قدرت نے اس کائنات اورانسانیت کیلئے جوقانون بنائے ہیں ان
میں تبدیلی کااختیار بھی صرف اس قادرمطلق کے پاس ہے تاہم جوقانون اورضابطے
حضرت انسان نے اپنے معاشرے اوراپنی معیشت کیلئے بنائے ہیں ان میں
ناگزیرضرورت اورانسانی سہولت کے مطابق کسی بھی وقت تبدیلی کی جاسکتی
ہے۔اللہ تعالیٰ کے ہاں سے کسی انسان کو اس کے مذہب یاملک کی بنیاد پررزق
نہیں ملتابلکہ ہماراسچامعبود توان کی دعابھی مستجاب کرتا ہے جومشرک اورکافر
ہیں۔جہاں تک مجھے معلوم ہے دوہری شہریت کسی بھی طرح اسلامی تعلیمات
اورپاکستان کے قومی مفادات سے متصادم نہیں مگربدقسمتی سے اس نان
ایشوکوخومخواہ ایشو بنادیا گیا ہے ۔پاکستان بلاشبہ اسلام کی بنیاد پر معرض
وجودمیں آیا تھامگراس کے باوجودہمارے ملک میں آبادمختلف اقلیتوں کومذہبی
وسیاسی آزادیاں دستیاب ہیں اور خواتین کے ساتھ ساتھ مختلف اقلیتوں سے تعلق
رکھنے والے افرادکوبھی مخصوص سیٹوں پراسمبلیو ں میں نمائندگی دی گئی ہے
جبکہ کئی ملین اوورسیز پاکستانیوں کوانتخابی سیاست بیدخل کردیا گیا ہے۔ایک
طرف ریاست کیخلاف بغاوت کاعلم بلندکرنیوالے شدت پسندوںاورقوم پرستوں کوقومی
دھارے میں لانے کی بات بار بار دہرائی جاتی ہے جبکہ دوسری طرف اوورسیز
پاکستانیوں کوقومی دھارے سے دوردھکادیا بلکہ دھتکاراجارہا ہے ۔ ہمارے وہ ہم
وطن جوسات سمندر پاردن رات محنت مشقت کرتے ہیں اوران کی بدولت پاکستان میں
کئی ملین گھرانوں میں چولہا جلتااور زندگی کاکارواں رواں دواں ہے۔جس ملک
میں روزگاردستیاب ہواورنہ کاروبارکیلئے ماحول سازگار ہواگروہاں سے کچھ
ہمارے اپنے روزگارکیلئے جلاوطنی کاٹ رہے ہیں اوراس جلاوطنی کی آگ نے ان کی
پاکستان کے ساتھ والہانہ محبت کوکندن بنادیا ہے توپھرہم اپنے ہم وطنوں
اورمحسنوں سے ان کی پاکستانیت کس طرح چھین سکتے ہیں۔یہ لوگ پاکستان کے ساتھ
ساتھ اس ملک کے قوانین کی بھی پاسداری کرتے ہیں جس ملک کی شہریت ان کے پاس
ہو۔اگرپاکستان نے ان بغیرتنخواہ کے کام کرنیوالے اپنے سفیروں کواپنے ریاستی
معاملات سے دور کردیاتواس اقدام کے نتیجہ میں پاکستان کی معیشت بری طرح
متاثرہوسکتی ہے اورپاکستان کی حکمران پارٹیوں کی فنڈنگ بھی بندہوجائے گی۔
حکومت پاکستان کو آئی ایم ایف اورورلڈبنک سے ان کی سخت شرطوں کے مطابق قرض
ملتا ہے اورقرض کے ساتھ ساتھ ڈکٹیشن بھی سنناپڑتی ہے مگر اوورسیز پاکستانی
تواپناجوپیسہ ہمارے ہاں بجھواتے ہیں اس کیلئے وہ کوئی شرطیں عائدنہیں کرتے
لیکن وہ اپنے مادروطن کی محبت میں گرفتار اس کے داخلی اورسیاسی معاملات میں
رائے دینے کاجمہوری حق ضرورمانگتے ہیں ۔ رحمن ملک سمیت مٹھی بھر دوہری
شہریت والی شخصیات سمیت حکومت کے اہم عہدیداران کودیوارسے لگانے کیلئے
