عام انتخابات 2013 جیسے بھی تھے ہوگئے لیکن یہ بحث ابھی
ختم نہیں ہوئی کہ آیا عمران خان کے پاکستان تحریک انصاف کو ایک فاتح جماعت
تصور کیا جائے یا نہیں.اور اس بات پر معروف تجزیہ نگاروں سے لے کر عام
لوگوگ بھی دو حصوں میں منقسم نظر آتے ہیں .ایک گروہ کا خیال ہے کہ ماضی کو
سامنے رکھتے اگر پی.ٹی.آئی کا موجودہ کارکردگی کو دیکھا جائے تو یہ بلاشبہ
ایک بہت بڑی کامیابی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نہ صرف خیبر پختون خواہ کے
عوام کا نمائندہ جماعت بن کر ابھری بلکہ انہوں نے معروف سیاسی جماعتوں کے
ہوتے ہوئے مرکز میں بھی اچھی کارگردگی دکھائی .اس کے علاوہ کراچی جیسے شہر
میں جہاں مخصوص سیاسی خول سے نکلنے کو اتنا اسان نہیں سمجھا جاتا وہاں خان
صاحب کی جماعت کو ہزاروں ووٹ پڑنا اس بات کا غماز ہے کہ پی.ٹی.آئی اب ایک
کامیاب جماعت کے طور پر پاکستان کے سیاسی میدان میں موجود ہیں .
دوسرے گروہ کا خیال ہپے کہ عمران خان نے اس سے بھی بڑے دعوے کئیں تھے لہذا
اسکی لائی ہوئی سونامی نواز شریف کے چٹان نے ٹکرانے کے بعد سمندر میں کہیں
گم ہوگئی ہیں اور وہ پنجاب کو فتح کرنے میں ناکام رہے لہذا خان صاحب کو
ناکام تصور کیا جائے .
جہاں تک میرا خیال ہے تو میں پہلے والے گروہ کے خیالات سے متفق ہوں .اور
میں سمجھتا ہوں کہ پی.ٹیِ.آئی کا موجودہ کارگردگی یقینا کسی کارنامے سے کم
نہیں کیونکہ اگر ہم پاکستان تحریک انصاف کا موازنہ دوسری سیاسی جماعتوں سے
باالخصوص پاکستان مسلم لیگ نواز سے کرے تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ دوسرے
جماعتوں کے پاس وعدوں کے علاوہ ماضی میں کئیں گئے کام اور مضبوط سیاسی بیک
گراونڈ موجود تھا .پنجاب کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو وہاں کے وزیر اعلی
نے صوبے میں کافی کام کروائے ہیں جس کو انہوں نے اپنے بھائی کے انتخابی
کمپئین کا حصہ بنایا اور یوں وہ عوام کو اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب
رہے. اس کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی ،اور عوامی نیشنل پارٹی کی بات کی
جائے تو وہ صوبوں کے علاوہ مرکز میں بھی برسر اقتدار رہے اور سرکاری وسائل
کو اپنا حق سمجھتے ہوئے انہوں نے اسکا بھر پور استعمال کیا .اس کے بر عکس
اگر عمران خان اور اسکی پارٹی کی بات کی جائے تو 2002 کے اتخابات میں تحریک
انصاف کے پاس عمران خان کے سیٹ کے علاوہ قومی اسمبلی میں ایک بطھی نشست
نہیں تھی جبکہ 2008 کے انتخابات میں تحریک انصاف نے بائیکاٹ کر رکھا
تھا.انہی وجوہات کے بنا پر ہم یہ بات کہ سکتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف
کے پاس نہ تو ماضی کا کوئی خاص تجربہ تھا اور ناہی کوئی کام اور اگر کچھ
تھا تو وہ اخلاص کے ساتھ کئیے گئے وعدے تھے. لہذا ایسے میں موروثی اور
برادریوں میں بٹی سیاست میں جگہ بنانا اتنا آسان ہرگز نا تھا.لیکن عمران
خان نے اللہ پاک کے فضل و کرم سے نا صرف ان موروثی سیاست دانوں کا بھر پور
مقابلہ کیا بلکہ بعض کو ناک آوٹ بھی کردیا .لہذا اس کارگردگی کو سامنے
رکھتے ہوئے ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ تحریک انصاف نے 2013 کے عام انتخابات میں
توقع سے بڑھکر کامیابیاں سمیٹی ہیں .اور یہ سلسلہ آگے جاکر نا صرف جاری رہ
سکتا ہے بلکہ دراز بھی ہوسکتا ہے .لیکن اس کے لیئے لازم ہے کہ عمران خان
اور اسکی جماعت عوام سے کیئں گئے وعدوں کا لاج رکھتے ہوئے اسے وفا کرنے کی
بھر پور کوشش کرے ، مرکز میں میاں صاحب کے ساتھ غیر ضروری محاذ آرائی سے
گریز کرے بلکہ اہم ملکی اور بین الاقوامی امور میں انکا ہاتھ بٹھائے، ملک
میں جاری فوجی اپریشن اور ڈرون حملوں کے خاتمے کے لیئے بھر پور اور توانا
آواز اٹھائے،لاپتہ افراد کا مسئلہ میاں صاحب کے ساتھ ملکر حل کرے.اس کے
علاوہ کے پی کے میں ترقیاتی منصوبے شروع کرانے، لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی جیسے
اہم مسائل کو حل کرنے کے لیئے نواز شریف صاحب سے بھر پور تعاون لے اور ان
کے ساتھ بھی بھر پور تعاون کرے .اگر خان صاحب ان مسائل کو حل کرنے میں کسی
حد تک بھی کامیاب ہوگئے تو میں سمجھتا ہوں کہ آگے چل کر مزید کامیابیاں خان
صاحب اور انکی پارٹی کے قمد چومنے کی منتظر ہونگے . انشاءاللہ. |