بے نظیر کی پارٹی

”جمہوریت بہترین انتقام ہے“

اور جمہوریت نے انتقام لے لیا۔ المیہ یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کے اس مقولے کا نشانہ ان کی اپنی جماعت بنی ہے۔2013 کے انتخابات نے چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر کی جماعت کو سندھ تک محدود کردیا ہے۔ اور حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ وہ پارٹی جسے ذوالفقار علی بھٹو کی کرشمہ ساز شخصیت، انقلابی منشور، عوام کا دل تسخیر کرتے نعروں نے حقیقی معنوں میں ملک کی واحد قومی جماعت بنادیا تھا، جو بھٹو کی ولولہ انگیز قیادت میں ملک کی سب سے بڑی جماعت بن گئی تھی اور بے نظیر بھٹو کی جری اور دانش مند قیادت نے جس کی یہ حیثیت برقرار رکھی، آج وہ پاکستان پیپلز پارٹی سمٹ کر ایک صوبے کی نمایندہ جماعت بن گئی ہے۔

ایوب خان کی فولادی آمریت کے خلاف میدان میں آنے والے نوجوان ذوالفقارعلی بھٹو نے جب ”پاکستان پیپلز پارٹی“ کے نام سے نیا سیاسی کارواں تشکیل دیا تو سیاست کی دھوپ چھاؤں میں عمریں گزار دینے والے راہ نما جانتے تھے نہ منجھے ہوئے تجزیہ کاروں کو توقع تھی کہ یہ نومولود جماعت نہ صرف ملک کا سیاسی کلچر تبدیل کرکے رکھ دے گی، بل کہ اس شان سے اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوگی کہ یہ کام یابی ہماری انتخابی تاریخ کا امر ہوجانے والا واقعہ بن جائے گا۔ بھٹو کے طرزسیاست اور طرز حکومت سے کوئی لاکھ اختلاف کرے، مگر اس میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ انھوں نے پاکستانی سیاست اور سماج پر طاری جمود توڑ کر رکھ دیا۔ بہ طور حکم راں اگر ان پر لگنے والے الزامات کی ایک طویل فہرست ہے تو کارناموں کے دمکتے تمغوں سے بھی ان کا سینہ بھرا ہوا ہے۔ بے آئین ملک کو دستور کی ردا دینا، جوہری منصوبے کی داغ بیل ڈال کر بھارتی برتری کے خواب کو شکست، اسلامی سربراہی کانفرنس کے ذریعے پاکستان کو مسلم امہ کی قیادت کا منصب دلانا، زرعی اصطلاحات، مزدوروں کے حقوق کا تحفظ غرض یہ کہ ایسے اقدامات اور فیصلوں کی ایک صفحہ درصفحہ فہرست ہے جس نے تمام تر غلطیوں اور گناہوں کے باوجود پیپلزپارٹی کو عوام میں سرخ رو رکھا۔ پھر بھٹو کی پھانسی نے انھیں اور ان کے ساتھ پی پی پی کو وہ آب حیات پلادیا کہ جنرل ضیاءالحق اور ہم نوا تمام تر کوششوں کے باوجود اس جماعت کے سہ رنگے پرچم کو سفید کفن نہ بناسکے۔ تاریخ گڑھی خدا بخش کی پھولوں سے لدی قبر سے پی پی پی کی حمایت کی مہر لگی پرچیوں سے بھرے بکسوں تک عوام کی بھٹو سے محبت کا نظارہ کرتی رہی۔

جنرل ضیاءکا گیارہ سالہ دور بھٹو کے خاندان اور ان کی جماعت کے جبر کی سیاہ رات تھا۔ پھر اس دُور تک پھیلی رات کی ایک ساعت بھٹو کی تصویر بے نظیر کے اجالے سے روشن ہوگئی اور یہ روشنی پھیلتی ہی چلی گئی۔ لاہور میں بے نظیر کے بے نظیر استقبال نے ”زندہ ہے بھٹو زندہ ہے“ کے نعرے کی سچائی ثابت کردی۔ گرفتاری اور قیدِتنہائی سے عورت ہونے کے ”جرم“ میں غلیظ الزامات کی مہم تک، بھٹو کی دلیر بیٹی نے ہر آمرانہ حربے اور مخالفانہ ہتھکنڈے کا سامنا کیا۔ ان کی جُرات، صبر اور عزم کا نظارہ قوم نے بارہا کیا۔ کبھی وہ جلسوں اور اسمبلی کے فلور پر گرجتی نظر آئیں، تو کبھی آٹھ ماہ کی حاملہ ہونے کے باوجود سڑکوں پر کارکنوں کے ساتھ احتجاجی مارچ کرتی دکھائی دیں، اپنے اسیر شوہر سے ملاقات کے لیے بچوں کا ہاتھ تھامے چلچلاتی دھوم میں اجازت کی منتظر بے نظیر کی تصویر کسے یاد نہ ہوگی، اور پھر قتل کی دھمکیوں اور انتباہ کے باوجود ان کی پاکستان آمد نے انہیں اپنے والد کی طرح سیاست میں بہادری کی مثال بنادیا۔

