وہ باپ بیٹی زندہ ہوتے ،مر ہی تو جاتے

کیا لکھوں اور کہاں سے شروع کروں،نو حہ لکھوں کہ مرثیہ،افسوس کروں یا ماتم،ہے کوئی جو آگے بڑھ کر ذمہ داری لے،کوئی ایسا جو کھل کے کہہ دے کہ یہ سب ہماری نا اہلیوں اور نالائقیوں کی وجہ سے ہوا،اس تباہی اور بربادی کے ذمہ دار کوئی اور نہیں ہم ہیں،ہم نے وفاق کی علامت کو گلی محلوں کی پارٹی بنا دیا،کدھر ہیں وہ چوری کھانے والے مجنوں،جو جب سپریم کورٹ کا کوئی آرڈر آتا تو مذاق میں اڑا دیتے،وہ منہ سے جھاگ اڑاتے مغلظات بکنے والے کدھر ہیں،جو پوری سپریم کورٹ پہ تبرا اور تبرا بھی صبح شام کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے،جو گھنٹوں پہروں چلچلاتی دھوپ میں خلق خدا کو سڑکوں پہ کھڑا رکھتے تھے کہ بابر اعوانوں اور رحمٰن ملکوں کی سواری گذرنے کو ہے،ہ کدھر ہیں جو بجلی گیس اور دیگر اشیائے ضروریہ نہ ہونے پہ عوامی احتجاج پہ ٹس سے مس نہیں ہوتے تھے،اور وہ کدھر ہیں جن کے اکاﺅنٹ میں چار کروڑ روپے آگئے جس کا ان کو پتہ ہی نہیں چلا تو بجائے شرمندہ ہونے کہ مکروہ اور کھسیانی ہنسی ہنسنا شروع کر دی،وہ کدھر گئے جن کے بارے میں تمام جماعتوں نے کہا کہ ہم اس بیرسٹر کے مقابلے میں اپنا کوئی امیدوار ہی نہیں کھڑا کریں گے ڈوب مرنے کا مقام ایک بوتھ سے صرف 80 ووٹ نکلے لعنت ہے ایسی سیاست پر،اور وہ داخلہ ملک صاحب جو کہتے تھے کہ دوبارہ ہم ہی نے آنا ہے کارکردگی دیکھیں پانچ سال میں اپنی لیڈر کا کوئی ایک بھی قاتل پکڑنا تو دور کی بات ایک کو گارڈ آف آنر دے کر دیار غیر بھیج دیا دوسرے کو جسے خود بی بی نے نامزد کیا اسے جھولی میں بٹھا کراس کے سر پہ ڈپٹی وزیر اعظم کا تاج سجا دیا،رینٹل کے قصے ،ریلوے کی تباہی،پی آئی اے کا ستیاناس ،او جی ڈی سی ایل پہ طبع آزمائی کی کوشش،جگا ٹیکسوں کی بھرمار،لوٹ مار کے ریکارڈانہوں نے شایدسمجھ رکھا تھا کہ ساری قوم نے دھنیا پی رکھا ہے فرعونیت کا یہ عالم تھا کہ عام افراد تو عام افراد ہائی کور ٹ و سپریم کورٹ تک کو گھاس نہیں ڈالتے تھے،اپوزیشن اور میڈیا نے جب بھی کسی برائی کی نشاندہی کی تو رنگیلے شاہ کی طر ح انہوں نے ایک شان بے نیازی سے کہا چھوڑو یار حلوہ پکاﺅ ،خود بھی کھاﺅ ہمیں بھی کھلاﺅ،سینکڑوں لوگوں کے جھمگٹھوں میں بیرونی دورے،بیگمات کا بھی شاہانہ پروٹوکول،لاکھوں ڈالرز کی ایک ایک دن میں شاپنگ ،ادھر لوگ فاقوں مرتے رہے رہی سہی کسر دہشت گردی نے نکال دی،رحمٰن ملک کی ہر بڑ ھک کا خمیازہ قوم کے غریب افراد کو بھگتنا پڑا،کبھی کوئٹہ میں بے گناہوں کی لاشیں گریں تو کبھی پشاور میں ،کبھی لیویز اہلکاروں کو اغوا کر کے لائن میں کھڑا کر کے گولیوں سے اڑایا گیا تو کبھی گلگت بلتستان میں معصوم لوگو ں کو شناخت کے بعد چن چن کر بھسم کیا گیا،ہر واردات کے بعد کمر توڑنے کا کمر توڑ بیان آیا دہشت گردوں کی کمر ٹوٹی یا نہ ٹوٹی عوام کی جان ضرور عذاب میں رہی،حکمران اپنے آہنی بنکروں سے باہر نکلے نہ اپنے شاہی محلات کے جھروکے سے گلی میں جھانکنے کی ہی تو فیق ہوئی، عوام صبح شام مرتے رہے ادھر ہر روز ہر محفل میں نعرہ لگتا رہا کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے ، ڈیزل اور پٹرول کی قیمتیں بڑھتی رہیں،بجلی اور گیس کے لیے پیسے اٹھا کے بھی لوگ در در کی ٹھو کریں کھاتے رہے،پہلی دفعہ تاریخ میں پیسے ہونے کے باوجود نہ بجلی مل رہی تھی نہ گیس،پانچ سالوں میں کوئی ایک بھی بڑا عوامی منصوبہ کیا شروع کرتے اپنی لیڈر کے قاتلوں کی گر دپا تک بھی نہ پہنچ سکے،اور بیان بازی ہر دفعہ یہی ہوتی رہی کہ ہم نے قاتل ڈھونڈ لیے ہیں مگر شاید وہ ان کے چاچے یا مامے کے پتر تھے اس لیے ان کو ہتھکڑی لگانے کی جراءت نہ کر سکے،قوم ان کی ہر غلطی شایدمعاف کر دیتی مگر یہ اتنا بڑا گناہ ہے جسے ان کے اپنے پرائے کبھی بھی معاف کرنے کوتیار نہیں کہ بھرپور اور مکمل اختیار کے باوجود انہوں نے بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو پکڑنا اور سزا دلوانا تو رہا ایک طرف اس معاملے میں ذرا سی سنجیدگی بھی نہیں دکھائی اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ جناب کو چئیرمین ان تما م لوگوں کو فرنٹ لائن پہ لے آئے جنہیں محترمہ اپنی زندگی میں ناپسند کرتی تھی یا کم از کم انہیں اس طرح کی اہمیت نہیں دیتی تھیں،خود موصوف کو چئیرمین کو بھی کسی اہم میٹنگ میں شرکت کی اجازت نہیں ہوتی تھی اور پھر جب ان کے ہتھے پارٹی چڑھی تو اس کا بھی وہی حال ہوا جو چوہے کی دکان کا ہوا تھا جسے ادرک کا ٹکڑا ملا تو اس نے پنسار کی دکان کھو ل لی تھی مگر ان کو ادرک کا ٹکڑا نہیں ملا ان کو ادرک کا پورا کھیت اور کھلیان مل گیا مگر نکلے یہ سارے کے سارے چوہے ہی اتنی بڑی پارٹی اور یہ انجام،کاش یہ لوگ وقت کی آواز سن لیتے،جب یہ آستینیں چڑھا کر عدالتوں پر بازاری قسم کی لفاظی کی بوچھاڑ کرتے تھے تو ان کے اند رکہیں یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ سنجیدہ فکر اور مزاج کے لوگوں پہ کیا گذر رہی ہے ، انہوں نے کبھی نہیں سوچادہشت گردی اور مہنگائی نے عوام کو کس عذاب میں ڈال رکھا ہے،بیروزگاری کا عفریت کس طرح لوگوں کو نگل رہا ہے،مئی جون میں پینتالیس پینتالیس لاکھ کا سوٹ اور ٹائٹ ٹائی لگانے والوں کو اندازہ نہیں تھا کہ عام پاکستانی کس اذیت سے دوچار ہے،کاش یہ آ نیوالے وقت کے قدموں کی چاپ سن لیتے مگر اب پچھتائے ہوت جب چڑیاں گ گئیں کھیت،کیسی پارٹی ان کے حوالے کر کے گئی بھٹو کی بیٹی اور آج کس حال کو پہنچا دی انہوں نے،کون ان سے باز پرس کرے گا کون ان سے اس کا حساب لے گا،قربانیاں بھٹو اور اس کے خاندان نے دیںقابض ہو گئے زرداری ،ٹپی اور تالپور،کہاں بمبینو سینما کی ٹکٹوں کی بلیک میں فروخت اور کہاںقصر صدارت کے مکین کی ہمنوائی،یہ ایسے مست ہوئے کہ وفاقی حکومت پاس ہونے کے باوجود تمام ضمنی الیکشن کی ہار سے بھی ان کے کان پر جوں تک نہ رینگی،بجلی گیس کی قیمتیں روزانہ کی بنیاد پہ بڑھتی رہیں اور اپنے ملک سے نکلنے والی گیس کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر جا پہنچیں جس نے عوام کی چیخیں نکلوا دیں اور مجبوراً سپریم کورٹ کو میدان میں آنا پڑا اور چیف جسٹس نے قیمتوں میں یکلخت لگ بھگ تیس روپے فی کلو کمی کر دی جو آج تک قائم ہے اس کے باوجود بھی یہ لوگ مطمئن اور مسرور رہے کہ ستے خیراں ہیں اور ہماری کرسی اب دائمی ہے کوئی دھچکا کوئی جھٹکا ان کو جھنجھوڑ نہ سکا،ایک سے ایک بڑا نااہل فقط دستی اور منظور نظر ہونے کے بل بوتے پر اعلیٰ سے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوا،بابر اعوان عہدے کی اور نوازشات کی برکھا کیا برسی جناب کی زبان ان کے قد سے بھی لمبی ہو گئی،فیصل عابدی کا تو خیر ذکر ہی چھوڑیئے اخبار کے صفحات گند سے بھر جائیںگے،نواب رئیسانی کو لے لیجیئے کوئٹہ میں شنکڑوں لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں رکھ کے سخت سردی میں ٹھٹھر رہے تھے یہ صاحب چار سو سی سی کی موٹر سائیکل پر حسیناﺅں کے ہمراہ اسلام آباد کی سڑکوں پر ویلنگ کے مظاہروں میں مصروف تھے اور پھر انہی کے جھرمٹ میں لندن چلے گئے جب کسی نے یاد دلایا کہ جناب کے کیپیٹل میں لوگ تین دن سے سڑک پر بیٹھے ہیں تو گویا ہوئے میں کیا کروں ٹشو کے دو ٹرک بھجوا دیتا ہوں انہیں کہو اپنے آنسو پونچھ لیں اور گھر جائیں،اس شدید ترین ہرزہ سرائی اور مظلوموں کا مذاق اور ان کے زخموں پر نمک پاشی کے باوجود کسی بھی طرف سے اس نیم پاگل اور نیم انسانی ہیولے کی مذمت میں ایک لفظ تک نہیں کہا گیادفاعی مورچوں پہ شرمیلا فاروقی ،شازیہ مری اور پلوشہ بہرام جیسے جری سپاہیوں کو تعینات کیا گیا،رضا ربانی،اور اعتزاز احسن جیسے کسی حد تک معقول افراد کا پکا بندوبست کیا گیا کہ وہ ہر پل نظروں میں رہیں،ڈاکٹر صفدر اور دوسرے بے نظیر کے جیالے جنھوں نے اپنی ٹانگیں تک پارٹی کی خاطر کٹوا دیں ان کا شروع میں ہی مکو ٹھپ دیا گیا ،عوام سب کچھ دیکھتے رہے اور اندر ہی اند رکڑھتے رہے،کچھ نے اپو زیشن کو کسنے دیے تو کچھ نے سپریم کورٹ سے گلے شکوے کیے،کسی نے آرمی چیف کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھا تو کسی نے میڈیا کو بکاﺅ مال کہہ دیا،مگر آفرین ہے ان تمام اہم افراد و اداروں کو کہ اس دفعہ انہوں نے بھی انتہائی بالغ نظری کا ثبوت دیا اور حکومت کی شدید ترین خواہش کے با وجود جس میں کبھی سوئس بنکوں کو خط نہ لکھ کر اور کبھی کینیڈا سے خود ساختہ شیخ کی آمد اسلام آباد پہ چڑھائی اور پھر واپسی کے ڈرامے کے باوجود انہیں نہ کوئی شہید دیا نہ سیاسی شہادت کے مرتبے پر ہی فائز ہونے دیا،انہوں نے انہیں کھل کے پانچ سال پورے کرنے دیے اور منصفی عوام پہ چھوڑی کیوں کہ جس طرح جمہوریت بہترین انتقام ہے اسی طرح عوام سب سے بہترین جج،اور پھر عوام نے موقع ملنے پر فیصلہ کر دیا وہ فیصلہ جو حالات و واقعات کے عین مطابق ہے اور شاید یہ ان کے وہم وگمان میں بھی نہی ہو گا مگر صرف ان چند خواص کے وہم و گمان میں،ورنہ نوشتہ دیوار بچے بچے کو صاف نظر آرہا تھا آنیوالا وقت ان کے لیے کیا کچھ لا رہا ہے اپنے ساتھ اگر نظر نہیں آ رہا تھا تو صرف ان ٹپیوں،تالپوروں،مرزوں، نائیکوں، مخدوموں، کھوڑوں، بلوروں، بھائیوں،کائروں،وٹوﺅں،وڑائچوں، رحمٰن ملکوں اور اعوانوں کو نظر نہیں آرہا تھا ،آج ہر طرف رسوائیوں اور جگ ہنسائیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے،وہ لوگ جو کل تک بازو لہرا لہرا کر اور بھٹو زندہ ہے کے نام کی جگالی کرتے تھے آج گھر سے باہر نکلتے ہوئے بھی سو دفعہ ادھر ادھر دیکھتے ہیں،شکر آج بھٹو اور اس کی بیٹی زندہ نہیں ورنہ آج اپنی پاکستان کے لو گوں کے لیے بنائی گئی پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کا حشر اور حالت دیکھ کر مر ہی تو جاتے،،،،،،،،اللہ ہم سب پر رحم کرے