بسم اللہ الرحمن الرحیم
مروجہ انتخابی سیاست اور جمہوریت کے بارے میں عوام الناس میں بالعموم اور
مذہبی حلقوں میں بالخصوص دو طرح کی آراءسامنے آتی ہیں۔ایک رائے یہ ہے کہ
جمہوریت کفر ہے ،موجودہ سسٹم کلی طور پر غیر شرعی ہے ،موجودہ نظام سے کسی
خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی ،مروجہ انتخابی سیاست میں الجھ کر اپنادامن
آلودہ نہیں کرنا چاہیے ،ہمارے ہاں انتخابات میں دھاند لی ہوتی ہے ،نتائج
چرالیے جاتے ہیں،مینڈیٹ چھین لیے جاتے ہیں ،اس لیے اس نظام سے یا تو بالکل
کنارہ کش رہنا چاہیے اور کسی اچھے وقت کا انتظار کرنا چاہیے یا پھر اس نظام
اور انتخابات کے ڈھونگ کو سبو تاژ کردینا چاہیے ۔ چنانچہ تحریک طالبان
پاکستان کی طرف سے جو دھمکیاں دی گئیں ان میں بنیادی طور پر تو یہی تصور
کار فرما تھا لیکن پھر طالبان نے بطور خاص ان جماعتوں کو نشانہ بنایا جو ان
کے خلاف برسر پیکار اور حالت جنگ میں رہی تھیں۔
جبکہ دوسرا تصور یہ ہوتا ہے کہ موجودہ جمہوری سسٹم کے ذریعے بہتری لانے کی
کوشش کرنی چاہیے ،پر امن سیاسی جدوجہد کے ذریعے ملکی حالت کو سنبھا لا دینا
چاہیے، سیاست کوعبادت سمجھتے ہوئے انتخابی سیاست کے اکھاڑے میں ”جہادی“
جذبے اور جوش وخروش کے ساتھ اترنا چاہیے اور اسے حق وباطل کا معرکہ سمجھ کر
لڑنا چاہیے ۔ یہی وہ تصور تھا جس کی بنیاد پرملک کے مختلف حصوں میں
علماءکرام ،مفتیان عظام ، مذہبی کارکنوں ، طلباءاور مذہب پسندوں نے
انتخابات میں حصہ لیااور انتخابی مہم میں دن رات ایک کر ڈالے،اپنے محدود
وسائل کو سیاست کی بھٹی میں جھونکا ،اپنی افرادی قوت کو صرف کیا ،محنت کی ،ایک
ایک دروازے پر دستک دی ،جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاﺅن جیسی وقیع
درسگاہ کی نظامت اور مسندِ تدریس سے مولانا امداد اللہ کو لا کر سیاست کے
اکھاڑے میں اتارا گیا ،دارالعلوم شیر گڑھ کے مہتمم مولانا محمد قاسم جیسی
بزرگ ہستی کو ٹکٹ دیا گیا ،صوابی کے مولانا حمد اللہ صاحب المعروف ڈاگئی
باباجی کے فرزند اشفاق اللہ جیسے تعلیم یافتہ اور صاحب کردار انسان کا
انتخاب کیا گیا ، دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے علمی خانوادے کے چشم وچراغ
مولانا حامد الحق کے مقابلے میں خادم قرآن وسنت مولانا قاری عمر علی کو
دستبر دار کروایا گیا ،اُدھر جھنگ میں ان لوگوں کو جن کے بارے میں کالعدم
ہونے کا ڈھنڈورہ پیٹا جاتا ہے،جنہیں دہشت گردی سے نتھی کرنے کی کوشش کی
جاتی ہے اگرچہ زمینی حقائق اس کی نفی کرتے ہیں انہوں نے متحدہ دینی محاذ کے
پلیٹ فارم سے موجودہ سیاسی عمل کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا ۔مولانا محمد احمد
لدھیا نوی کو جب سے اہلسنت والجماعت ( کالعدم سپاہ صحابہ) کی صدارت سونپی
گئی ان کی امن پسندی، دانشمندی اور حکمت سے بھر پور پالیسی کو ان کے
