوام کی اے این پی اور پیپلزپارٹی سے بیزاری کی وجہ ان کا امریکی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانا تھا۔ البتہ مرکز میں جاوید ہاشمی حکومت میں شامل ہونے کی بجائے اپوزیشن میں بیٹھنے کا اعلان کرچکے ہیں اور تحریک انصاف کے حق میں بہتر بھی یہی ہوگا کہ وہ حکومت میں بیٹھنے کی بجائے طاقتور اپوزیشن کا کردار سنبھالنے کیلئے تیارہوجائے کیوں کہ اگر وہ اس موقع پر انہی پارٹیوں کیساتھ اقتدارمیں بیٹھ گئی جس کی مخالفت کو اس نے پانچ سال ہرزجاں بنائے رکھا تو یہ یقیناََ اس کی سیاسی موت ہوگی اور آئندہ انتخابات میں اس کا حال بھی ق لیگ سے مختلف نہیں ہوگا جس کو عوام نے 2008ء کے انتخابات میں پرویز مشرف کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی سزادی اور اب کی باراس پیپلزپارٹی کی گود میں بیٹھنے پر نشانِ عبرت بنادیاجوکل تک مسلم لیگ ق کو قاتل لیگ کہاکرتی تھی اور چوہدری پرویزالٰہی بڑی مشکل سے اپنی سیٹ بچاسکے ۔ دوسری جانب مسلم لیگ نواز اگرچہ پنجاب میں تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے لیکن وفاق میں اگراس نے پیپلزپارٹی کیساتھ اتحاد کیا تو اسے بھی یہ یادرکھنا ہوگا کہ''عوام کا حافظہ کمزورہوتا ہے''والا دوراب لدگیا اب عوام کا اجتماعی شعور پوری طرح بیدارہوچکا ہے اور خصوصاََ ایک ایسے وقت میں مسلم لیگ نواز کو پیپلزپارٹی کیساتھ اتحاد کرتے ہوئے بڑی احتیاط اور خوب سوچ بچارکا مظاہرہ کرنا ہوگاجب کہ انہیں عہدِزرداری میں مخالفین کی جانب سے مسلسل فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ سننے کو ملتا رہا ہے اس لئے ن لیگ کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کیساتھ اتحاد کرکے وہی غلطی نہ کرے جو پیپلزپارٹی نے ق لیگ کیساتھ اتحاد کرکے کی تھی ویسے بھی مسلم لیگ کو مخصوس نشستوں کی مد میں بھی ابھی تیس سے زیادہ نشستیں مل جائینگی جس کے بعد انہیں مضبوط حکومت بنانے کیلئے چند ہی سیٹوں کی ضرورت باقی رہ جائے گی جو باآسانی آزادامیدوار، جماعت اسلامی اورفضل الرحمان کیساتھ اتحاد قائم کرکے پوری کی جاسکتی ہے اوردائیں بازو کی جماعتیں ہونے کے باعث مسلم لیگ ن کو عوام کی جانب سے اس پر تنقید کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا۔قصہ مختصر یہ کہ تمام کامیاب سیاسی قوتوں کو حکومتیں بنانے اور چلانے میں خوب غوروخوض اور عوامی خواہشات کو سامنے رکھنا ہوگا ورنہ انہیں بھی کل کو عوام کی اورپھرسب سے بڑی اللہ کی عدالت میں بھی پیش ہونا ہے جہاں ہرحکمران سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔

قاسم علی
About the Author: قاسم علی Read More Articles by قاسم علی: 119 Articles with 100690 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.