مولانا برق ایم پی۔ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں

آج ملک جن حالات سے گزررہا ہے وہ ہر گز ایسے نہیں ہیں کہ معمولی باتیں ان کی طرف سے عوام کی توجہ ہٹاسکیں۔ سربجیت کو بلاوجہ قومی ہیرو بناکر، وندے ماترم پر ہنگامہ اٹھاکر یا نواز شریف کی کامیابی کا جشن مناکر کرپشن اور مالی گھٹالوں کے نت نئے قصے سامنے آرہے ہیں ۔ مہنگائی میں اضافہ جاری ہے۔ باوجود تردید کہ حقیقت یہی ہے کہ چین غیر مشروط طور پر نہیں بلکہ اپنی شرائط و مطالبات کی تکمیل پر ہماری سرحد سے باہر ہوا ہے۔ کرناٹک میں بی جے پی کی ناکامی نے اس کے پیروں تلے زمین کھینچ لی ہے۔ رہی کانگریس کی کامیابی تو یہی بی جے پی کے نعم البدل نہ ہونے کا نتیجہ ہے کہ کانگریس کی لاٹری نکل آئی۔ آندھراپردیش کے ’’داغی وزرأ‘‘ کو اشونی کمار اور بنسل کی طرح چھٹی دینے کی ہمت سے آندھراپردیش نے وزیر اعلیٰ کرن کمارریڈی محروم ہیں کیونکہ ان کی حکومت بھی اقلیت میں ہے۔ اس لئے ان کی کرسی بھی خطرے میں ہے۔ بجلی اور پانی کی قلت سے عوام کا بر ا حال ہے۔

پارلیمان کا اجلاس جب اچانک غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کیا گیا توحسب روایت ’’وندے ماترم‘‘ گایا گیا تو بہوجن سماج پارٹی کے مولانا شفیق الرحمن برق نے ’’واک آؤٹ‘‘ کیا واگ آؤٹ کرنے والے وہ واحد مسلمان رکن تھے کچھ مسلمان تو غیر حاضر (بہ شمول اسدالدین اویسی) تھے باقی احتراماً کھڑے ہوگئے آفریں ہے۔ مولانا برق پر کہ مشرکانہ گیت کا احترام انہوں نے نہیں کیا آئیے ان کے حق میں دعائیے خیر کریں۔

وندے ماترم کی داستان کچھ یوں ہے کہ ایک انگریز پرست ، مسلم دشمن فرقہ پرست بنگالی ادیب بینکم چٹرجی نے 1882ء میں لکھی تھی اسی میں متنازعہ گیت وندے ماترم شامل ہے۔ اس ناول اور گیت کو ادبی حلقوں سے زیادہ سیاسی حلقوں میں مقبولیت حاصل ہوئی بینکم چٹرجی انگریزوں کو اس واسطے پسند کرتے تھے چونکہ انگریزوں نے مسلمانوں کی حکومت ختم کی تھی تو پہلی بات یہی ہے کہ چٹرجی انگریز پرست تھے نہ کہ حب الوطن اگر انگریز کا غلام وطن پرست ہوسکتا ہے وطن پرستی کا گیت لکھ سکتا ہے تو بے شک ’’وندے ماترم‘‘ قومی گیت ہے جس میں درگاماتا یا کالی ماتا کے آگے سجدے کئے جاتے ہیں۔ اس کو بنگال میں مسلم دشمن فرقہ پرستوں میں مقبولیت حاصل ہوئی بعد اس کو سیکولر جماعت کانگریس نے اس وقت اپنایا جبکہ مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لال نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسے عظیم المرتبت سیکولر قائدین کانگریس کے روح رواں تھے۔

آگے بڑھنے سے قبل یہ بتانا بلکہ آپ کے لئے اس کا یاد رکھنا ضروری ہے کہ دستور ہند کی دفعہ ’’(3) اور28(1)‘‘ کے تحت قومی ترانے یا قومی گیت پڑھنے اور سننے کے لئے کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے اور سپریم کورٹ نے بھی اپنے ایک فیصلے میں واضح اور و اشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ قومی ترانہ سننے کے لئے کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے لوک سبھا کی اسپیکر میراکمار کو مولانا برق ایم پی سے جواب طلب کرنے، نوٹس دینے سرزنش کرنے اور معذرت طلب کرنے کا کوئی حق نہیں ہے بلکہ الٹا اسپیکر اور ان کی تائید کرنے والوں پر تحقیر عدالت کا مقدمہ دائر کیا جاسکتا ہے ملک بھر میں جہاں جہاں تعلیمی اداروں اور دیگر اداروں کو دستور کی دفعہ اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے قومی گیت پڑھنے یا سننے کے لئے مجبور نہ کرنے کا نوٹس دیا جاسکتا ہے۔ اور مختار عباس نقوی، شاہنواز حسین، ارنب مکھرجی (ٹی وی اینکر) اے بی سی نیوز، این ڈی ٹی وی، ٹائمز ناؤ، آج تک، آئی بی این، سی این این وغیرہ کو تحقیر عدالت و دستور کا نوٹس مسلمانوں کو دینا چاہئے اس طرح اس فتنہ کا ازالہ کرنا چاہئے اب رہ گیا یہ کہ مختار عباس نقوی اور ہندوتوا کے علمبرداروں بہ شمول فاروق عبداﷲ اور چند گمراہ مسلمانوں سے یہ سوال ضرور کرنا چاہئے کہ وہ کس اختیار اور قانون کے تحت وندے ماترم نہ پڑھنے کے جرم میں مسلمانوں کو ملک بدر کرسکتے ہیں؟ مسلمانوں کو ایسے بے ہودہ بیانات سے بچنے کے لئے متعدد بار قانونی کارروائیاں کرنا لازم ہے۔ مسلمان اپنی عزت اور حق کی اور اپنے حق کی جنگ عدالتوں میں جیت کر سرخروہوسکتے ہیں۔

