پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسے انتخابات ہوئے جس میں
این اے 273 کا کسی نے ذکر نہیں کیا۔این اے 273 ملک کا واحد ایسا حلقہ ہے
جہاں بلا مقابلہ ایک امیدوار کامیاب ہوا لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس حیرت
ناک فتح پر کسی بھی جانب سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ۔میڈیا نے کسی بھی قسم
کی کوئی کوریج نہیں دی اور پاکستان کی عوام بھی اس اہم حلقے سے بے خبر
رہی۔یقینی طور پر عوام کو تجسس ہوگا کہ آخر کس طرح میڈیا کی آنکھ سے یہ
حلقہ اس قدر بے خبر رہا کہ دنیا جان ہی نہ سکی کہ اس اہم تریں حلقے پرکوئی
امیدوار بلا مقابلہ بھی کامیاب ہوچکا کہ امیدوار کے نام ، پارٹی وابستگی
اور قوم قبیلے سے دنیا کس طرح ناواقف رہی ۔ میڈیا کو تو وہ ایک ووٹ بھی نظر
آگیا جو کسی خاتون نے دیر میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے خواتین کو حق رائے
دہی نہ دینے کے معاہدے کے برخلاف دیر کی خاتون مجاہدہ جمہوریت نے ڈالا ۔لیکن
حلقہ273کے حوالے سے الیکڑونک میڈیا کے نامور اینکر پرسن بھی بے خبر
رہے۔چونکہ یہ حلقہ اب انتہائی حساس معاملے میں داخل ہوچکا ہے اس لئے اس
حلقے کے بلا مقابلہ جیتنے والے امیدوار نے بھی درخواست کی ہے کہ اس کا نام
صغیہ راز میں رکھا جائے تو پھر وہ اصل حقائق عوام کے سامنے لائے گا۔کامیاب
امیدوار کو اس بات کی ضمانت دی گئی کہ جب تک وہ خود نہ بتائے اس وقت تک ان
کا نام میرے لبوں پر نہیں آئےگا ۔لیکن امیدوار بڑے کائیاں نکلا ، کہ صرف لب
نہیں ، تمھارے قلم سے بھی نہیں ہوگا اور کیِ بورڈ سے ٹائپ اور موبائل فون
سے ایس ایم ایس بھی نہیں کروگے۔فرار کی تمام راہیں مسدود کراکر وہ یوں گویا
ہوئے کہ جس وقت ملک میں عام انتخابات کا اعلان کیا گیا تو خصوصی طور پر
ایوان بالا کی جانب سے ایک پلان ترتیب دیا گیا کہ عوام کی نظروں سے بچا کر
مجھے قومی اسمبلی میں بھیجا جائے اور پھر کوشش کی جائے کہ وزیر اعظم بھی
بنا دیا۔میں چونک پڑا کہ قومی اسمبلی میں تو نواز شریف کی اکثر یت ہے ، پھر
بھلا یہ مخفی شخص کس طرح وزیر اعظم بن سکتا ہے؟۔میرے استفسار پر جواب دینے
کے بجائے مخفی امیدوار نے اپنی کہانی جاری رکھی کہ یہ طے کرلیا گیا تھا کہ
مجھے وزیر اعظم بنا دیا جائے گا ۔چونکہ پوری دنیا کی نظر پاکستان کے
انتخابات پر تھی اس لئے ایک ایسا حلقہ واضع کیا گیا ،جس کی آخری لمحوں تک
کسی کو بھی آگاہی حاصل نہیں تھی۔میں بیرون ملک تھا ، اس لئے پہلا مسئلہ یہ
تھا کہ میری پاکستان آمد کی کسی کو خبر نہ ہو ، اس لئے سابق صدر کو پاکستان
آنے کی ترغیبات دیں گئیں ۔ سبز باغ اور ہری جھنڈیاں دیکھائیں گئیں۔سابق صدر
اس مسحور کن ماحول میں افیم زدہ ہوگئے اور انھیں ہوش نہ رہا کہ ان کے ساتھ
کیا ہوسکتا ہے اس لئے انھیں اطمینان دلانے کےلئے ان کی عدالت میں پیشی کے
