یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ جمہوریت کی بنیادی روح صاف وشفاف
الیکشن کا انعقاد ہے،آج دنیا میں جہاں بھی مثالی جمہوریت موجود ہے،اُس کے
پیچھے یہی اصول کارفرما ہے،اِس کی وجہ یہ ہے کہ بروقت اور صاف وشفاف الیکشن
کا انعقاد نہ صرف جمہوریت کو مضبوط وتوانا کرتا ہے بلکہ تیسری قوت کو
جمہوری اداروں پر شب خوں مارنے سے بھی روکتا ہے۔وطن عزیر پاکستان ایک
اسلامی فلاحی ریاست کے طور پر معرض وجود میں آیا،برصغیر کے مسلمانوں نے
قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں ڈاکٹرمحمد اقبال کے جس تصور پاکستان
کو عملی شکل دینے کی جدوجہد میں تن من دھن کی بازی لگائی ،اُس کا مقصدایک
ایسے خطہ زمین کا حصول تھا جہاں مسلمان اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کی روشنی
میں جمہوری اقدارکے مطابق بسر کرسکیں۔خود بانی پاکستان بھی وطن عزیز میں
جمہوری طرز حکومت چاہتے تھے،لیکن بدقستمی سے قیام پاکستان کے بعد ملک میں
جمہوری عمل کا تسلسل رک گیا،مارشل لائی آمریت نے نہ صرف جمہوری عمل کے
راستے میں روڑے اٹکائے بلکہ اِس عمل میں ابن الوقت سیاستدانوں نے بھی
بنیادیں مضبوط کیں،مزید طرفہ تماشہ یہ ہوا کہ کچھ سیاسی جماعتوں کوخاندانی
جاگیر ووراثت بنادیا گیا جس کا نتیجہ عوام کا جمہوری عمل سے متنفر ہونے کی
صورت میں سامنے آیا۔
دوہزار آٹھ (2008ء)میں طویل پرویزی آمریت کے بعد پیپلز پارٹی اور دیگر
جماعتوں کے اتحاد سے قائم ہونے والی حکومت اِس لحاظ سے پہلی حکومت تھی کہ
اُس نے اپنی آئینی مدت پوری کی،جس کا کریڈٹ تمام اسٹیک ہولڈر کو جاتا
ہے،یوں ہماری سیاسی تاریخ میں پہلی بار ایک منتخب سیاسی حکومت کی آئینی مدت
کی تکمیل کے بعد دوسری منتخب ہونے والی جماعت کو پرامن اقتدار کی منتقلی کے
خوش آئند آثار پیدا ہوئے،یقینا یہ عمل ملک میں جمہوریت کی مضبوطی اور
جمہوری قوتوں کی بالغ نظری کے ساتھ عوام کے سیاسی شعور کی بیداری کی بھی
علامت ہے،11مئی کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) وفاق میں سب سے بڑی سیاسی
جماعت بن کر ابھری،جبکہ پنجاب کی صوبائی حکومت کی تشکیل کیلئے بھی اُسے
بھاری اکثریت حاصل ہوگئی،دوسری جانب تحریک انصاف بھی ایک بڑی سیاسی قوت کے
طور پر سامنے آئی، جس نے ملک پر چار بار حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی کو
پیچھے دھکیل دیا ہے،البتہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی مخلوط
حکومت بننے کے زیادہ امکانات ہیں، جبکہ خیبر پختون خوا ہ میں تحریک انصاف
بڑی جماعت کی حیثیت سے صوبے کا نظم ونسق سنبھالنے کا حق رکھتی ہے،اگر تحریک
انصاف خیبرپختونخواہ میں ایک مثالی حکومت کا نمونہ پیش کرتی ہے تو یہ نہ
صرف ملک کے دیگر صوبوں کیلئے روشن مثال ہوگا بلکہ اُس کے آئندہ برسر اقتدار
آنے یا نہ آنے کی بھی راہ ہموار کریگا،سردست تحریک انصاف قومی اسمبلی میں
حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرکے حکومت کی اصلاح اور عوام کے بنیادی حقوق
