میاں نواز شریف جون2013ءکے پہلے ہفتے اس ملک کے وزیراعظم
کی حیثیت سے حکومت سازی کریں گے ۔انہیں جن حالات میں حکومت کا بوجھ اپنے
کندوں پر اٹھانا ہے اس سے ”مخلوق “کافی توقعات وابستہ کئے ہوئی ہے ۔انتخابات
میں کئے جانے والے ایک ایک وعدے کو پورا کرنا پڑے گا ۔عوام کو جو خوش آئند
مستقبل کی نوید سنائی جا چکی ہے اس کا زمینی و عملی مظاہرہ کرنا پڑے
گا۔ماضی سے ورثہ میں ملنے والے مسائل کا رونا عوام کا نصیب ،مگر اب” صاحب
اقتدار “کے حیلے بہانے کی تراش خراش سے عوام مطمئن نہیں ہونگے ۔اقتدار کے
پہلے دن سے عوام بہت سی توقعات لئے خاموش طبع کے ساتھ منتظر ہیں کہ انہیں
اب نجات دہندہ غبار راہ سے نکالے گا۔عوام کے ٹھنڈے چولہے ایک بار پھر تپش
آگ سے اپنا پیٹ بھرنے کے قابل ہوں گے !مہنگائی، بے روزگاری ،دہشتگردی کا نہ
رکنے اور نہ روکنے والوں کو اپنا انجام مل گیا،مخلوق خدا سے مذاق کرنے والے
اب ملک سدھانے کی کوشش میں ہیں یعنی ”محفوظ راستہ“ کے متمنی،کیا عوام امن و
خوشحالی کا دور دیکھ سکے گی۔۔؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب چند ماہ میں نظر
آ جائے گا۔اگر آنے والوں نے نان ایشوز کے بجائے پبلک ایشوز کو مدنظر رکھا
تو ”تبدیلی “ آ جائے گی ۔آنے والے یاد رکھیں !عوام کو ماضی کے رونے د ھونے
سے کوئی غرض نہیں ،کہتے ہیں کہ پہلی اینٹ لگاتے ہی عمارت کے رنگ و روپ کا
تعین ہو جاتا ہے ۔اگر چہ میاں نواز شریف پہلے سو دن کا ٹارگیڈڈ پلان رکھتے
ہیں ،مگر عوام انہیں پہلے چھ ماہ تک دیکھے گی کہ وہ کیسے سنگلاخ چٹان کو
ہموار کر سکتے ہیں ۔
عوام بخوبی جانتی ہے کہ پی پی نے 5برس میں انہیں کیا دیا۔دعوے تو یقینا بہت
کئے گے کہ” انہوں“ نے صدارتی اختیار پارلیمان کو سونپئے،عدلیہ کی آذادی کو
یقینی بنایا گیا الغرض ایسے بے شمار اقدامات کا ذکر پی پی والے کرتے تھکتے
نہیں ،مگر عوام یہ سوچنے میں ذرا پھر توقف نہیںکرئے گی جس کا براہ راست
عوام کو فائدہ نہیں ہوتا۔لوگ تو آٹا دال کے چکر میں ہیں انہیں ہر گز یہ فکر
نہیں کہ حکومت کتنے فلائی اورز بنانے،بلٹ پروف ٹرین چلانے اور مشرف کو
پھنسانے سے کوئی غرض و دلچسپی رکھتے ہیں ،ان بے بس و بے زبانوں نے اس لئے
نہیں جتوایا کہ انہیں سبز باغ دکھا کر ”بیوقوف “ بنایا جائے گا۔عوام مثبت
تبدیلی کے خواہاں ہیں ۔
اس وقت ملک کے منافع بخش اداروں کی اصلاح ،تطہیر اور سبک رفتاری کی ضرورت
ہے ۔پی آ ئی اے ،ریلوے ،سٹیل ملز ،واپڈا سمیت تمام اداروں کی ری کنڈیشنز
کرنا پڑے گی ۔کام چور ،کرپٹ اور سٹیٹس کو کے عادی مجرموں کو کیفر کردار
کرنا پڑے گا،بے روزگاری کا خاتمہ نہ سہی کنٹرول کرنے کی تدبیر لازم
ہوگی،جہالت کے بڑھتے ہوئے گراف کو کم کرنا پڑے گا ،نصاب تعلیم یکساں اور
ارزاں کرنا پہلی ترجیج رکھنا پڑے گی۔پولیس کا نظام انتہائی مجرمانہ ہے
،روپے پیسے کے بغیر انصاف کی دہلیز عبور کرنا شہریوں کے لئے محال ہے ،کرپشن
ہمارے رگ و ریشہ کا حصہ بن چکی ہے ۔ماضی کے روشن پاکستان والے اب فارم ہاﺅس
میں ہیں جن کے بارے کچھ کہنا ابھی ٹھیک نہیںمگر انہوں نے جس آذاد معاشرے کو
پروان چڑھایا اور اس کی تقلید رخصت ہونے والوں نے کی جس کے نتیجہ میں آج
حوا کی بیٹیوں کی عزت اچھالنا قانون شکنی نہیں رہی ،دہشتگردی نے انسانیت کو