مخالفین بھی داد دینے پر مجبور ہوئے ۔انہوں نے قتل وغارتگری کی مذمت کی ،دفاعِ
پاکستان کونسل کے محاذ سے پاکستان کے دفاع کی جنگ کے سرخیل ثابت ہوئے ،خود
کو قومی دھارے میں لانے کی فکر کی،میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے اپنے امن
پسندی کے موقف کا اظہار کیا اور اب جھنگ کے عوام کی خواہش پر قومی اور
صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا ۔صوبہ سندھ میں جمعیت علماءاسلام دس
جماعتی اتحاد کا حصہ تھی اور بہت سی سیٹوں پر بہت مستحکم پوزیشن کی حامل ،
کراچی ہی میں جواں سال اورنگزیب فاروقی آگ و خون کی ہولی میں سینہ تانے
کھڑے ہےں اور نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن ہےں وہ بھی انتخابی سیاست میں شامل
ہوئے ۔مری میں جواں سال اشتیاق عباسی کی شکل میں امید کا ایک تاراجگمگایا ۔ایبٹ
آباد میں ہر دلعزیز طالبعلم رہنما اقرار عباسی کے رفقاءنے انتھک محنت کی ۔ان
تمام حلقوں کے زمینی حقائق ،لوگوں کے رجحانات ،ان شخصیات کے ساتھ عوامی
وابستگی بلکہ وارفتگی دیدنی تھی ،الیکشن سے پہلے آنکھیں بند کرکے کہا
جاسکتاتھا کہ یہ لو گ اپنے اپنے حلقوں سے جیت جائیں گے ، الیکشن کے دوران
بھی ان کی جیت کے آثار نمایاں تھے، نتائج کی آمد کا سلسلہ جب شروع ہوا تو
بھی صورتحال یہی تھی لیکن پھر رفتہ رفتہ منظر نامہ بدلتا گیا ....کیا ہو
ا؟....کیسے ہوا؟....اور کیوںہوا ؟.... یہ ایسے سوالات ہےں جن کے جوابات سے
آج میڈیا اور شعور وآگہی کے دور میں بچہ بچہ واقف ہے ۔صوبہ خیبر پختونخواہ
میںجس جماعت کو جعلی مینڈیٹ دیا گیا اس نے تو شروع سے ہی دھاندلی کا واویلا
شروع کر دیا کیونکہ ان کے نتائج سوشل میڈیا اور الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا نے
ان کے لیے توقعات اور امیدوں کا جو جہاں آباد کیا تھا اس کے مقابلے میں کم
تھے اگرچہ ان کے حجم اور حیثیت سے زیادہ تھے لیکن زمینی حقائق کے اعتبار سے
جن مذہب پسندوں کا مینڈیٹ چرایا گیا ان کی طرف سے ابتدا ءمیں سکوت
رہا،مولانا فضل الرحمن کی یوں تو ”ٹائمنگ “کما ل ہوتی ہے لیکن اب کی بار ان
سے ”ٹائمنگ “کے معاملے میں چوک ہو گئی ۔مولانا فضل الرحمن اگر چہ اپنی تین
نشستیں جیت گئے لیکن اس کی آڑ میں ان کی پانچ سات قومی اور دس بارہ صوبائی
سیٹوں پر ڈاکا ڈالا گیا ۔جھنگ ،کراچی ،مری اور دیگر بہت سی جگہوں پر جو ہوا
وہ ایک الگ کہانی ہے ۔اس لیے آج بچہ بچہ یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ الیکشن کے
نتائج راتوں رات کیسے بدلتے ہیں ؟دس ہزار کی لیڈ سے جیتنے والے مولانا
اورنگزیب کیسے یکایک ہا ر جاتے ہیں؟جبکہ میڈیا ان کی جیت کی خبریں نشر کر
رہا ہوتا ہے ،موبائل کے ذریعے نتائج معلوم کریں تو مولانا اورنگزیب فاتح
قرار پاتے ہیں لیکن الیکشن کمیشن کی پٹاری جب کھلتی ہے تو وہ بازی ہار چکے
