سفید پوش مینڈیٹ کیخلاف پوش دھرنا

مہذب اورمتمدن ملکوں کی طرح ہمارے ہاں شکست برداشت اورتسلیم کرنے کارواج اورحوصلہ نہیں ہے ۔پاکستان میں آج تک جوبھی الیکشن ہوا وہ سوفیصد شفاف نہیں تھا تاہم ماضی کے مقابلے میں حالیہ انتخابات جدیدطریقہ کار کے سبب قدرے بہتررہے اورٹرن آﺅٹ بھی تسلی بخش رہا ۔پی ٹی آئی بحیثیت پارٹی پہلے عام انتخابات میں شریک ہوئی اورپاکستان کی تیسری بڑی پارلیمانی قوت کے طورپرابھری مگر ا س کے باوجودپی ٹی آئی والے اکثریت حاصل کرنیوالی جماعت کے مینڈیٹ کوتسلیم اوراس کااحترام کرنے کی بجائے مبینہ دھاندلی کاشورمچارہے ہیں جس سے تازم دم جمہوریت کاچہرہ داغدارہوکررہ گیا ۔عمران خان این اے 56سے مسلم لیگ (ن) کے حنیف عباسی جبکہ لاہور کے حلقہ این اے126سے پی ٹی آئی کے شفقت محمود مسلم لیگ (ن) کے خواجہ احمدحسان کوہرانے میں کامیاب رہے اورپی پی152سے ڈینگی وبا کے سدباب اوروائے ڈی اے کی ہڑتال ختم کرانے کیلئے دن رات محنت کرنے والے خواجہ سلمان رفیق کوشکست ہوگئی مگرانہوں نے اس پراپنے تحفظات کااظہارکیا ہے ۔نامزدوزیراعلیٰ میاں شہبازشریف کی دو نوںمعتمد شخصیات خواجہ احمدحسان اورخواجہ سلمان رفیق کی شکست اپنے پیچھے کئی شکوک وشبہات چھوڑگئی ۔بلاشبہ لاہور کی پوش آبادیوں ڈیفنس،ماڈل ٹاﺅن ،گلبرگ ،جوہرٹاﺅن،کینٹ،کیولری گراﺅنڈ سے پی ٹی آئی کوووٹ ملے ہیں لیکن سفیدپوش آبادیوں نے مسلم لیگ (ن) کومینڈیٹ دیا جبکہ تیراندازوں اورسائیکل سواروں کالاہور سے پوری طرح صفایا ہوگیااورصدرزرداری کاپنجاب میں جیالے کووزیراعلیٰ بنانے کاخواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوا۔انتخابی مہم کے دوران پی ٹی آئی کازیادہ تر فوکس پوش آبادیوںپرتھاجبکہ سفیدپوش آبادیوں اورخاص طورپردیہات میں پی ٹی آئی کی انتخابی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عمران خان سیاسی طورپرمسلم لیگ (ن) کی قیادت کیلئے ایک چیلنج بن گئے ہیں اورظاہر ہے آنیوالے انتخابات میں کامیابی کیلئے دونوںپارٹیوں کوا پنی کارکردگی مزید بہتربنانے کی ضرورت ہوگی۔

پی ٹی آئی امیدوارو ں کی نامزدگی کے وقت اہل امیدواروں کاانتخاب کرنے میں ناکام رہی،عبدالعلیم خان کومیدان سے باہربٹھا دیا گیاورنہ این اے127کانتیجہ شایدمختلف ہوتا۔انتخابی مہم کے دوران عمران خان اہم قومی ایشوزپربات کرنے کی بجائے ذاتیات پراترآئے اور پے درپے غلطیاں کرتے چلے گئے اورکپتان نے نعت کے حوالے سے بھی قابل اعتراض گفتگوکی جوان کے کسی نادان دوست نے سوشل میڈیا پراپ لوڈ کردی اور پی ٹی آئی کے امیدواروں کوان غلطیوں کا خمیازہ بھگتناپڑا۔