تباہ کرنے کی ٹھان رکھی ہے ،جرائم کا گراف بڑھتا جارہا ہے،سماجی ناہمواری
نے پورے معاشرے کو تہ و بالا کر رکھا ہے ۔ایسے حالات میں ایوانوں میں لرزا
تاری ہونے کے خطرات دکھائی دے رہے ہیں ۔عوام نے ان مخدوش حالات میںتبدیلی
کا فیصلہ دے دیا ہے ۔بیلٹ کے اس فیصلے کی طاقت سے میاں نواز شریف تیسری بار
وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالنے جا رہے ہیں ۔اب کی بار لوگ پانچ سال تک
انتظار شاہد نہ کریں لہذا عوام کے دل و دماغ میں جو خدشات موجود ہیں انہیں
دور کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ۔خدا نخواستہ عوام کی
آواز کو نہ سنا گیا اور حسب روایت اقتدار کے نشے میں عوامی رجحانات و بڑھتے
ہوئے خدشات کو طاقت کے بل بوتے پر روکا گیا تو پھر کیا ہوگا ۔۔۔؟؟؟ وہ
خطرناک منظر شاعر کی زبانی ملاحظہ ہو۔۔!!!
اس دیس کے ہر اک لیڈر کو ۔ ۔ ۔۔۔ سولی پہ چڑھانا واجب ہے
جس دیس سے ماﺅں بہنوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ اغیار اٹھاکر لے جائیں
جس دیس سے قاتل غنڈوں کو ۔ ۔ ۔۔ ۔ اشرار چھڑاکر لے جائیں
جس دیس کی کورٹ کچہری میں ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ انصاف ٹکوں پر بکتا ہو
جس دیس کا منشی قاضی بھی ۔ ۔۔۔ ۔۔ ۔ مجرم سے پوچھ کے لکھتا ہو
جس دیس کے چپے چپے پر ۔ ۔ ۔؛۔ ۔ ۔ پولس کے ناکے ہوتے ہوں
جس دیس کے مندر مسجد میں ۔ ۔ ۔۔۔۔ ہر روز دھماکے ہوتے ہوں
جس دیس میں جاں کے رکھوالے ۔۔۔ خود جانیں لیں معصوموں کی
جس دیس حاکم ظالم ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ سسکیاں نہ سنیں مجبوروں کی
جس دیس کے عادل بہرے ہوں ۔ ۔۔ ۔ آہیں نہ سنیں معصوموں کی
جس دیس کی گلیوں کوچوں میں ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔ ہر سمت فحاشی پھیلی ہو
جس دیس میں بنت حوا کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔ چادر داغ سے میلی ہو
جس دیس میں آٹے چینی کا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بحران فلک تک جا پہنچے
جس دیس میں بجلی پانی کا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فقدان حلق تک جا پہنچے
جس دیس کے ہر چوراہے پر ۔ ۔ ۔ ۔ دو چار بھکاری پھرتے ہوں
جس دیس میں روز جہازوں سے ۔ ۔ ۔ ۔ امدادی تھیلے گرتے ہوں
جس دیس میں غربت ماﺅں سے ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ اپنے بچے نیلام کراتی ہو
جس دیس میں دولت شرفا سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ناجائز کام کراتی ہو
جس دیس کے عہدیداروں سے ۔ ۔ عہدے نہ سنبھالے جاتے ہوں
جس دیس کے سادہ لوح انساں ۔ ۔ وعدوں پہ ہی ٹالے جاتے ہوں
اس دیس کے رہنے والوں پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہتھیار اٹھانے واجب ہیں
اس دیس کے ہر اک لیڈر کو ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ سولی پہ چڑھانا واجب ہے
یہ ایسا خوف ناک منظر ہے جس کی فکر کی جائے کہ ایسا نہ ہو،یہ اسی صورت میں
ممکن ہے کہ جب حکمران ذمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ،اپنے اقتدار کے
پہلے دن سے ایسی شروعات کریں کہ شاعر کا ہر لفظ غلط ثابت ہو سکے ۔ |