ہزاروں دوہری شہریت والے مگرمخلص ،مدبراورباصلاحیت پاکستانیوں کوملک وقوم
کی خدمت کرنے کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ہاں اگروہ کسی مجرمانہ یاوطن
دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہوں تواس صورت میںضرورانہیں روکنا ہم سب کافرض
بنتاہے۔اوورسیزپاکستانیوں کوانتخابات میں شریک کرنے کیلئے ایک متفقہ ضابطہ
اخلاق بنایا جاسکتا ہے جس کے تحت دوہری شہریت والے پاکستانیوں کوصدرمملکت
اور وزیراعظم سمیت کچھ اہم اورحساس وفاقی وزارتوں کیلئے غیرموزوں قراردے
دیاجائے جومیرے نزدیک زیادتی ہے مگرخداراانہیں پوری طرح انتخابی سیاست سے
آﺅٹ نہ کیا جائے ۔اگردوہری شہریت واقعی ایک برائی ہوتی توامریکہ اوربرطانیہ
کے ارباب اقتداربھی ضرور اس پرپابندی لگاتے لیکن وہاں مقیم پاکستان
اوربھارت کے لوگ بلدیاتی اور پارلیمانی اداروں کے انتخابات میں امیدوارکی
حیثیت سے شریک ہونے کاآئینی حق رکھتے ہیں۔اوورسیزپاکستانیوں کوووٹ دینے
کاحق کوئی احسان نہیں ،یہ حق توانہیں امریکہ اوربرطانیہ میں بھی حاصل ہے۔
امریکہ اوربرطانیہ بھی سوفیصد کرپشن سے پاک نہیں ہیں مگروہاں کسی دوہری
شہریت والے فرد کے ساتھ امتیازی برتاﺅنہیں کیا جاتا۔
بلاشبہ پاکستان میںمعین قریشی اورشوکت عزیز کے تجربات بری طرح ناکام رہے
ہیں لیکن کیا محض اس بنیادپرہزاروں اوورسیزپاکستانیوں کے مثبت کردار،قول
وفعل اوران کی نیک نیتی پرشبہ کرناجائزہوگا۔کیا معین قریشی اورشوکت عزیزسے
پہلے اوربعدمیں آنیوالے وزرائے اعظم کانام کرپشن میں نہیں لیا جاتا۔کیالوگ
سابق وزرائے اعظم بینظیر بھٹوشہید ،میاں نوازشریف ،یوسف رضاگیلانی
اورموجودہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف پرانگلیاں نہیں اٹھاتے ۔اس بات کی کیا
ضمانت ہے جوصرف پاکستان کی شہریت کے حامل سیاستدان ہیں وہ کسی قیمت
پربدعنوانی میں ملوث نہیں ہوں گے ۔کینسر کی طرح کرپشن بھی ایک مرض ہے جوکسی
کوبھی ہوسکتا ہے ۔
ماضی میں فوجی آمرپرویز مشرف نے حسد،انتقام اوربدنیتی کی بنیاد پرانتخابات
کیلئے تعلیمی معیاد مقررکی تھی اس قانون اورقدغن کاواحدمقصد مخصوص
سیاستدانوں کواسمبلیوں میں آنے سے روکنا تھاجس میں وہ کسی حدتک کامیاب بھی
رہا مگر براہواس موروثی سیاست کاجس کے نتیجہ میں ان چندسیاسی خاندانوں کے
عزیزواقارب امیدواربن گئے اورعوام نے بھی انہیں منتخب کرلیا ۔اس کے باوجود
حکمران پارٹیوں کے کئی منتخب عوامی نمائندوں کی جعلی ڈگریاں منظرعام پرآتی
رہیں مگرایک دوکے سوا کسی کیخلاف قانونی چارہ جوئی نہیں کی گئی ۔میں ایک
ایم پی اے کوجانتا ہوں جس کی بی اے کی ڈگری جعلی تھی مگراسے پنجاب
یونیورسٹی کاسینڈیکیٹ ممبر بنادیا گیا اورپھر موصوف کے اثرورسوخ سے ان کی
