اُمید ہے کہ نوازشریف اپنے وعدوں
اور دعوؤں کے مطابق مُلک میں اگلامون سون موسمِ برسات اور سیلابوں کے کسی
نئے سلسلے کو آنے سے قبل ہی قوم کو توانائی کے بحران اور لوڈشیڈنگ جیسے
مسائل سے نکالنے اور اِن سے حقیقی معنوں میں نجات دلانے سے مایوس نہیں کریں
گے...اور وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی اپنے وعدوں اور قول کے مطابق
بالارنگ و نسل ، زبان ومذہب اورسرحد کے قوم کی خدمت کو اپنا شعائر بنائیں
گے،اور اِس کے ساتھ ساتھ ایشیاکے بارھویں اور مُلک کے سب سے بڑے معاشی حب
کا درجہ رکھنے والے شہر کراچی کو اپنے پچھلے دواقتداروں کی طرح دیدہ و
دانستہ نذر اندازکئے بغیر کم ازکم اِس مرتبہ تو اِس کی ترقی وخوشحال اور
اِسے بجلی جیسے مسائل کی حل کی جانب بھی خصوصی توجہ دیں گے۔
جبکہ یہاں یقینایہ امر حوصلہ افزاءضرور ہے کہ گزشتہ دنوں گیا رہ مئی کومُلک
میں ہونے والے اپنی نوعیت کے انتہائی صاف وشفاف انتخابات کے نتیجے میں
حکومت بنانے کے لئے واضح اکثریت حاصل کرلینے والی جماعت پاکستان مسلم لیگ
(ن) کے سربراہ اورمُلک کے متوقع تیسرے وزیراعظم نوازشریف سے چیف آف آرمی
اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ماڈل ٹاؤن لاہور میںشہبازشریف کی رہائش
گاہ پر ملاقات کی ہے اِس سے متعلق جہاں یہ اطلاعات ہیں کہ آرمی چیف سرکاری
پروٹوکول کے بغیراور نجی گاڑی میں آتے تھے ،اُنہوں نے اِس دوران مُلک میں
امن و امان کی مجموعی اور انتخابات کے بعد کی صُورت حال، دہشت گردی کے خلاف
جنگ، طالبان سے مذاکرات ، خطے کی صورت حال ، چینی وزیراعظم کے دورہ پاکستان
، سیکورٹی کے معاملات اور دیگر اہم اُمورپر بات چیت کی تو وہیںآرمی چیف اور
نوازمیں مسائل کے حل کے لئے مل کر چلنے پر بھی اتفاق کیا گیاجو اِس بات کی
جانب واضح اشارہ ہیں کہ آنے والے وقتوں میں مُلک کے سیاسی حالات چاہئے جیسے
بھی ہوں، مگر حکومت کو اِنہیں خود حل کرنے ہوں گے،ماضی کی طرح اِس بابت
آئندہ بھی فوج کی کوئی مداخلت نہیں ہوگی ، اگرواقعی اِس بار بھی پاک فوج کا
یہی عمل رہاتو یقینا یہ مُلک میںجمہوریت کو پنپنے کے لئے کارآمد ہوگا۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ گیارہ مئی کے انتخابات میں لوڈشیڈنگ ، مہنگائی ،
بھوک و افلاس اور دہشت گردی کی دلدل میں دھنسی پاکستانی قوم نے اپنا حق
رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے ، بڑی آس اور اُمیدوں کے ساتھ نواز شریف کو
تیسری باراقتدار کی مسند پر بیٹھانے کا بندوبست کردیاہے، اِس پر میراخیال
یہ ہے کہ یقینا عوام کے اِس عمل سے گزشتہ پانچ سالوں کے دوران بات بے بات
پر مفاہمتی عمل اور مفاداتی پالیسیوں کے باعث قوم کی آنکھوں میں دھول اور
مرچیں جھونکنے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کابیڑاغرق
ہوگیاہے،اور آج عوام کی نظریں نواز شریف کی جانب ہیں ، اور موجودہ حالات
میں ساری قوم نواز شریف کو اپنا مسیحا مجھ رہی ہے ، اور اِن سے قوی اُمید
وابستہ کئے ہوئے ہے کہ یہ توانائی کے بحران کو جون میں ہی حل کرنے کے لئے
ایسے دیرپااقدامات کرلیں گے، اِن کی توجہ بعد میں مُلک کو درپیش دیگر مسائل
کی حل کی جانب مرکوز ہوجائیں ،کیوں کہ قوم کا ایک خام خیال یہ ہے کہ پچھلے