کے دفاع کا فریضہ انجام دے سکتی ہے،جبکہ بلوچستان میں مسلم لیگ ن،قوم پرست
جماعتوں کے اتحاد کے ساتھ حکومت بناسکتی ہے۔
قارئین محترم !حالیہ انتخابات کا سب سے روشن پہلو یہ ہے کہ نعروں،پروپیگنڈے
اور ذات برادری کی بنیاد پر ووٹ دینے کا رجحان اگرچہ ختم نہیں ہوا مگر کم
ضرور ہوا ہے اور لوگوں نے کارکردگی کی بنیاد پر کسی جماعت کے حق یا مخالفت
میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے،جو اِس نظام پر ایک گہری ضرب سے کم
نہیں،یقینایہ ایک مثبت تبدیلی کی علامت ہے جبکہ دوسری بڑی تبدیلی ووٹنگ کے
اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں،اِس مرتبہ ووٹنگ کی شرح گزشتہ انتخابات کے مقابلے
میں خاصی زیادہ تھی،ملک بھر کے پولنگ سٹیشنوں کے باہر ووٹروں کی طویل
قطاریں لگی ہوئی تھیں، عوام کا جوش و خروش ظاہر کر رہا تھا کہ اُن کا سیاسی
شعور بیداری کی جانب گامزن ہے اور وہ بڑی حد تک یہ بات جان چکے ہیں کہ
حکمرانی عوام کا استحقاق اور تمام ملکی اثاثے اور وسائل قوم کی ملکیت ہیں،
یہی وہ شعور ہے جس کی بدولت عوام اپنا ووٹ ڈالنے کیلئے جوق در جوق گھروں سے
نکلے،حیرت ناک بات یہ ہے کہ یہ جوش وخروش اُن پوش علاقوں میں بھی نظر
آیا،جہاں گیس بجلی مہنگائی اور بے روزگاری جیسی چیزوں کادور کا بھی واسطہ
نہیں ہے۔
آج 11مئی کے عام انتخابات ماضی کا حصہ بن چکے ہیں،تبدیلی کیلئے دیا گیا ووٹ
ہی تبدیل ہوگیا، انتخابات میں جو کچھ ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں
ہے،متعدد جماعتوں کی جانب سے دھاندلی کے الزامات کے باجود اگرجذبات اور
خواہشات سے ہٹ کر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ
حالیہ الیکشن کے نتائج گذشتہ الیکشن نتائج سے مختلف نہیں ہیں،گذشتہ الیکشن
میں عوام نے ایک آمروقت اور اُس کی کاسہ لیس جماعت کے خلاف اپنا حق رائے
دہی استعمال کرتے ہوئے پیپلز پارٹی پر اعتماد کا اظہار کیا تھا،لیکن حالیہ
الیکشن میں پی پی اور اُس کے اتحادیوں کی عوامی مسائل سے لاپروائی،بے انتہا
کرپشن،لوٹ مار ،مہنگائی،بے روزگاری اور ناقص پالیسیوں کی وجہ قوم نے اُسے
مسترد کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کو اعتماد کا ووٹ دیا،اب مسلم لیگ ن عوامی
اعتماد پر کس حد تک پورا اترتی ہے ،یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا،لیکن ایک
بات طے ہے کہ پچھلے پانچ سالوں تک حکومتی اتحاد کا حصہ رہنے والی پیپلز
پارٹی،اے این پی اور قاف لیگ کی غیر معمولی شکست و ہزیمت عوامی غم غصے اور
ناراضگی کا بین ثبوت ہے اور اِس بات کا اظہار ہے کہ پی پی کے قائدین نے جو
کچھ بویا،وہی کاٹا، صدرمحترم نے سیاسی جوڑ توڑ اور مفاہمتی مکروفریب سے کام
لے کر پانچ سال تو مکمل کرلیے مگر وہ عوامی عدالت میں سرخرو نہ ہوسکے،دوسری
جانب تحریک انصاف حسب توقع نہ سہی مگر خاطر خواہ حد تک ووٹوں کے اعتبار سے
دوسری بڑی اور موثر سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی ہے، جس کا کریڈٹ عمران