وندے ماترم کو کانگریس نے 20ویں صدی کی ابتداء میں تقسیم بنگال کے وقت اپنایا تھا۔ کانگریس کو ہی شروع سے ہی اس سے بڑی دلچسپی تھی۔ 1936-37میں کئی صوبوں میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات کے بعد کانگریس کی حکومت بنی تو ریاستی اسمبلیوں نے وندے ماترم گائے جانے پر مسلم ارکان نے مخالفت کی تو رابندر ناتھ ٹیگور نے وندے ماترم کو ہندومت کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے لئے ناپسندیدہ اور نامناسب قرار دیا۔ پنڈت جواہر لال نہرو اور سبھاش چندر بوس نے بھی مخالفت کی سبھاش بابو کی ’’آزاد ہند فوج کے بنگالی ہندو ’’وندے ماترم‘‘، ’’جے ہند‘‘ کی جگہ کہتے تھے لیکن بعد میں ’’انقلاب زندہ باد‘‘ اردو زبان کا یہ نعرہ انقلابیوں اور مجاہدین آزادی کا نعرہ بن گیا۔ وندے ماترم اس دور کی فرقہ پرست ہندوجماعت ’’ہندو مہاسبھا‘‘ کی حدتک محدود رہ گیا یا ’’مہاسبھائی ذہنیت‘‘ کے کانگریسوں نے اس کو اپنائے رکھا۔ ممتاز سوشلسٹ قائد رام منوہر لوہیا نے تو ’’آنند مٹھ اور وندے ماترم کو آزادی کی تحریک کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ قرار دیا تھا۔ ممتاز مورخ سیمت سرکار نے بھی اس کی تاریخی اہمیت کو تسلیم نہیں کیا۔ وندے ماترم کے حامی کہتے ہیں کہ بھگت سنگھ کا نعرہ بھی وندے ماترم تھا جو سراسر جھوٹ ہے۔ بھگت سنگھ مولوی اشفاق اﷲ، منگل پانڈے وغیرہ ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کے بعد جس نعرے کو اہمیت دیتے تھے وہ جے ہند تھا نہ کہ وندے ماترم 1946ء کی عارضی حکومت نے بھی وندے ماترم سے خود کو دور رکھا۔

1947ء میں آزادی کے موقع پر اعلان آزادی پر دستور ساز اسمبلی میں 15اگست کی تاریخی رات کو راج کماری امرت کور، سچیتا کرپلانی اور دوسری خواتین نے علامہ اقبال کا ترانہ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘ گاکر جشن آزادی کا افتتاح کیا تھا۔ وندے ماترم کا دور دور تک پتہ نہ تھا اس طرح معلوم ہوا کہ وندے ماترم کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

ملک کی دستور سازی کے وقت فرقہ پرستوں نے پھر وندے ماترم کو قومی ترانہ بنانے کا چرچا کیا لیکن پنڈت نہرو اور دیگر معقولیت پسندوں کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔ تاہم وندے ماترم کو قومی گیت بنایا گیا۔

دستور سازوں کو اندازہ ہونا چاہئے تھا کہ وندے ماترم کو قومی گیت بناکر وہ فتوں کا دروازہ ہمیشہ کے لئے کھلارکھیں گے ۔ دستور ساز اسمبلی بلاشبہ نہرو کے سیکولر گروپ کے مقابلے میں سردار پٹیل، راجندر پرساد اور شیاماپرشادمکھرجی کا گروپ طاقتور تھا ملک کو سیکولر بنانا تو مجبوری تھی لیکن کئی دفعات پر نرم ہندوتوا کا عکس ہے۔ پٹیل وغیرہ کے بعد ستور میں ترمیم ہوسکتی تھی لیکن اس کے لئے مولانا آزاد اور ان کے ساتھیوں کو آگے آکر جدوجہد کرنی چاہئے تھی لیکن نہ ان اکابرین نے اور نہ ہی ان کے جانشینوں کو مسلم مسائل سے ہلکی سی بھی دلچسپی تھی یا ہے فاروق عبداﷲ، سلمان خورشید اور غلام نبی آزاد کے نزدیک وندے ماترم میں نہ کوئی برائی ہے اور یہ لائق احترام بھی ہے۔ ایک رکن پارلیمان نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط راقم الحروف کو بتایا کہ بیشتر مسلمان ارکان پارلیمان آخری اجلاس کے اختتام سے قبل ہی ایوان چھوڑ دیتے تھے اور اب بھی یہی عمل (بجزبی جے پی کے ارکان یا وزرأ اور سرکاری مسلمان) وندے ماترم کا تنازعہ کا تنازعہ نہ جانے کب ختم ہو؟۔

Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 184958 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.