مولانا عبدالکلام آزاد سے منسوب مشہورو معروف پیش گوئی
یاد آنے لگی جس میں مولانا عبدالکلام آزاد کا کہنا تھا کہ "بھارت کے جو
مسلمان پاکستان چاہتے ہیں انہیں بہت جلد پچھتاوے کا احساس ہوگا کیونکہ وہاں
ایسے گروپ ہیں، جو طاقتور ہیں اور وہ "مہاجرین" کو اپنے تسلط سے زیر کریں
گے"۔پھر مجھے تقسیم ہند یا تخلیق پاکستان کے اس حساس اور انتہائی اہم موضوع
پر خان عبدالغفار خان کی مخالفت بھی یاد آنے لگی جو پاکستان کے مخالف اور
ایسے مسلمانوں کا بٹوارہ سمجھتے تھے ، ابھی یہ سوچ رہا تھا کہ جماعت اسلامی
اور ان علما ءہند کے نظریات بھی میرے سامنے دوڑنے لگے جنھوں نے پاکستان کے
قیام کی شدید مخالفت کی تھی۔میں سوچنے لگا کہ کیا آج بر صغیر کی تاریخ میں
پاکستان کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ اس اثرات و مضمرات
کی فصلیں اب بھی کاٹی جارہی ہوں لیکن یہ صرف میری سوچ ہے دعا ہے کہ اس کا
حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہ ہو ۔ لیکن بالآخر انسان ہوںسوچ و فکر سے آزاد
کیسے ہوسکتا ہوں جبکہ قرآن کریم میں ایسے لوگوں کو تمام ذی حیات سے بد تر
قرار دیا گیا ہو جو عقل وفکر سے کام نہ لیتے ہوں،سابق وزیر خارجہ بھارت
جسونت سنگھ نے"جناح،بھارت، بٹوارہ اور آزادی"کے عنوان سے لکھی کتاب میں
محمد علی جناح اور جواہر لال نہرو کی سیاسی شخصیات کے تجزئے کے تقابل میں
جب اپنے تئیں یہ نظریہ اجاگر کرنے کی کوشش کہ ©" قائد اعظم تقسیم ہند کے
ذمے دار نہیں بلکہ یہ سب پنڈت نہرو کی کارستانی ہے۔"صاحب کتاب نے عام ہندو
مورخین سے ہٹ کر "جناح کو سیکولر آدرشوں اور جمہوری روایات کا علمبردار ہی
قرار نہیں دیا بلکہ معاہدہ لکھنو کی بنیاد پر انہیں ہندو مسلم ایکتا کا روح
رواں بھی جتلایا۔"تمام مباحث سے قطع نظر جب میں نے مشرقی پاکستان میں ہونے
والی نا انصافیوں اور ان کی احساس محرومیوں کے نتیجے میں بنگلہ دیش کے قیام
کا سوچا تو احساس ہوا کہ اگربھارتی بنگال کے مہاجر ،پاکستانی بنگال میں
ہجرت کر گئے اور آج بھی ایک ساتھ رہ رہے ہیں تو مولانا عبدالکلام آزاد کا"
مفروضہ پچھتاوا" تو حقیقت پسندانہ نہیں ہوا۔ لیکن" بہار "سے آنے والے ان
مہاجرین کے ساتھ بد تر سلوک جب دونوں ممالک ( پاکستان اور بنگلہ دیش ) کی
جانب سے روا رکھا گیا اور انھیں قبول کرنے سے انکار کیا گیا تو خیال ضرور
آیا کہ بہاری مہاجرین یہ ضرور سوچتے ہونگے کہ ان کا قصور کیا تھا جو انھیں
صرف زبان کی بنیاد پر بنگلہ دیش قبول نہیں کرتا اور پاکستان کا رویہ بھی ان
کے ساتھ سوتیلوں جیسا ہے کہ آج بھی لاکھوں مہاجرین بنگلہ دیش کی سر زمین پر
پاکستان کی جانب سے قبول کئے جانے کے انتظار میں اپنی نسل کی تیسری پیٹری
میں داخل ہوچکے ہیں۔پاکستان میں جب پنجاب کو دیکھا تو وہاں بھارتی پنجاب سے
آنے والے پنجابیوں کو پاکستانی پنجابی تسلیم کرلیا گیا لیکن جب سندھ میں
نظر دوڑائی تو سندھ میں آنے والے مہاجر ،سندھی تسلیم نہیں کئے گئے اور ایسا
لگا جیسے مولانا عبدالکلام آزاد شائد" سندھ میں آباد مہاجروں "کے بارے میں