مسلم دنیا کی پہلی منتخب حکم راں کے طور پر بے نظیر بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو انھیں صدر غلام اسحٰق خان سمیت مخاصمت سے بھرے ماحول کا سامنا تھا۔ سازشیں، ناتجربہ کاری اور غلطیوں نے مل کر غلام اسحٰق خان کے لیے مطلوبہ حالات بنادیے اور انھوں نے پی پی پی حکومت کو چلتا کیا۔ بے نظیر کی اگلی حکومت بھی مدت پوری نہ کرسکی اور اسٹیبلشمنٹ اور فاروق لغاری کی بے وفائی نے اس حکومت کا خاتمہ کردیا۔ لگ بھگ دو دو سال پر محیط پی پی پی کے یہ حکومتی ادوار کارکردگی کے اعتبار سے ملک کی کسی دوسری جمہوری یا آمرانہ حکومت سے اچھے نہیں تو برے بھی نہیں کہے جاسکتے۔ بل کہ لوگوں کو روزگار دینے میں پی پی پی کی کارکردگی حکومت میں آنے والی دیگر جماعتوں سے بہتر رہی ہے، لیکن روزگار کی فراہمی کو بھی اس جماعت کے لیے الزام بنادیا گیا۔

دورانِ اقتدار الزامات اور بہ طور حزب اختلاف انتقامی کارروائیاں سہتی بے نظیر بھٹو اور ان کی جماعت بہ ہر طور سیاست میں اپنا نمایاں کردار ادا کرتی رہی۔ بے نظیر بھٹو کی دلیر اور زیرک قیادت مشکلات سے راستہ نکالتی رہی اور عوام کے ایک وسیع حلقے میں اپنی پارٹی کا امیج اور بھٹو کا نام زندہ رکھا۔ یہاں تک کہ 1997کے انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی مسلم لیگ ن کے بھاری مینڈیٹ کے مقابلے میں صرف اٹھارہ سیٹیں حاصل کرپائی تھی، مگر بے نظیر کی سیاسی تدابیر نے پارٹی کو اس کی کھوئی ہوئی مقبولیت واپس دلادی۔ چناں چہ 2002کے عام انتخابات میں آمرِوقت پرویز مشرف کی چھتری تلے کام یابی حاصل کرنے والی مسلم لیگ ق کی 126 نشستوں کے مقابلے میں پی پی پی کو 81 نشستیں حاصل ہوئیں۔ اٹھارہ سے اکیاسی نشستوں تک کا یہ سفر بے نظیر کی بالغ نظر قیادت کے باعث پیپلز پارٹی کے امیج کی بحالی کے نتیجے ہی میں ممکن ہوا۔ یہ حقیقت بھی ذہن میں رہے کہ اس الیکشن میں پی پی پی کو ق لیگ کے مقابلے میں ایک فی صد زاید ووٹ ملے تھے۔

2008کے انتخابات کا انعقاد ہوا تو فضا بے نظیر کے خون سے رنگین تھی۔ اس خون کے صدقے پی پی پی اقتدار میں آئی اور آصف علی زرداری پارٹی کی قیادت سے ملک کی صدارت تک اپنی جماعت کی علامت بن گئے۔ یہ ناقص کارکردگی اور بدعنوانیوں کا ایک سیاہ دور تھا، جس نے پانچ سال مکمل کیے، مگر یہ تکمیل پاکستان پیپلزپارٹی کی حیثیت کا تکملہ بھی نظر آتی ہے۔ پی پی پی کا کوئی بھی دور حکومت ہو، اس میں ہونے والی بدعنوانی اور بدانتظامی میں جہاں پارٹی کے راہ نماؤں کا کردار رہا ہے وہیں ”جیالے“ بھی پارٹی کی بدنامی کا باعث بنتے رہے ہیں، جو پارٹی کے اقتدار میں آتے ہی مست ہاتھی کی طرح لوٹ کھسوٹ میں لگ جاتے ہیں۔ یہ ”اعزاز“ پی پی پی ہی کو حاصل ہے کہ اس کے ایک جیالے وزیر نے کرپشن کو علی الاعلان اپنا حق قرار دیا تھا۔

بعض تجزیہ کار پی پی پی کی حالیہ ناکامی کو 2007کے انتخابات میں اس کی شکست سے تشبیہہ دیتے ہوئے امکان ظاہر کررہے ہیں کہ پہلے کی طرح پی پی پی دوبارہ اتنخابی میدان مارسکتی ہے۔ یہ امکان پیش کرتے ہوئے چند حقائق کو فراموش کردیا جاتا ہے۔ پی پی پی بے نظیر کی زیرک قیادت سے محروم ہوچکی ہے، پہلی بار مدت پوری کرنے والی اس جماعت کی حکومت نے ناقص کارکردگی اور بدعنوانیوں کا ریکارڈ قائم کیا اور عوام کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا ہے، ن لیگ حکومت کی ناکامی کی صورت میں تحریک انصاف ملک میں تیسری اور پنجاب کی حد تک دوسری قوت کے طور پر سامنے آچکی ہے، جس کے پاس خیبرپختونخوا میں حکومت بناکر کارکردگی دکھانے کا موقع موجود ہے۔ ایسے میں کیا آئندہ انتخابات میں پیپلزپارٹی اپنی پوزیشن بحال کرپائے گی؟ بہ ظاہر اس سوال کا جواب نفی میں نظر آتا ہے۔

بے نظیر بھٹو نے ایک نجی تقریب میں اپنے مخالفین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا ”یہ بھٹوز کو ختم کرنا چاہتے ہیں“ بی بی! مخالفین تو ایسا نہ کرسکے مگر بھٹوز کو آپ کی اپنی پارٹی نے ختم کرڈالا۔

Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 282708 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.