شاہ محمودقریشی کانعرہ ''نیچے بلا''بھی پی ٹی آئی کی سفیدپوش آبادیوں میں شکست کاسبب بنا،پوش آبادیوں والے چونکہ زیادہ تر روشن خیال ہوتے ہیں اسلئے انہوں نے اس قابل اعتراض نعرے کونوٹس نہیں کیامگرعام ووٹراس متنازعہ نعرے کیخلاف مشتعل اورمضطرب تھا ۔عمران خان کے زخمی ہونے پرمسلم لیگ (ن) کی قیادت نے جوش کی بجائے ہوش سے کام لیا۔اگر عمران خان اجتماعات میں پنجاب حکومت کے اقدامات کوہدف تنقیدبناتے اورشریف خاندان پرذاتی حملے نہ کرتے توشایدآج قومی اورپنجاب اسمبلی میں پارٹی پوزیشن مختلف ہوتی ۔پی پی پی کی طرح پی ٹی آئی کے اشتہارات بھی براہ راست مسلم لیگ (ن) کی قیادت کیخلاف تھے جوالٹا ان کے گلے پڑگئے اورسنجیدہ ووٹرزنے پی پی پی اورپی ٹی آئی کی طرف سے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے میڈیا ٹرائل کوناپسندکرتے ہوئے بلے کو مستردکردیا ۔کراچی میں پی ٹی آئی کے کارکنان نے جھرلو کیخلاف احتجاجاً دھرنا دیاجبکہ لاہورمیں ڈی ایچ اے جیسی پوش آبادی کے مٹھی بھرمکینوں کا غازی چوک میں دھرناجاری ہے ،پوش آبادیوں کی نازک مزاج اشرافیہ کے دھر نے سے ہمارے سیاسی پنڈت بھی حیران ہیں تاہم ان کے دھرنے یادھونس سے کچھ نہیں ہوگاکیونکہ انتخابی نتائج کافیصلہ سڑک یاکسی چوک میں تبدیل نہیں ہوگابلکہ اس کیلئے متعلقہ اتھارٹی کے روبروشواہداوراستدلال کی ضرورت پڑے گی۔حامدخان بذات خودایک منجھے ہوئے قانون دان ہیں اورسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے منتخب صدررہے ہیںانہیں اپنے ووٹرز کودھرنے پربٹھانے سے پہلے ریٹرنگ آفیسر دوسرے مرحلے میںالیکشن ٹربیونل سے رجوع کرنااوروہاں سے مایوسی یا ناکامی کی صورت میں آزادعدلیہ کادروازہ کھٹکھٹاناچاہئے تھا جس عدلیہ پروہ بارہااعتماد کااظہار کرتے رہے ہیں۔

این اے125سے مسلم لیگ (ن) کے نومنتخب ارکان قومی وصوبائی اسمبلی خواجہ سعدرفیق ،میاں نصیراحمداورچودھری یٰسین سوہل کے حامیوں نے ان کی کامیابی کاجشن مناتے ہوئے ایک ریلی کاانعقادکیا جومختلف شاہراہوں اورچوراہوں سے گزرتی ہوئی بھٹہ چوک کی طرف جانے کیلئے غازی چوک کی طرف آگئی اوروہاں تصادم کاخطرہ پیداہوگیا مگرخواجہ سعد رفیق کی بروقت مداخلت سے یہ خونیں تصادم ٹل گیا۔خدانخواستہ اگر پوش اورسفید پوش افرادمیں تصادم ہوجاتا تونفرت اورنفاق کی اگنے والی فصل آئندہ کئی نسلوں کوکاٹناپڑتی۔پوش اورسفیدپوش آبادیوں کے درمیان تفریق کی لکشمن ریکھا کھینچنے والے پاکستان کے دوست نہیں دشمن ہیں۔1973ءکے آئین اورجمہوریت کی روح کے مطابق امیرشہراورمزدورکاووٹ برابر ہے۔جمہوریت میںووٹ گنے جاتے ہیں تولے نہیں جاتے ۔