کئی سالوں سے جب بھی ہمارے یہاں مون سون بارشیوں کا موسم آتاہے کہ مُلک کے
کسی نہ کسی صوبے میں سیلاب کی صُورتِ حال پیداہوجاتی ہے، جس سے حکومتوں کی
توجہ مُلک کے درینہ مسائل کے حل سے ہٹ جاتی ہے اور وفاق سمیت صوبائی
حکومتیں سیلا ب جیسی ناگہانی آفت سے نمٹنے میں لگ جاتی ہیں،اور پھر یہ
مسئلہ سال بھر بھی حل نہیں ہوپاتاہے کہ اگلامون سون پھر منہ اٹھاکر
چلاآتاہے اور سیلاب کا سلسلہ سالوں جاری رہتاہے ، اِس کی زندہ مثال آج بھی
دیکھی جاسکتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ سابق حکومت نے اپنے دورِ اقتدار میں مُلک اور قوم کو درپیش
مسائل کی حل کی جانب توجہ دینے کے بجائے ،اپنی ضرورتوں کو مقدم جانا اور
اِن سے ہی متعلق اقدامات کو ہی اپنی بقاءاور اپنی آئندہ کی کامیابی کا ضامن
جانا ، اور آج یہی وجہ ہے کہ قوم نے گیارہ مئی کے عام انتخابات میںاِسے
وفاق اور تین صوبوں سے سمیٹ کر ایک صوبے تک محدودکردیاہے، جو اِس بات کی
جانب واضح اشارہ ہے کہ عوام باشعور اور اپنے اچھے بُرے کی تمیزکرنے کے قابل
ہوگئے ہیں، اور اَب ماضی کی طرح اِسے لولی پاپ دے کر نہیں
بہلایاجاسکتاہے،گیارہ مئی کے عام انتخابات میں شکست سے دوچار ہونے والی
مُلک کی سابقہ حکمران جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلیٰ سے ادناقیادت کو
اِس جانب ضرور توجہ دیتے ہوئے اپنا احتساب کرناچاہئے کہ اِن سے ضرور
کوتاہیاں سرزدہوئیں ہیں تب ہی ووٹر نے اِن کا یہ حشرکردیاہے کہ اِن کی
توقعات سے بھی کم نشتیںاِنہیں ملی ہیں اور یہ وفاق اور تین صوبوں سے سمٹ کر
صرف اپنے آبائی صوبے تک محدود ہوگئی ہے، ایساکیوں ہواہے..؟یقینااگرآج یہ
اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو اِنہیں اِس کا جواب خود یہ مل جائے گاکہ
اِنہوں نے اپنے اقتدار کے پانچ سالوں میں قوم کو سوائے جھوٹے دعوؤں اور
وعدوں کے کچھ نہیں دیاہے۔
آج انتخابات کو ہوئے کئی دن گزرچکے ہیں مگر میری قوم کے لئے کیا یہ جگ
ہنسائی کا باعث نہیں ہے کہ ہارنے والے تو ہارنے والے جو جیت گئے ہیں وہ بھی
فلگ شگاف انداز سے یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ گیارہ مئی کے انتخابات کو سرکاری
مشینری اور عالم قوتیں جنہیں صا ف و شفاف کہہ رہی ہیں وہ دراصل ایسے نہیں
ہیں جیسااِنہیں نظر آرہاہے بلکہ یہ دھاندلی سے ایسے ہی لبریز ہیں جیسے
جھلکتے جام کا پیالہ .... آج مُلک کی اِن سیاسی جماعتوں کے اِس رویئے پر
قوم جتنا افسوس کرے وہ بھی کم ہے، جبکہ اِن کی اِن حرکات و سکنات پر میں یہ
کہنا چاہوں گا کہ انتخابات کے بعد ہارنے اور جیتنے والے ہمارے ضدی سیاستدان
خودساختہ دھاندلی جیسے فضول کے چکرمیں پڑتے اور اِسے اپنی اپنی ناک اور
اناکا مسئلہ بناتے ہوناتویہ چاہئے تھاکہ یہ اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کے
باہم تعاون اور مشوروں سے وفاق اور صوبوں میں حکومت سازی کرنے سمیت مُلک
عوام کو بجلی کے بحران سے نجات دلانے میں بھی اپنا کرداراداکرتے اوریوں یہ
لوگ وقت ضائع کئے بغیرآپسمیں مل کر مُلک کو اگلامون سون آنے سے قبل( جو
اپنے ساتھ ہرسال سیلاب لاتاہے) بجلی کا بحران حل کرلیتے مگر افسوس ہے کہ
اِنہیں آج ایک دوسرے پر الزام لگانے اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے ہی سے
فرصت نہیں ہے۔ |