پیش گوئی کر رہے تھے۔طاقت کے زور پر کمزور طبقے کو زیر نگیں کرنے کا عمل
میری سوچ سے بڑھ کر ثابت ہونے لگا جب میں نے جنوبی پنجاب میں سرائیکیوں اور
خیبر پختون خوا میں ہزارہ وال، سواتیوں، بلوچستان میں بلوچ ، پشتون،سندھ
میں اردو بولنے والوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں اور احساس محرومیوں کی
لمبی فہرست میری نظروں کے سامنے دوڑنے لگی۔ابھی میں خیالات کے جنگلات سے
گذرنے کا راستہ تلا ش کر رہا تھا کہ مجھے ایسا لگا جیسے میں بھی تو مہاجر
ہی ہوں جیسے سوچی سمجھی لسانیت کی سازش کے تحت دیوار سے لگا کر قوموں کو
آپس میں لڑایا جا رہا ہے۔ میں پشتو بولنے والا مہاجر ہوںجو افغانستان سے
سرد جنگ کے بعد پاکستان آیا ۔ میں خیبر پختوخوا سے آنے والا مہاجر ہوں جو
اپنے رزق کے حصول کےلئے اپنے جنت نظیر علاقے چھوڑ کر تپتے ، جھلستے میدانوں
میں محنت مزدوری کےلئے آیا اور پھر یہاں ہی کا ہو رہا ۔ شائد مولانا
عبدالکلام آزاد ہمارے بارے میں ہی کہہ رہے تھے کہ" ہمیں طاقت سے سازش سے
دبایا جائے گا۔"لیکن ایسا ابھی تو نہیں ہے کیونکہ من الحیث القوم ہم سب
ساتھ ساتھ ہیں۔ کیونکہ مہنگائی کے خلاف ہم آواز نہیں اٹھاتے ، لوڈ شیڈنگ کے
خلاف ہماری زبان خاموش ہے،اٹھانوے فیصد محروم طبقہ دو فیصد حکمرانوں کے
تسلط سے آزادی نہیں چاہتا ۔ وسائل پر قبضہ دو فیصد مراعات یافتہ طبقے کا ہے
اور ہم ظلم سہنے کے لئے باہمی اتفاق کا عملی مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ہم خود کو
دیکھنے کے بجائے دوسرے کی جانب متوجہ ہیں ۔ کیا یہ سب باتیں ہمارے اتفاق و
اتحاد کا مظہر نہیں ہیں کہ ہم ظلم سہنے کے لئے ایک قوم ہیں ۔ اور ہجرت کرنے
کےلئے ایک بار پھر" مہاجر" بننا چاہ ر ہے ہیں۔میری نظروں کے سامنے کراچی کا
وہ منظر بھی ہے جب اس کی آبادی محض دو لاکھ تھی اور اس کا رقبہ اتنا تھا کہ
ہاتھ پھیلا کر سمجھانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی اب حد نظر صرف کراچی ہے ۔بلند
بالا منزلیں، کاروباری مراکز ، کشادہ سڑکیں ، فلائی اوور کا جال، بے ہنگام
ٹریفک ،بے شمار آبادیاں، مختلف النسل قومتیں، غرض یہ ہے کہ کراچی تو اب
پاکستان ہے پھر ایسا کیا ہے جس نے مجھے اس قدر الجھا دیا ہے کہ میں امت
واحدہ کے بجائے کچھ اور ہوں۔قائد اعظم کا پاکستان کچھ اور تھا یا جسونت
سنگھ کا کہنا درست ہے کہ یہ سب کچھ جواہر لال نہرو کی کارستانی ہے جیسے آج
کل پاکستان سے علیحدگی پسندوں کی خوائش ہے کہ کٹا پھٹا جیسا بھی ملے لیکن
انھیں آزاد مملکت مل جائے۔ابھی تک تو ہمارے دانشور ،مورخ طے ہی نہیں کرپائے
کہ قائد اعظم پاکستان کو اسلامی مملکت بنانا چاہتے تھے کہ سیکولر اسٹیٹ ؟
۔۔ میں اس دور میں واپس جا کر قائد اعظم سے ضرور پوچھنا چاہتا ہوں کہ
بانیان پاکستان کے ساتھ اس وقت جو نا انصافیاں ہو رہی ہیں کیا آپ کے کھوٹے
سکے ایک بنگلہ دیش بنا کر خوش نہیں ہوئے ؟ ۔مجھے پھر یکدم یاد آیا وہ قرار
داد پاکستان جس کے پیش کردہ بنگال کے وزیر اعلی مولوی فضل الحق تھے۔قرارداد