مبینہ دھاندلی کیخلاف دھرنا دینا پی ٹی آئی کے پوش حامیوں کاحق ہے تواس کامطلب سفیدپوش آبادیوں میں پی ٹی آئی کاکوئی وجودنہیں ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے دھرنے میں صرف برگر کلاس کی نمائندگی ہے جواس دھرنے کوکسی پکنک پوائنٹ کی طرح انجوائے کررہے ہیں۔انہوں نے شایدڈی ایچ او کی پوش آبادی کواین اے125سمجھ لیا ہے،وہ بھول گئے اس حلقہ میں بیسیوں دیہات اورسینکڑوں پسماندہ آبادیاں بھی آتی ہیں۔ان کے نزدیک دھرناایک فن یعنی ایک تفریح ہوگامگرمیں اسے پوش اورسفیدپوش افراد کے درمیان خطرناک تفریق سمجھتا ہوں۔اصولی طورپر پی ٹی آئی کودھرناان آبادیوں میں دیناچاہئے تھا جہاں سے حامد خان کوشکست ہوئی ڈیفنس سے توبلے کوبرتری ملی تھی ۔ہمارے ہاں جو اخبار کامطالعہ کرتا یاٹی وی ٹاک شوز دیکھتا ہے وہ بھی خود کومنجھا ہوا سیاستدان سمجھتاہے،پی ٹی آئی کے دھرنے میں زیادہ ترلوگ دوسروں کے دیکھادیکھی آئے اورانہوں نے این اے125سے کامیاب اورناکام امیدوار کے درمیان موازنہ نہیں کیا۔خواجہ سعد رفیق 1997ءمیںاس حلقہ سے ممبر پنجاب اسمبلی جبکہ2008ءمیں کچھ ماہ وفاقی وزیراور ممبر قومی اسمبلی کی حیثیت سے شہریوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے ۔انہوں نے کبھی پارٹی بدلی اورنہ ان کے اجلے دامن پر بدعنوانی کاکوئی داغ لگا ۔وہ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن اورمسلم لیگ (ن) یوتھ ونگ کے مرکزی سیکرٹری جنرل رہے ۔انہیں سیاست،فہم وفراست،استقامت اورفن خطابت کے جوہر اپنے والدخواجہ محمد رفیق شہید اوراپنی والدہ بیگم فرحت رفیق(سابق ممبر پنجاب اسمبلی) سے ورثہ میں ملے ہیں ۔پروفیشنل گروپ کے سربراہ حامدخان نے مختلف وکلاءبارکے کئی انتخابات میں بحیثیت امیدوارحصہ لیااورکامیاب رہے مگروہ پہلی باربراہ راست عام انتخابات میں بحیثیت امیدوارشریک ہوئے جبکہ این اے 125میں عام انتخابات کے سلسلہ میںخواجہ سعد رفیق کے مقابلے میں حامد خان انتہائی ناتجربہ،ووٹرزکیلئے اجنبی کار اورغیرمنظم تھے ۔خواجہ سعد رفیق کو پرویزمشرف کے دورآمریت میں تحفظ ناموس رسالت کیلئے مظاہرہ کرنے کی پاداش میں پابندسلال کردیا گیا ۔خواجہ سعد رفیق نے قومی پرچم نذرآتش کئے جانے کے شرمناک واقعہ کیخلاف قومی پرچم مارچ کاانعقادکیا اورایک بڑے جلوس کے ساتھ ہزاروں میل کافاصلہ طے کرتے ہوئے چاغی کے پہاڑوں پرجہاں ایٹمی دھماکے کئے گئے وہاں پاکستان کاسبزہلالی پرچم لہرایا ۔وہ مختلف ٹاک شوز میں اپنے پارٹی کاز اوراپنی پارٹی قیادت کی بھرپوراندازسے وکالت کرتے ہیں ۔جس طرح حامدخان کو وکلاءسیاست کاایک معتبر نام سمجھا جاتا ہے اس طرح قومی سیاست میںخواجہ سعد رفیق کانام احترام سے لیا جاتا ہے۔