بغیر انوکھی ضمانت کرالی گئی ۔ایسا کبھی سننے میں نہیں آیا کہ کسی ملزم کی
اس حالت میں ضمانت لی گئی ہو کہ وہ پاکستان میں موجود بھی نہ ہو اور مفرور
بھی ہو۔بہرحال سابق صدر کو یقین ہوگیا کہ ان کا کوئی بال بھی بیگا نہیں
کرسکتا ۔وہ کراچی ایئر پورٹ پر پہنچے تو یہاں پلان کا دوسرا حصہ بھی شروع
کردیا گیا کہ سابق صدر کس حلقے سے امیدوار ہونگے۔اس کےلئے ملک کے سب سے بڑے
متاثراور حساس شہر کراچی کا انتخاب کرتے ہوئے حلقہ250 پر اتفاق کرلیا
گیا۔اس کے ساتھ ہی سابق صدر کو نظر آنے لگا کہ ان کی سیاسی قوت صرف گرم
دھوپ میں نظر آنے والی گیلی سڑک سے زیادہ کچھ نہیں تو ، پلان کے مطابق یہ
میڈیا سے خبر نشر کروائی گئی کہ ایک جماعت ان کی حمایت کرے گی ۔میڈیا اب ان
خبروں کو نمایاں کوریج دے رہا تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس حلقے سے اس
جماعت کی کامیابی یقینی ہے اس لئے سابق صدر کی حمایتی بیان سے موصوف اسمبلی
میں پہنچ جائیں گے۔عوام کے اذہان میں حلقہ این اے 250 فکس کرادیا گیا۔عوام
چونکہ شارٹ ٹرم میموری لوز کی مریض نہیں ہے اس لئے انھیں حلقہ250کی بین
الاقوامی اہمیت کا اندازہ رہے گا۔یہاں تھوڑی سے گڑبڑ ہوئی کہ اس جماعت نے
وضاحت جاری کردی کہ وہ سابق صدر کی حمایت نہیں کررہی اور اپنی کسی بھی
امیدوار کو اس نشست سے دستبردار نہیں کرایا جائےگا۔سابق صدر بھی تھوڑا
سٹپٹا گئے اور انھوں نے معائدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دیگر دو حلقوں سے
بھی کاغذات جمع کرادئےے۔اس وجہ سے انھیں نااہل قرار دلوانا پڑا۔چترال میں
کیمونکیشن کی کمزوری کے باعث احکامات دیر سے پہنچے تھے اس لئے ابتدائی طور
پروہاں اجازت دے دی لیکن بعد میں وہاں بھی نا اہل قرار دیکر تمام ضمانتیں
جو ان کی عدم موجودگی میں ملیں تھیں ، ان کی موجودگی میں منسوخ کراکر ان کی
خواہش پر ان کے فارم ہاﺅس کو سب جیل قرار دلوا کر مکمل حفاظتی عملہ فراہم
کردیا گیا کہ ان کا کام پورا ہوا۔اب ایک احکامات کے تحت نئی حلقہ بندیوں کو
قانونی قرار دیتے ہوئے کراچی میں نئی مردم شماری کے بغیر نئی حلقہ بندیاں
کرلیں گئیں۔اس میں یہ این اے250بھی شامل تھا ۔ سب کی توجہ اس جانب مبذول
رہی اور این اے 273کا ایک نیا حلقہ بھی بنالیا گیا۔پھر پلان کے تحت
انتخابات ہونے تک کراچی ، پشاور اور کوئٹہ میں دہماکے ہوتے رہے اور پنجاب
میں جلسے ۔طے شدہ پلان کے تحت این اے250کو محور بنا لیا گیا کیونکہ اس سے
پوری دنیا کی توجہ میرے حلقے کی جانب نہیں جائے گی۔میری وجہ سے پورے
پاکستان کی کوریج روک دی گئی اور این اے 250 کو فوکس کرادیا گیا ۔اس کےلئے
کچھ معروف اور تجربہ کار اینکرز کی خدمات حاصل کیں گئیں جو اس قسم کے حساس
ایشوز کو میڈیا میں اٹھانے میں کافی تجربہ رکھتے ہیں اور پھر میرے حلقے
سمیت پورے پاکستان پر کسی کی توجہ نہیں رہی ۔بیلٹ پیپر جو میرے حلقے کےلئے
