یاد رکھیئے گندگی کے ڈھیر پریاگٹر میں گرجانا اتنامعیوب
نہیں ہے جتناگرکراُس میں پڑے رہنے کو ترجیح دینا۔میں حیران ہوں کے مجموعی
طورپرتوانسان نفاست پسند ہے لیکن نجانے کیوں بداخلاقی سے اسے گھن کیوں نہیں
آتی۔
الیکشن 2013کا صبر آزمادورگزر گیا۔مسلم لیگ ن بھاری اکثریت سے کامیاب
ہوئی۔پی پی پی دوسرے اور پی ٹی آئی تیسرے نمبر پر رہی۔الیکشن کے ہونے تک تو
دونوں اطراف کے کارکنان ایک دوسرے کو حریف خیال کرتے رہے اور سوشل میڈیاپر
ایک دوسرے کے قائدین کے خلاف نازیباالفاظ بھی تواتر سے استعمال کیئے
گئے۔اُمید تھی کے الیکشن کے بعد یہ صورتحال درجہ بدرجہ کم ہوتی جائے گی
لیکن کوئی خاص کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔سب سے زیادہ افسوس اُسوقت ہوتاہے جب
کوئی پڑھالکھاشخص اخلاق سے گری ہوئی حرکات وسکنات کو اپناشیوہ بنالیتاہے۔
موبائل میسجنگ ہو‘فیس بک یاکسی بھی طور سے عوامی رابطہ کے ذرائع‘ الیکشن
مہم میں وہی گھسی پھٹی اور الزام درالزام کی فضارہی۔حتی کے بعض نوجوان تو
اس حد تک چلے گئے کے ملک کے نامور کالم نگاروں کے نام سے آئی ڈی بناکر غلط
تحریریں uploadکرتے رہے ۔کیاایسے ہتھکنڈے استعمال کرکے ہم اکیسویں صدی میں
بھی اپنے آپ کو عالی ذہن شمار کرتے ہیں؟گزشتہ روز فیس بک پر ایک معروف کالم
نگار کی تصویر کے ساتھ ایک تحریر پیش کی گئی جس میں پنجاب کے ایک حلقے میں
دھاندلی کا ذکر تھا۔جب تحقیق کی تو بات غلط ثابت ہوئی۔ فیس بک پر نوجوانوکو
سمجھانے کی سعی ناکام دہراتارہتاہوں‘لیکن بے سود۔کیا آپ کسی پر بہتان تراشی
کر کے اپنی شکست کو بدل سکتے ہیں ؟ہرگز نہیں۔لیکن دوسری جانب فتح یاب بھائی
بھی کبھی تو بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہیں اورکبھی شکست خوردہ کو تندوتیز
الفاظ سے چھلنی کرکے اپنے مقام میں خود کمی کرتے ہیں۔اے اہل وطن سنو! ہم
پہلے مسلمان اور پاکستانی ہیں پھر کسی پارٹی کے رکن یاسنی ‘دیوبندی ۔اور
جہاں تک اقلیت کا تعلق ہے انکے حقوق کا خیال رکھنا مسلمان ہونکے ناطے ہماری
اولین ترجیح ہونی چاہیئے ۔
میاں صاحب نے تمام جماعتوں کو مذاکرات کی دعوت دیکر اور برابھلا کہنے والوں
کو معاف کر کے جس بردباری کا مظاہرہ کیاہے اس سے جمہوریت مضبوط اور ملک میں
استحکام آئے گا۔خان صاحب کی عیادت اخلاقی برتری ہے اسے پورے خلوص کے ساتھ
ہرمعاملے میں جاری رکھناچاہیئے ۔بھارت سے مراسم بڑھانے کیلئے ملک کے تمام
ستونوں اور عوامی تائیدوحمایت لازم ہے ورنہ ایجی ٹیشن میں اضافہ
ہوگااورعوام پراُمید ہیں کہ اب کی بار ایساکوئی اقدام نہ اُٹھایاجائے گاجس
سے جمہوریت کونقصان کا اندیشہ ہو۔
وزیروں کی تعداد میں کمی سے معیشت پر لدے بوجھ میں یقینا کمی آئے گی۔لیکن
اتناعرض کرتاچلوں کہ اگر تحریک انصاف کو خیبرپختونخواہ میں حکومت نہ بنانے
دی گئی تو ممکن ہے اس سے تلخیوں میں اضافہ ہو۔اور تحریک انصاف سے بھی یہی
اُمید ہے کہ وہ الیکشن مہم کی فضاسے نکل کر اپوزیشن میں مثبت کرداراداکرے
گی اور یہی عنصر ہی ملک وقوم کے مفادمیں ہے۔تنقید برائے تنقید کے بجائے اگر
حکومت کی مثبت پالیسیوں پر اپوزیشن نے داد دی اور منفی پالیسیوں پر تنقید
برائے اصلاح کی تو ملک کے تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
تمام پارٹیوں کوچاہیئے کے اپنے کارکنوں کو پرامن رہنے کی سختی سے تلقین
کریں ۔اور الیکشن نتائج پر صبروتحمل سے کام لیں ۔دھرنااوراحتجاج آپ کاحق ہے
اسے وسیع تر ملکی مفاد میں مثبت انداز سے استعمال کیجئے ۔تبدیلی ضرور آئے
گی۔تھانہ کلچر اور پٹواری کی ثقافت بھی بدل سکتی ہے اگراخلاص سے کام
لیاجائے۔ملک مزید انتشار کامتحمل ہرگز نہیں ہوسکتا۔
یاد رکھیئے گندگی کے ڈھیر پریاگٹر میں گرجانا اتنامعیوب نہیں ہے
جتناگرکراُس میں پڑے رہنے کو ترجیح دینا۔میں حیران ہوں کے مجموعی
طورپرتوانسان نفاست پسند ہے لیکن نجانے کیوں بداخلاقی سے اسے گھن کیوں نہیں
آتی۔ |