میں کہا گیا کہ" ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ
ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے ، انھیں یکجا کرکے" آزاد
مملکتیں "قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اور حاکمیت اعلی
حاصل ہو"۔07اپریل1946دلی کنونشن میں جب مسلم لیگ کی جانب سے ترمیم کی گئی
تو اس قرارداد میں پاکستان میں شامل کئے جانے والے علاقوں کی نشاندہی میں
شمال مشرق میں بنگال اور آسام اور شمال مغرب میں پنجاب، سرحد ، سندھ ،
بلوچستان کو تو شامل کیا گیا لیکن کشمیر کا ذکر نہیں تھا حالاںکہ شمال مغرب
میں مسلم اکثریت والا علاقہ تھا اور پنجاب سے جڑا ہوا تھا ۔ یہ بات انتہائی
اہم ہے کہ دلی کنونشن کی اس قرارداد میں"آزاد مملکتوں "کا ذکر یکسر حذف
کردیا گیا تھا جو قرار داد لاہور میں بہت واضح تھا ۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ"
قرار داد لاہور" کا اصل مسودہ اس زمانہ کے پنجاب کے یونینسٹ وزیر اعلی سر
سکندر حیات خان نے تیار کیا تھا ، یونینسٹ پارٹی اس زمانے میں مسلم لیگ میں
ضم ہوگئی تھی ا ور سرسکندر حیات مسلم لیگ پنجاب کے صدر تھے ۔1946کے دلی
کنونشن میں" پاکستان "کے مطالبہ کی قرارداد حسین شہید سہروردی نے پیش کی
اور یوپی کے مسلم لیگی رہنما چوہدری خلیق الزماں نے اس کی تائید کی ، قرار
داد پیش کرنے والے مولوی فضل الحق اس کنونشن میں شریک نہیں ہوئے کیونکہ
انھیں" سن 1941میں مسلم لیگ سے خارج کردیا گیا تھا"۔اب میرے سمجھنے کےلئے
پریشان کن بات یہ تھی کہ قرار داد لاہور تو واحد مملکت کے بجائے دو مختلف
مملکتوں کا تصور دے رہی ہے۔ کیا اس تصور کے تحت ہی بنگلہ دیش کے وجود کو
پروان چڑھانے کےلئے قیام پاکستان سے سازش پر عمل شروع کردیا گیا اورکیا اس
قراد داد کے مطابق بلوچستان کے عوام ، اپنی مملکت ، سندھ کے عوام اپنی
مملکت ، خیبر پختون کی عوام اپنی مملکت کا قیام عمل لانے کےلئے مطالبہ"
درست" کر رہے ہیں ؟ یا جو پاکستان مخالف جماعتیں تھیں وہ اس قرارداد کو
عملی جامہ پہنانے کےلئے اب منافقت کا لبادہ اوڑھ کر اپنی سازشوں کو کامیاب
بنانے کےلئے روبہ عمل ہیں ۔ لیکن میں پریشان ہوں کہ کیا جس طرح مشرقی
پاکستان دو لخت ہوا اس طرح ہمیں پھر ہجرت کرنا ہوگی ۔ کیا میں ہمیشہ مہاجر
رہوں گا یا ہمیں اس گتھی کو سلجھانا ہوگا کہ استعماری قوتیں اپنی استبدادی
طاقت کے ساتھ جبر کیوں کر رہی ہیں ؟ ۔کراچی کو ہی تختہ مشق کیوں بنایا جاتا
ہے جبکہ کراچی میں آنے والی ، رہنے والی تمام قومیتں کراچی کو پاکستان کی
شہہ رگ بناچکی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ چھپی قوت سامنے آگئی ہے جس نے کراچی کی
ترقی اور اس کے نتیجے میں پاکستان کی خوشحالی کے بجائے اپنے تئیں احساس
کمتری کے تحت سازش کو جنم دیا ہے جس کا عملی مظاہرہ کچھ روز قبل کراچی کے
سڑکوں پر ہوا۔کیا اردو بولنے والے کو اس مارا جاتا ہے کہ وہ بھارت جائیں،
پختون ، خیبر پختونخوا اور بلوچ، کچھی بلوچستان چلے جائیں۔شائد کچھ ایسا ہے
!! ۔۔ لیکن اللہ کرے ایسا نہ ہو کیونکہ یہ خوفناک سازش ہے۔ |