جعلی ڈگری راتوں رات کلیئر ہوگئی۔الیکشن کمیشن کی سفارشات کے باوجود
سپیکرپنجاب اسمبلی نے پولیس کو کسی ممبرکیخلاف ایف آئی آرکااندراج نہیں
کرنے دیا کیونکہ حکمران جماعت کے ممبران کی تعدادمیں کمی سے حکومت ختم ہو
جائے گی اورتخت لاہورپیپلزپارٹی کے ہاتھ آجائے گا۔ دوہری شہریت کی بجائے
ارکان اسمبلی سے ان کی ڈگریوںبارے فرداًفرداًقرآن پاک پر حلف لیا جائے
کیونکہ جعلی ڈگری بنانے کے کئی جدید طریقے موجودہیں ۔ہمارے ہاں نام
اورولدیت امیدوارکی مگررول نمبر سلپ پرتصویرکسی اورکی ہوتی ہے ۔دوسری صورت
میں امیدوارامتحانی سنٹرمیں صرف حاضری لگا نے کے بعدخالی شیٹ دے کرواپس
آجاتا ہے مگر رشوت کی بدولت اسے امتیازی نمبر مل جاتے ہیں ۔ایک اورصورت میں
ضرورت مندپرانے گزٹ میں پاس ہونیوالے اپنے نام سے ملتاجلتا نام تلاش کرتا
ہے جس کی ولدیت بھی ملتی جلتی ہواورپھررشوت کی بدولت یاسفارش کی طاقت سے اس
کی ڈوپلیکیٹ سندنکلوائی جاتی ہے اورچیک کرنے پروہ کلیئرکردی جاتی ہے۔جعلی
ڈگریاں بنوانے اورنقل مارنے سمیت مختلف غیرقانونی ذرائع استعمال کئے جا نے
کی حوصلہ شکنی اشدضروری ہے ۔ان تمام پہلوﺅں کومدنظررکھتے ہوئے ارکان اسمبلی
سے فرداًفرداً حلف لیا جائے کیونکہ اجتماعی تقریب میں یہ لوگ حلف کے الفاظ
نہیں پڑھتے بلکہ صرف بڑبڑاتے ہیں ۔
جس طرح آئین میں ترمیم کرتے ہوئے ا سمبلیوں کے اندرخواتین کی
بھرپورنمائندگی کویقینی بنایاگیا ہے اس طرح اوورسیزپاکستانیوں کوبھی
نمائندگی دی جائے کیونکہ مختلف سیاسی پارٹیوں کے اوورسیزونگ کام کررہے ہیں
اوران کی طرف سے پارٹی قیادت کوپارٹی فنڈزاورقیمتی تحفوں کے نام پرخوب مال
ملتا ہے مگرافسوس کسی سیاسی لیڈرنے اوورسیزپاکستانیوں کے حق کیلئے آوازنہیں
اٹھائی۔اگرپیپلزپارٹی کے چنداہم لوگ اس پابندی کی زدمیں نہ آتے تویقینا یہ
لوگ بھی اس ایشوپرکوئی بات نہ کرتے۔ پاکستان میں این آراوزدگان اوربڑے بڑے
خاندانی بدعنوان ان اسمبلیوں میں براجمان ہیں،اب خواجہ سرابھی انتخابی
سیاست میں شریک ہو سکتے ہیں، اربوںروپے کاقرض ڈکارنے اورکاغذوں میں خسارہ
ظاہرکرکے معاف کرانے والے صدر،وزیراعظم ،گورنر،وزیراعلیٰ اور وزیریامشیر بن
سکتے ہیں ،ایک خاندان سے باپ ،بیٹوں ،بیٹیوں،بیویوں،دامادوں اورسمدھیوں
سمیت دوسرے خونی رشتہ دارارکان پارلیمنٹ منتخب ہوسکتے ہیں ، انگوٹھاچھاپ
سرمایہ دار امیدواروں کوبیک وقت کئی کئی سیٹوں سے کھڑاہونے کاحق حاصل ہے ،
مختلف سنگین مقدمات میں ملوث ملزمان جیل کی کال کوٹھڑی سے ووٹ ما نگ سکتے
ہیں توپھربدنصیب دوہری شہریت والے پاکستانیوں کوان کے اس بنیادی ،جمہوری
اورآئینی حق سے محروم کیوں کیا گیا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ میں پاکستان
