پاکستان کے بعد اب ہمسایہ اسلامی ملک ایران
میں صدارتی انتخابات کی آمد آمد ہے۔ اب تک مختلف لوگ صدارتی دوڑ میں شامل
ہوچکے ہیں۔ ایران میں سیاسی طور پر سب سے زیادہ مضبوط دائیں بازو کی وہ
جماعتیں ہیں جنہیں اصول پرست کہا جاتا ہے۔ اب تک انتخابات میں اصول پرستوں
کی طرف سے متعدد امیدوار سامنے آچکے ہیں ۔ اصول پرستوں کی طرف سے بہت سے
امیدواروں کا میدان میں آنا بھی اس بات کا غماز ہے کہ اصول پرست کافی مضبوط
پوزیشن میں ہیں۔ اصول پرست جماعتوں کے رہنما اپنی کامیابی کو یقینی بنانے
کے لیے صدارتی امیدواروں کے درمیان کسی ایک نام پر متحد ہونے کے لیے کوشاں
ہیں اور امید کی جارہی ہے کہ جلد ہی یہ جماعتیں کسی ایک نام پر متفق
ہوجائیں گی اور ایسی صورت میں مستقبل کے ایرانی صدر کے بارے میں رائے دینا
کوئی زیادہ مشکل کام نہیں رہے گا۔
اصول پرستوں کے مقابلے میں سابق ایرانی صدر اور ایکسپیڈنسی کونسل کے سربراہ
علی اکبر ہاشمی رفسنجانی بھی میدان میں آگئے ہیں جن کے بارے میں معروف ہے
کہ گذشتہ انتخابات کے بعد ہونے والے ہنگاموں کو ان کی آشیرباد شامل رہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ان کی جانب سے صدارتی امیدواروں کی لائن میں شامل ہونے کے
اعلان کے ساتھ ہی وہ قوتیں جو ایران میں اسلامی انقلاب کی مخالف سمجھی جاتی
ہیں اور ان کے امریکہ ، اسرائیل اور مغربی ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔
انہوں نے بھی علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ لیکن
اگر ایران کی سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ علی
اکبر ہاشمی رفسنجانی کا صدارتی انتخابات جیتنا بہت ہی مشکل ہے کیونکہ اس سے
قبل ہونے والے انتخابات میں بھی وہ شرکت کرکے زور آزمائی کرچکے ہیں لیکن
انہیں عوام کی طرف سے کوئی خاص پذیرائی حاصل نہیں ہوئی۔
علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کی الیکشن میں آمد کومغربی حلقوں کی طرف سے بہت
امید کی نظر سے دیکھا جارہا ہے کیونکہ انہیں امید ہوچلی ہے کہ اگر علی اکبر
ہاشمی رفسنجانی صدر منتخب ہوجاتے ہیں تو بہت سی باتوں کو منوایا جاسکتا ہے
خاص طور پر ایران کے ایٹمی مسئلے کو مغربی ترجیحات کی بنیاد پر حل کیا
جاسکتا ہے لیکن اگر وہ کامیاب نہیں ہو پاتے تو اس صورت میں ۲۰۰۹ میں ہونے
والے انتخابات کی طرح انتخابی نتائج کو مشکوک بناکر ملک بھر میں فسادات
کروائے جاسکے ہیں۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس کے بارے میں ابھی سے سوشل میڈیا اور
مختلف ذرائع ابلاغ میں وسیع پیمانے پر مہم چلادی گئی ہے۔
یہاں ایک تیسرے صدارتی امیدوار کا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا اور وہ
ہیں اسفندیار رحیم مشائی جنہیں موجودہ صدر ڈاکٹر محمود احمدی نژاد کی حمایت
حاصل ہے۔ اسفندیار رحیم مشائی کی انتخابی مہم یوں تو بہت بڑے پیمانےپر
چلائی جارہی ہے لیکن حقیقت میں وہ کوئی مضبوط صدارتی امیدوار نہیں ہیں بلکہ
ان کی حیثیت دوبڑوں میں ایک بچے کی سی ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ ڈاکٹر محمود
احمدی نژاد مقبولیت میں ہونے والی شدید کمی ہے۔ احمدی نژاد مختلف پالیسیوں
اور اپنے بعض اقدامات کی وجہ سے کافی حد تک اپنی مقبولیت سے ہاتھ دھوبیٹھے
ہیں اور ایسی صورت میں ان کے حمایت یافتہ امیدوار انتخابات کے دوران کوئی
خاص کردار ادا نہیں کرپائیں گے۔ |