وزیر نے بادشاہ سلامت سے عرض کی ”جاں پناں جاسوس کی خبر
کے مطابق جنگل میں ایک خطر ناک ،وحشی اور بہت ہی بڑے خونی درندے کا انکشاف
ہوا ہے “۔بادشاہِ وقت نے کہا کہ” تمہارے یا اُس خبر رساں کے پاس اِس بات کا
کوئی ٹھوس ثبوت ہے “۔وزیر آگے بڑھا اور انتہائی مودبانہ انداز میں نظریں
جھکا کر بولا” جی حضورِ والا ثبوت ہے....جاسوس نے جنگل میں بڑے بڑے پیروں
کے نشان دیکھیں ہیں اِن پیروں کے نشانات کے ذریعے نہ صرف ہم اُس دیو ہیکل
درندے کی جسامت کا باخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں بلکہ اُسکی گفائ(ٹھکانہ) تک
بھی پہنچا جاسکتا ہے اِس سے پہلے کہ وہ رعایا پر حملہ آور ہو اِس حکمتِ
عملی کو اپنا کر ہم اُسے وہی زیر کر سکتے ہیں ۔آپ کا حکم ہو تو میں سپاہیوں
کے دستے کو تیارکروں تاکہ آپ ساتھ چل کے با چشمِ خود تمام تر صورتِ حال سے
واقف ہو سکیں“۔بادشاہ نے ڈھلتے آفتاب کی جانب دیکھتے ہوئے اپنا حتمی فیصلہ
سنایا ”ابھی اِس وقت ہمارے آرام کا وقت ہوا جاتا ہے ہم صبح سویرے حرکت کریں
گے“وزیر یہ جواب سن کر خاموشی سے اپنی آرام گاہ کی جانب لوٹ گیا۔اِسی نصف
شب میں اِس قدر طوفانی موسلادھار بارش شروع ہوئی کہ صبح تک مینہ برستا
رہا۔بارش کے تھمتے ہی بادشاہ، وزیر،جاسوس اور تمام فوجی دستے کے ہمراہ جنگل
پہنچا تو موسلادھار بارش نے تمام ثبوت و نشانات جڑ سے دھو ڈالے تھے ۔جاسوس
کافی دیر سر کھپاتے رہے اور بلآخر بادشاہ سمیت سب مایوس ہو کر واپس لوٹ آئے
۔اگلے روز وحشی دیوہیکل دو درندوں نے شہر پر حملہ کر دیاانہوں نے دیکھتے ہی
دیکھتے بادشاہ سمیت نصف سے زیادہ رعایا کو چیر پھاڑ ڈالا اور کچھ خوفِ
درندگی کا شکار ہو کے چل بسے۔
کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ ثبوت مٹتے یا مٹاتے عرصے نہیں لگتے۔جب چڑیاں گھیت
چُگ جاتی ہیں تو چُریوں کے پیٹ میں گھس کر دانوں کا شمار کرنا ناممکن ہے وہ
الگ بات ہے کہ پہلے ہی دانے گِن کر کھیت میں ڈالے جائیں تاکہ دانہ شماری کا
اندازہ رہے۔الیکشن کمیشن نے صوبائی حلقوںکے اُمیدواروں کیلئے 10,10لاکھ
جبکہ قومی اسمبلی کے اُمیدواروں کیلئے 15,15لاکھ روپیے تک کے اخراجات کا
اپنی اپنی الیکشن مہم چلانے کیلئے اعلان کیا تھا۔اور اب جبکہ الیکشن کا
پرچم سرنگو ہو چکا ہے تمام تر دیو ہیکل اور 5x3فٹ کی اَن گنت فلیکسیں
اُتاری جاچکی ہیں،آفسٹ پرنٹنگ کی پلیٹیں تک واش ہو گئی ہیں، لاکھوں کی
مالیت کی پلاسٹک کی کرسیاں سپورٹر اپنی اپنی بیٹھکوں میں سجا چکے ہیں ۔الیکشن
کے دوران حلقے کی خوبصورتی میں چار چاند لگانے والی کناتیں اور تنبو ،برتن
،چاندنیاں ،ڈیک ،پروجیکٹر شادی بیاہ والے گھروں تک پہنچ چکے ہیںتو الیکشن
کمیشن نے کامیاب امیدواروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ آئندہ 10روز میں انتخابی
اخراجات کی تفصیلات پیش کر دیںنہیں تو کامیابی کا نوٹیفیکشن جاری نہیں کیا
جائے گا۔ جیتنے والے امیدواروں کے الیکشن مہم پر آنے والے اخراجات خواہ
50لاکھ سے بھی تجاویز کر گئے ہوں مگر اُن کے لب ہلیں گے کہ صرف10لاکھ ہی یا
اِس سے بھی کم خرچہ ہوا ہے تو الیکشن کمیشن کو باادب مودبانہ انداز میں
مجبوراً بہتر جناب کہنا پڑے گا ۔اب الیکشن کمیشن حلقے میں موجود ایک ایک
سپورٹر کے گھر جا کر اُن کے پیٹ کا ایکسرے کر کے یہ دیکھنے سے تو رہے کہ
گزشتہ ایک دو ماہ کے دوران انہوں نے چکن بریانیاں اُڑائی ہیں یا بنا پانی
کا قورمہ اور بوتلیں کتنی کتنی پی ہیں،اِس کے علاوہ گزشتہ ایک دو ماہ سے
جبکہ یہ گھر کے کفیل اپنے اُمید وار کی الیکشن مہم چلانے میں مصروف تھے تو
اِن کے گھروں کے اخراجات کون برداشت کر رہا تھا اور راشن پانی کا انتظام
کِس نے کر وا کے دیا تھا۔نعرہ بازی کیلئے بانٹے جانے والے ہزار اور پانچ سو
کے نوٹ کِسی گنتی میں شامل ہی نہیں۔اینکروں اور خبر کاروں کو موصول ہونے
والے لفافے بھی وزنی ہوتے ہیں۔حلقے میں رات دِن اُونچی آواز میں ڈیک چلا کر
گر دش کرنے والی ذاتی اور رینٹ کی گاڑیوں کا فیول اور کرائے بھی یقیناغیر
معمولی ہی ہونگے۔خیر انویسمنٹ تو ہوئی ہے جِسے 5سالوں میں 10گناہ نفع کی
صورت میں وصول بھی کیا جائے گا اور الیکشن کمیشن کبھی اِس راز کی حقیقت سے
آشنا ءنہ ہو پائے گی۔
ایم کیو ایم نے این اے 250کے 43پولنگ اسٹیشنز پی ایس 112اورپی
ایس113میںدھاندلی کے باعث دوبارہ الیکشن کروانے کا مطالبہ کیا ہے یہی وجہ
ہے کہ ایم کیو ایم نے الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے اور جگہ جگہ دھرنوں کی
پُر رونق محفلیں سجائی جِن میں الطاف حسین کی اپیل پر APMSOکے سینکڑوں
طالبعلم نے بھی شرکت کی۔آج کل کے دھرنے احتجاج کم اور دعوتی محفلیں زیادہ
لگتی ہیں کیونکہ اِن میں اعلیٰ اقسام کے کھانے ،جوس،پھل،منرل واٹراور بہت
کچھ ہوتا ہے ۔خبر رساں ادارے کے مطابق الیکشن کمیشن نے ایم کیو ایم کے
مطلوبہ حلقوں میں دوبارہ الیکشن کروانے پرغور کیا ہے ایسا ہوتا ہے تو
دوبارہ کتنے ہی 15لاکھ کے اخراجات منہ کھولیں گے۔اُڑتی اُڑتی خبر ہے
کہNA-250میں دوبارہ الیکشن کروانے کے معاملے میںالیکشن کمیشن نے عمران خان
اورفاروق ستار کو نوٹس جاری کرتے ہوئے طلب بھی کر لیا ہے۔مسلم لیگ فنکشنل
کی جانب سے بھی امتیاز شیخ کی سربراہی میں الیکشن میں دھاندلی کے خلاف
کراچی تین تلوار پر دھرنے کی پُررونق محفل سجانے کا انعقاد کر
لیاگیاہے۔جماعتِ اسلامی اور پی ٹی آئی نے بھی دھرنوںمیں اپنا قیمتی وقت
استعمال کیااور ٹریفک گھنٹوں تک جام رکھی گئی۔لگتا ہے سبھی مزید 15,15لاکھ
اخراجات کی الیکشن کمیشن سے اجازت طلب کر رہے ہیں ۔ضرب المثل ہے کہ ایک
مچھلی سارے تالاب کو اپنے رنگ میں رنگ لیتی ہے تو الیکشن کمیشن سے میرا ایک
چھوٹا سا سوال یہ ہے کہ اگر ایک یا دو حلقوں میں ری الیکشن ہوتے ہیں تو کیا
مزید ہارنے والوں کا حسد عروج تک نہیں پہنچے گا ۔ تو کِس کِس حلقے میں مزید
دھرنوں کا اختتام کروانے کیلئے ری الیکشن کا دوبارہ انعقاد کیا جائے گا۔
اب آخر میں ،میں آپ کو اپنے ایک کلاس فیلو کے راز سے آشناءکراتا
جاﺅں....”ظہیر انتہائی ذہین اور قابل سٹوڈنٹ تھا ۔یہی وجہ تھی کہ وہ اساتذہ
کو ہر دل عزیر بھی تھا۔مگر مجھے اور مجھ جیسوں کو اُس سے ایک یہی حسد رہتا
کہ ظہیر حوصلے اور عقیدے کا پکا تھا اُس نے زندگی میں کبھی ہار نہیں مانی
تھی۔یہی وجہ تھی کہ ہمیشہ جیتتا خواہ کچھ بھی کرنا پڑے۔میں اپنی کرکٹ ٹیم
کا کپٹن تھا اور وہ اپنی ٹیم کا ۔اُس کی فنکارانہ صلاحیتوں سے سب ہی خوب
واقف تھے متعدد بار آﺅٹ ہونے کے باوجود بھی کبھی ہاتھ سے بیٹ نہیں چھوڑتا
اور ایک سو ایک دلیلیں دے ڈالتا بالآخر ہمیں ہی اِس بات کو تسلیم کرنا پڑتا
کہ شاید ہم سے ہی کھیل میں کوئی دھاندلی ہو رہی ہے اور اُسے چانس پہ چانس
دیتے چلے جاتے۔ایک دفعہ وہ میرے ساتھ لڈو کھیلنے بیٹھا اور ہارنے کے با
وجود بھی ہار نہیں مانی ۔کمال کی سخصیت تھی ظہیر کی اُس نے زندگی میں کبھی
ہار نہیں مانی تھی۔میں آج تک اُس کا فین ہوں۔ |