یابھارت کے شہریوں کو انتخابات میں امیدوارکی حیثیت سے شریک ہونے کیلئے
اپنے اپنے ملکوں کی شہریت سرنڈر کرنے کیلئے نہیں کہا جاتا توپھرپاکستان میں
کیوں کہا جارہا ہے اورکیاصرف دوہری شہریت چھوڑنے سے کوئی رہزن رہبربن جائے
گا ،کیا ہمارے مقامی سیاستدان بدعنوانی کی نجاست سے سوفیصد پاک ہیں۔میں
پورے وثوق سے کہتا ہوںاگر اوورسیزپاکستانی قومی سیاست میںآجائیں تویہ ملک
وقوم کیلئے بیحدمفیدثابت ہوں گے۔میرے نزدیک دنیا کے ہروہ ملک مہذب اورمتمدن
ہے جہاںانصاف ''انا ''کے مطابق نہیں بلکہ آئین کی روسے کیا جاتا ہو۔دنیا کے
کسی ملک میں بنیادی انسا نی حقوق سے متصادم کوئی قانون اورقاعدہ پسندیدہ یا
قابل قبول نہیں ہوسکتا۔اگرآج تمام ترقومی بحرانوں کے باوجودپاکستان کی قومی
معیشت کادل دھڑک رہا تواس کاکریڈٹ بلاشبہ اوورسیزپاکستانیوں کوجاتا ہے
۔ورنہ ہمارے حکمران اورسیاستدان تولوٹو اورپھوٹو کے محاورے کی تصویر بنے
ہوئے ہیں اورانہوںنے پاکستان سے لوٹ لوٹ کراپناکالا دھن بیرون ملک منتقل
کردیا ہے جبکہ اوورسیزپاکستانی دنیا کے دوردرازملکوں میں جہاں انہیں محض
پاکستانی شہری ہونے کی بنیادپر مقامی افراد کی طرف سے نفرت، تعصب
اورتشددکابھی سامنا کرناپڑتا ہے مگروہ پھربھی اپنی محنت مشقت کی کمائی
کاایک بڑاحصہ پاکستان بجھواتے ہیں۔فرض کریں اگروہ اپناسب کچھ چھوڑچھاڑ
کرپاکستان واپس آجائیں تو انہیں توانائی سے محروم اس ملک میں روزگارکون دے
گا،ہم کیوں انہیں بھی اپنی طرح اس ملک اورنیم مردہ معیشت کیلئے ایک بوجھ
بنانے کے درپے ہیں۔اگرہماراکوئی اپنا اپنے ماں باپ اوربیوی بچوں کیلئے
چارپیسے کمارہا ہے توہم اس سے حسدکیوں کررہے ہیں ۔کیا دنیا کے مختلف
اورمہذب ملکوں کے نظام کوسمجھنے والے ،انتھک اورباصلاحیت اوورسیزپاکستانیوں
کو انتخابی سیاست سے بیدخل کرکے پاکستان کی رگ رگ میں پھیلی کرپشن ختم
ہوجائے گی۔اوورسیزپاکستانی ایمانداری اوتفرض شناسی سمیت ہرمعاملے میں مقامی
سیاستدانوں سے بہت بہترہیں ۔اوورسیزپاکستانیوں کی بجائے ان نام
نہادسیاستدانوں اوراشرافیہ کاراستہ روکاجائے جوسیاست پاکستان میں مگرتجارت
امریکہ ،کینیڈا ،برطانیہ اوریورپ میں کرتے ہیں ۔جواپناسرمایہ پاکستان کی
بجائے بیرون ملک بنکوں میں زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں ۔اگرپھربھی
اوورسیزپاکستانیوں کوانتخابات میں امیدوارکی حیثیت سے شریک ہونے سے
روکناضروری ہے توپھرصدرمملکت سے وزیراعظم اوروزرائے اعلیٰ سے وفاقی وصوبائی
وزیروں اورسینیٹروں سے سفیروں تک اورججوں سے جرنیلوں تک ہر کسی سے اس کا
ڈپلومیٹ پاسپورٹ واپس لے کرسبھی کوصرف اورصرف سبزپاسپورٹ پرسفرکرنے
کاپابندبنایا جائے کیونکہ اسلام انصاف اور مساوات کاعلمبردار ہے۔ |