ہوتے ہیں ،مولانا امدادا للہ اور مولانا قاسم کے لیے پورا شہر بچھا جاتاہے
لیکن جیت کی مالا کسی اور کے گلے میں کیونکر ڈالی جاتی ہے؟ملکہ کو ہسار مری
میں کسی بھی مرکزی قائد کی آمد کے بغیر جمعیت علماءاسلام اور متحدہ دینی
محاذ کے وابستگان میاں نواز شریف سے بھی بڑا انتخابی جلسہ کرتے ہیں لیکن
پھر بازی کیونکر الٹ دی جاتی ہے اور وہ راجہ اشفاق سرور جن کو کوئی تین یا
تیرہ میں الیکشن سے قبل شمار کرنے کے لیے تیار نہیں تھا ،جو مری کی سیاست
میں” ڈسکس“ ہی نہیں ہو رہے تھے وہ اکیاون ہزار ووٹ لینے میں کیسے کامیاب ہو
جاتے ہیں ؟میاں نواز شریف کو ہرانے اور راہ راست پر لانے کے جملہ انتظامات
کرتے کرتے ،انہیں سبق سکھانے کے لیے ان کی پنجاب والی پیالی میں سونامی کا
طوفان اٹھانے کے بعد ان پر قسمت کی دیوی کیوں اور کیسے مہربا ن ہو جاتی ہے
؟الیکشن سے قبل میاں نواز شریف کو جماعت اسلا می اور جمعیت علماءاسلام سے
یکے بعد دیگر ے اتحادیاسیٹ ایڈجسٹمنٹ سے کون اور کیوں روکتاہے ؟الیکشن کے
بعد وہ صوبہ خبیر پختونخواہ میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہونے کے باوجود
کیوں ”سرنڈر“ ہوجاتے ہیں ؟عین اس وقت جب جیت کا جشن ،جوڑ توڑ ،آزاد
امیدوارو ں کی آمدورفت اور حکومتوں کی تشکیل کا مرحلہ ہے میاں نواز شریف کس
کے حکم پر ہسپتال جاتے اور ”دوستانہ میچ “ کا اعلان فرماتے ہیں؟جیت اور ہار
تو انتخابات کے کھیل کا حصہ ہے ،موجودہ سسٹم سے کسی بڑی خیر کی توقع تو اگر
چہ نہیں کی جاسکتی ،اب شاید دوبارہ انتخابات ،دوبارہ گنتی ،فوج کی نگرانی
جیسے تمام مطالبات وقت کے ساتھ دم توڑ جائیں گے لیکن وقت کے اس نازک موڑ پر
ان لاکھوں نوجوانوں کو کوئی جواب دینے والاہے جو دوراہے پر کھڑے سوچ رہے
ہیں کہ پی ٹی آئی کے انقلابیوں کو تو ایک صوبے میں ”تبدیلی “کا راستہ دے
دیا گیا لیکن ان کے لیے تبدیلی،بہتری اور امید کے تمام راستے کیوں مسدود کر
دئیے گئے؟ ....ا ن دنوں الیکشن کی کوریج کے لیے غیر ملکی صحافیوں کی بھرما
ر ہے اور سب کا ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ انتہاپسندی،دہشت گردی اور فرقہ
واریت کیسے جنم لیتی اور کیونکر پروان چڑھتی ہیں ....انہیں کیسے بتا یا
جائے کہ انتہا پسندی دھاندلی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے ،فرقہ واریت دوہرے
معیار کے کھیتوں میں پروان چڑھتی ہے اور دہشت گردی محرومیوں کے بطن سے
پھوٹتی ہے .... اس وقت اس ملک کے لاکھوں بلکہ کروڑوں نوجوان ششدر ہیں کہ اب
وہ کہاں جائیں ؟.... ان کے ایک طرف وزیر ستان ہے اور دوسری طرف قومی دھارا
....ان کے سامنے پر امن ،آئینی اور جمہوری راستے سے اپنا حق لینے کی ترغیب
ہے اور دوسری طرف اسلحے کے زور پر اپنے مطالبات منوانے کا آپشن ........نوجوان
کیا کریں ؟....کدھر جائیں ؟ |