الیکشن 2013 قوم نے کیا کھویا کیا پایا۔۔۔۔؟

الیکشن 2013 ، اپنے انجام کو پہنچے مسلم لیگ ن فتح یاب ہوئی ۔ عمران خان کی سونامی آئی تو ضرورلیکن امیدوں کے مطابق وہ کارہائے سرانجام دینے میں ناکام رہی جس کے بلندو بانگ دعوے کئے جارہے تھے ۔ لیکن پھر بھی عمران خان نے ایک کوشش کے ذریعے لوگوں کے سینوں میں تبدیلی کی لہر ضرور دوڑادی اور ساتھ یہ باور بھی کرا دیاکہ خطہءروئے ز مین پر تبدیلی وہ قومیں لایا کرتی ہیں جو ہر طرح کے منفی نظریات سے پاک ہوں جو اپنے چہروں پر تعصبیت کی عنیک کو کبھی نہ سجنے دیں جن کے اندر زندگی کے آثار واضح اور نمایا نظر آتے ہوں جو دنیا میں زندہ دلی کی پہچان بن کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر رہتی ہیںجن میں اپنے وجود کے ساتھ دیگر وجود کو تسلیم کرنے کا حوصلہ ہو تا ہے جو تعلیم و شعورکی قدرومنزلت کو جانتے ہوئے غورو فکر کے ذریعے اپنے لیے نئے راستے تلاش کرتے ہیں روشنی کی کِرنیں بن کر اپنے وجود کے ساتھ ساتھ سارے جہاں کو اپنی روشن کِرنوں سے منور کردیتے ہیں۔ایسی قومیں کبھی نہیں مرتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں کبھی شکست نہیں کھاتیں وہ کبھی زوال پذیر نہیں ہوتیں ایسی قومیں قیامت تک ایک زندہ مثال بن کر زندہ رہتی ہیں ۔ جب تک دینا کی کوئی بھی قوم اِن اصولوں کو نہیں اپنائے گی انقلاب ،تبدیلی جیسی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوتی رہیں گی اورملک کا دو فیصد اشرفیا جاہلوں کاہلوں اور نپوتوں کو حقِ جمہوریت دیتا رہےگا ۔ اور کسی بھی ملک کی باشعور عوام اِن بے نام بادشاہوں کی تحویل میں اپنی زندگی کو بسر کرتے رہیں گے جو صرف اس دھرتی پر ایک بوجھ کی طرح بے مقصد ،بے رنگ وبو اپنی زندگی گزارتے ہوئے مٹتے رہیں گے ۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں انقلاب یا انقلابی تبدیلی کی باتیںاب خواب ہی لگتی ہیں۔ہمارے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے ملک میں شرح خواندگی کا نہ ہونا ہے جس کی وجہ سے ملک ابتری کی جانب چلا جارہا ہے یہی وہ واحد وجہ ہے جو کسی بھی قوم کے زوال کا ذریعہ اور تباہی کا پیش خیمہ ہواکرتی ہے ۔ پڑھی لکھی عوام پڑا لکھا معاشرہ ہی پڑھا لکھا پاکستان ایک نیا پاکستان وجود میں لاسکتا ہے۔کسی ایسے نظام کو جمہوریت کا نام کس طرح دیا جاسکتا ہے جس میں اہلیت و قابلیت کا کوئی معیار نہ ہو ۔ایک ایسا نظام جس میں تعلیی شُعار کی تذلیل کی جاتی ہو۔ قارئین آپ خود فیصلہ کریںکیا پاکستان میں الیکڑول سسٹم کی بنیاد اکثریت کے نام پر اس طبقے کی اجارہ داری کا نام نہیں ہے جس میں اہلیت و قابلیت کا جنازہ نکال دیا جاتا ہے۔قارئین اگر آپ کے گھر میں 10 فیملی ممبران ہیں جن میں تین اہلیت و قابلیت پر پورا اترتے ہیں کسی بھی معاملے کو اپنی فہم و فراست کے ترازو میں طول مول کر کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں اور اس کے برعکس باقی سات ممبران ہر قسم کے شعور سے عاری اور کسی بھی طرح کی سمجھ بوجھ سے قاصر ہوں ایسے میں گھر کے کسی اہم امور پر اکثریت کی بنیادکو فوقیت دیتے ہوئے ان سات لوگوں کی رائے کو ترجیح دینا اور تین کو نظر انداز کرنا اس گھر کے لیے سہی ہوگا ۔۔۔؟ کیاآپ اپنے ان سات فیملی ممبران کے فیصلے پر عمل کریں گے یا ان تین کی رائے کو اہمیت دینگے جو اہلِ دانش ہیں جو کسی بھی طرح کا سہی فیصلہ کرنے کی ذہانت رکھتے ہیں۔ قارئین مجھے امید ہے جوبات میں نے سمجھانے کی کوشش کی ہے وہ یقیناآپ کی سمجھ میں آگئی ہوگی ۔ہماری اسٹیبلیشمنٹ اور وہ مافیا جو اقتدار کے ذریعے سامراجی قوتوں کی خواہشات کی تکمیل کرتی آئی ہیںانھیں ہمارا موجودہ الیکٹرول نظام اس قدر سوٹ کرتا ہے کہ وہ کسی بھی طور اس میں ترمیم نہیں چاہتے اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ تیس پنتس سال سے ہمارے ملک میں دوجماعتی نظام چل رہا ہے اور انکا انتخاب اُس طبقے کی اکثریت سے کروایا جاتا ہے جو عقل وفہیم سے بالکل عاری ہوکر صرف اپنے آقاﺅں کے اشاروں پر ناچنا جانتے ہیں انھیں نہ ملک کی تعمیر سے کچھ لینا نہ بحیثیت قوم بن کر کچھ کرنا ہے بس یہ لوگ اپنے آقا ﺅں کے غلام بن کر رہنا پسند کر تے ہیں اور اپنی نااہلی کا بدلہ اس طبقے سے لیتے ہیں جومعاشرے میں باشعور اور اہل جانے جاتے ہیں۔ہمارا الیکشن کمیشن اُن تما م لوگوں کو تو ووٹ کا حق دیتا ہے جو کسی بھی طرح ووٹ ڈالنے کے اہل نہیں اکثریت دکھانے کے لیے نئے پرانے تمام شناختی کارڈ ہولڈر کو ووٹ کا حق دیدیا جاتا ہے لیکن پاکستان کے ایک با شعور طبقے سے کس مہارت کے ساتھ ووٹ کا حق چھین لیا جاتا ہے جو کسی بھی معاشرے کی تہذیب تمدن کاذیعہ بنتے ہیں جی ہاں وہ اساتذہ کرام جو الیکشن کے دن مختلف جگہوں پر ڈیوٹیوں پر مامور کردیئے جاتے ہیں جن کی تعداد تقریباً لاکھوں میں بنتی ہے اس کے علاوہ وہ گورنمنٹ ملازمین جو کسی نہ کسی شکل میں الیکشن کے دن ڈیوٹیوں پر مامور ہوتے ہیں ان کو ووٹ کے حق سے محروم کردیا جاتا ہے ۔تاکہ اکثریت کی رائے کو اہمیت دیتے ہوئے اس طبقے کے انتخاب کو آگے لایا جاسکے جسے ووٹ کی اہمیت و افادیت کا کچھ علم ہی نہیں ۔قارئین گیارہ مئی کے انتخابات کے بعد کا ماحول دیکھیں توسب نے وہی پرانا طرزِ عمل اپنایا ہوا ہے وہی دھاندلی کے انبار وہی قومیت کی بوچھاڑ وہی لیڈران کی للکار اور وہی الیکشن کمیشن کا کردار کچھ بھی تو نہیں بدلہ سب کچھ وہی ہے جیتنے والی جماعتیں خوشی کے شادیانے بجا رہی ہیں تو ہارنے والے رنج و غم میں نڈھال اپنی شکست کا ماتم کررہے ہیںاور ان سب کے بیچ وہ عوام اپنی سُدھ بُدھ کھوئے ابھی تک سکتے میں ہیں جنھیں گیا رہ مئی کو نئے پاکستان کی ٹرین پکڑنی تھی۔۔!

علی راج
About the Author: علی راج Read More Articles by علی راج: 128 Articles with 115889 views کالم نگار/بلاگر.. View More