تھے انھیں ایک طرف رکھ دیا گیا ۔جس طرح عارف علوی کو عدلیہ کے معزز جج جو
ریٹرنگ ٓافسر تھے ، نے بیلٹ بکس اور پیپر دئےے گئے ، مجھے بھی عزت مآب
ریٹرنگ آفسر نے عدلیہ کی نگرانی میں بیلٹ پیپر میری گاڑی میں رکھوادئے۔میں
نے ان کی جگہ بیلٹ پیپر تبدیل کردئےے۔جس طرح الیکشن کمیشن نے ازخود ۳۴پولنگ
اسٹیشن منتخب کئے ۔اسی طرح مجھے بھی من پسند علاقوں میں پولنگ اسٹیشن منتخب
کرادئےے۔عوام کھڑے کھڑے تھک گئی اے این 250 کی عوام مایوس ہوئی کہ کراچی کے
سب سے بڑے پوش علاقوں ،میں فوج کی نگرانی میں عدلیہ نے بیلٹ بکس نہیں پہنچا
سکے حالاں کہ معروف اینکرز نے ہی سب کو بتایا تھاکہ بلوچستان میں فوج نے
اونٹوں اور ئیلی کاپٹر کے ذریعے بیلٹ پیپر پہنچائے ۔ لیکن کراچی جیسے شہر
میں دن تین بجے تک پولنگ شروع تو کیا عملہ ہی نہیں پہنچا۔اب ان سب معروف
اینکرز نے ایک جماعت کے سربراہ کو فوکس کیا کہ وہ تو ہر معاملے پر بیان
جاری کرتے ہیں اس معاملے پر خاموش کیوں ۔ اس جماعت کی میڈیا ٹیم نے تمام
سازشوں کو سمجھنے کے باوجود نوٹس لینے کا بیان جیسے ہی جاری کروایا تو کچھ
معروف اینکرز کا جیسے کام ہوگیا کہ اب حالات بدلیں گے۔پھر یکایک بائیکاٹ
سریز شروع ہوگئی اور پاکستان میں میرے حلقے سمیت کسی کو خبر نہ ہوئی کہ میں
بھی کس طرح کامیاب ہوگیا۔اب یہی وجہ ہے کہ میری کامیابی میڈیا اور عوام سے
اوجھل رہی اور میں پاکستان کے اس نئے حلقے سے عدلیہ کی نگرانی میں کامیاب
ہوگیا۔اب میں اسمبلی پہنچ کر وزیر اعظم کا ہمزاد بن جاﺅں گا ، کیونکہ مجھے
معلوم ہے کہ انتخابات کیسے ہوئے اس لئے میرا رازپھر کوئی نیا اصغر خان
کھولے میرے مخفی ہونے کی وجہ سے ہر فیصلہ افشا وزیر اعظم کو ماننا ہوگا ۔اب
دیکھ لو کہ شیر اور شکاری کس طرح شیر وشکر ہوگئے ہیں ۔غصہ اور اپنے بڑے بڑے
دعوے صرف چند منٹ کی ملاقات میں تھوک دئےے ہیں ، اب پتہ نہیں کہ یہ عوام پر
تھوکا گیا ہے کہ پاکستان کے نظام پر۔۔بہرحال اس بلا مقابلہ کامیاب امیدوار
کی تمام کہانی مجھے سمجھ میں آگئی کہ یہ دراصل مخفی قوت ہے جو ہر الیکشن
میں بلا مقابلہ کامیاب ہوکر آتی ہے اور اپنے کامیاب کرانے والے سے من پسند
احکامات بجا لاتی ہے۔کراچی میں جس طرح این اے 250 کے لئے پلاننگ کی گئی اور
سابق صدر سے لیکر ۳۴پولنگ اسٹیشنوں کی ری پولنگ تک ، پھرپورے پاکستان میں
بلیم گیم بنایا گیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم انصاف کےلئے اسی عدلیہ میں
جا رہے ہیں جس کے جج ریٹرنگ ٓافسر تھے۔عدلیہ کی نگرانی میں انتخابات ہوئے ۔اب
کوئی براہ راست عدلیہ کو الزام نہیں لگاتا بلکہ الیکشن کمیشن کو گلے سے
پکڑتا ہے ، تو میں صرف یہ پوچھتا ہوں کہ یہ ریٹرنگ آفیسرز کون تھے ؟ ۔ کیا
یہ عدلیہ نہیں تھی ، کیا ان کا پہلا احتساب نہیں ہونا چاہیے۔´جس نے این اے
250 میں بیلٹ پیپر ایک امیدوار کو دئےے اور اس امیدوار نے قبول بھی کیا ،
تو ان کےلئے کیا سزا ہوگی ؟۔ |