خواجہ سعد رفیق نے بحیثیت پارلیمنٹرین وسائل کارخ پوش آبادیوں کی بجائے سفیدپوش آبادیوں کی طرف موڑدیا تھا جس پرووٹرزنے انہیں دوبارہ منتخب کرلیا ۔ خواجہ سعد رفیق کا اپنے ووٹرزسے مثالی رابطہ اورواسطہ بھی ان کی بار بار جیت کاسبب بنتا ہے۔خواجہ سعد رفیق اورحامدخان کے درمیان ایک نجی ٹی وی پربراہ راست مناظرہ کرایا گیا جس میں خواجہ سعد رفیق نے حامدخان کو این اے125اور126دونوں حلقوں میں ری پول کرانے کی پیشکش کرتے ہوئے انہیں ناک آﺅٹ کردیا۔

پاکستان کے مختلف شہروں میں ہرروزکسی نہ کسی ایشوپر پرامن یاپرتشدداحتجاج ضرورہوتا ہے ۔جس وقت عام شہری اپنے حقوق کیلئے یامسائل کیخلاف سڑک بلا ک کرتے ہیں توانہیں جاہل اورپاگل قراردیا جاتاہے لیکن اگرہماری مہذب اشرافیہ ایک حلقہ میں مبینہ دھاندلی کیخلاف مسلسل کئی روزسے ایک شاہراہ عام بندکردے توڈی ایچ اے کے حکام کچھ نہیں کرتے ۔اگراس قسم کادھرناکسی نے بیدیاں روڈ پریاکوٹ لکھپت میں دیاہوتاتوہماری پولیس کے ڈنڈا برداراب تک ان کی ہڈیاں پسلیاں توڑچکے ہوتے ۔امریکہ میں قرآن مجیدنذرآتش کرنے اوریورپ میںتوہین آمیزخاکے شائع ہونے کیخلاف پاکستان کے سفیدپوش طبقات نے بھرپوراحتجاج کیا مگراس دوران پوش آبادیوں میں شہرخموشاں کامنظرتھا ،اس وقت بھی ان کی حمیت نے جوش نہیں مارااوروہ گرمی کے ڈرسے اپنے اپنے ٹھنڈے بیڈروم سے باہرنہیں آئے جبکہ اب ایک حلقہ میں مبینہ دھاندلی کابنیادبناکرمسلسل کئی روزسے سڑک پرڈیرہ جمائے ہوئے ہیں،اگران کے نزدیک اس روش اورروشن خیالی کانام تبدیلی ہے توان کومبارک ہو۔انہیںاس وقت بھی دھرنے کی توفیق نہیں ہوئی جس وقت پرویزمشرف نے جمہوریت اورپھرعدلیہ پرشب خون ماراتھا۔ شریف خاندان کوملک بدراورچیف جسٹس افتخار چودھری کوبرطرف اور نظربندکردیا گیا تھااس وقت پوش اشرافیہ کہاں تھی۔پی ٹی آئی نے کراچی میں انتخابی دھاندلی کیخلاف تودھرنادیا مگرالطاف حسین کی طرف سے کراچی کو پاکستان سے الگ کرنے کی ہرزہ سرائی پر انہوں نے اف تک نہیں کیا ۔پاکستان بھرمیں لوڈشیڈنگ اورمہنگائی کیخلاف پرتشدد احتجاجی مظاہرے ہوئے مگراس وقت بھی پوش آبادیوں سے کوئی آوازنہیں ابھری ۔جسم فروشی یامنشیات فروشی کا گھناﺅنا کاروبار صرف پسماندہ آبادیوں تک محدود نہیں رہا بلکہ پوش آبادیوں میں زیادہ زوروشورسے ہوتا ہے مگرپاکستان کی روشن خیال اشرافیہ نے کبھی بے حیائی یامنشیات کے کاروبار کیخلاف دھرنانہیں دیا۔پی ٹی آئی کاپوش آبادیوں کی نمائندہ جماعت بن کرابھرنا اس کے مستقبل کیلئے خطرناک ہوسکتا ہے۔ پی ٹی آئی کا دھرنا آزاداورانصاف پسندعدلیہ کے کردارپر ایک سوالیہ نشان ہے۔

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 139688 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.