خان اور نوجوانوں کو جاتا ہے،11مئی کے الیکشن میں عوام کی بھر پور شرکت اور
نوجوانوں کے جوش وجذبے نے ثابت کردیا ہے کہ پاکستانی قوم دہشت گردوں اور
انتہا پسندوں کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے،سیاسی
مبصرین کے مطابق حالیہ انتخابات میں پہلی بار طبقہ اشرافیہ نے بھی عام عوام
کی طرح اپنا ووٹ کاسٹ کرکے تبدیلی کے عمل میں اپنا حصہ ملایا ہے۔
اِس وقت ملک سیاسی منظر نامہ یہ ہے کہ اب آئندہ پانچ سال تک مسلم لیگ (ن)
کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کو بحیثیت وزیر اعظم ملک وقوم کی قیادت کرنی
ہے،میاں صاحب کی خواہش ہے کہ اُن کی جماعت کو کسی دوسری پارٹی کی مدد کے
بغیر حکومت سازی کا موقع ملے تاکہ ملک میں ایک مضبوط حکومت قائم ہو اور وہ
ملک کے مسائل کے حل اور قومی تعمیر و ترقی کیلئے بہتر اقدامات کرسکیں،نئے
منظر نامے میں میاں صاحب کی خواہش پوری ہونے کے زیادہ روشن امکانات موجود
ہیں،ویسے بھی جب سابقہ حکومت اپنی خراب اور ناقص کارکردگی کے باوجودآئینی
مدت مکمل کرسکتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ میاں صاحب کو یہ موقع نہ
ملے،دیکھنا صرف یہ ہے کہ اِس بار میاں صاحب کس حد تک فہم وتدبر اور تحمل
مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہیں،ویسے نئے چیف آف آرمی کی تقرری سے اُن کے یہ وصف
بہت جلد قوم کے سامنے آنے والے ہیں، جو اُن کی آئینی مدت پورا کرنے یا نہ
کرنے کا تعین کریں گے،سردست میاں صاحب کے گذشتہ ٹریک ریکارڈ کو سامنے رکھتے
ہوئے کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا،ہاں عمومی اصول وقاعدہ کہ” انسان اپنی
غلطیوں سے سیکھتا اور آئندہ بچنے کو کوشش کرتا ہے“کے مطابق یہی اُمید کی
جاسکتی ہے کہ میاں صاحب ماضی کے تلخ تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے اِس بار
محاذ آرائی سے گریز کریں گے ۔
یہ درست ہے کہ موجودہ حالات میں اقتدار میاں صاحب کیلئے پھولوں کی سیج ثابت
نہیں ہوگا،انہیں اور اُن کی جماعت کواپنی ساری توانائیاں قومی مسائل کے حل
کیلئے وقف کرنا ہونگی،اِس وقت ملک کو داخلی اور بیرونی سطحوں پر سنگین
چیلنجوں کا سامنا ہے،دہشت گردی کے عفریت نے پاکستان کو عضو ناکارہ بنادیا
ہے، معاشی بحران انتہائی پیچیدہ ہوچکا ہے، دوسری جانب،گیس، بجلی، مہنگائی
اور بے روزگاری جیسے مسائل سے نجات کیلئے نتیجہ خیز اقدامات کی ضرورت ہے جو
قومی اتفاق رائے کے بغیر ممکن نہیں،چنانچہ قوم کو اِس دلدل سے نکالنے کیلئے
میاں صاحب کو متانت، بردباری اور سیاسی سمجھ بوجھ سے کام لینا ہوگا،اِس
تناظر میں ہماری میاں صاحب سے گزارش ہے کہ وہ عوامی مینڈیٹ کو محاذ آرائی
کے بجائے قومی تعمیر وترقی کیلئے استعمال کریں، میرٹ پر فیصلے کریں ، ملک
وقوم کو ایک اچھی اور مثالی حکومت دیں اور ثابت کریں کہ عوام نے جس تبدیلی
کی اُمید کیلئے انہیں منتخب کیا ہے وہ اُس پر پورا اُترتے ہیں۔ |