پاکستان ابھی تازہ تازہ انتخابات
کے دنگل سے نکلا ہے،نئی حکومت بنانے کے لیے سوچ و بچار کا عمل جاری ہے، اسی
دوران سابق آمر پرویز مشرف کا معاملہ بھی ایک بار پھر نمایاں ہوتا نظر آرہا
ہے۔ انتخابات سے قبل سابق آمر پرویز مشرف کے بارے میں کافی ہلچل دیکھنے میں
آرہی تھی۔لیکن پھر سب کچھ الیکشن کی نذر ہوگیا اور پرویز مشرف کے بارے میں
خاموشی سی چھا گئی۔انتخابات سے پہلے اس کے خلاف کئی مقدمات درج کیے گئے
کیونکہ اس پر بے شمار الزامات تھے۔ سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف نے 1999
میں میاں محمد نواز شریف کی حکومت ختم کرکے ملک میں مارشل لاءلگایا۔ ججوں
کو بھی پی سی او کے تحت حلف اٹھانے پر مجبور کیا گیا۔ میاں محمد نواز شریف
اور میاں محمد شہباز شریف کو جیل سے جلاوطن کر دیا گیا ۔پرویز مشرف کی وجہ
سے پاکستان میں غیر ملکی مداخلت بڑھتی چلی گئی، افغانستان کے خلاف امریکا
اور نیٹو فورسز کی جنگ میں پاکستان کو دباؤ کے ذریعے اتحادی بننے پر مجبور
کیا گیا ، یوں افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ آہستہ آہستہ سرحدیں پار کر
کے پاکستان کی حدود میں داخل ہو گئی جس کا خمیازہ پاکستان آج تک بھگت ر ہا
ہے ۔
پرویز مشرف کے ہاتھوںبلوچستان میں بزرگ بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی فوج کے
ہاتھوں مارے گئے اور سینکڑوں بلوچ بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جس سے
بلوچستان میں آرمی اور پاکستان کے خلاف نفرت کے جذبات نے جنم لیا۔ جامعہ
حفصہ کے سانحہ میں جنرل پرویز مشرف نے آپریشن کرنے کی اجازت دی جس سے
سینکڑوں طلبہ و طالبات جاں بحق ہوئے، ملک میں ایمرجنسی لگا کر ججوں کو نظر
بند کیا، محترمہ بے نظیر بھٹو کی جان کو شدید خطرات لاحق ہونے کے باوجود
پرویز مشرف نے وزارت داخلہ کو مناسب سیکورٹی فراہم کرنے کے احکامات جاری نہ
کیے، یوں محترمہ کی موت میں سیکورٹی فراہمی میں غفلت کا الزام بھی پرویز
مشرف کے سر پر آیا،یوں اس پر غداری، جامعہ حفصہ آپریشن، نواب اکبر بگٹی قتل
اوربے نظیر بھٹو کو سیکورٹی فراہم کرنے میں غفلت کے کیسز درج کیے گئے، سابق
آمر پرویز مشرف کو ان کیسز کا سامنا تھا کہ درمیان میں انتخابات کی گہما
گہمی شروع ہوگئی، جس سے تمام کیسز مدہم پڑتے دکھائی دینے لگے۔حالانکہ ان
کیسز کے بارے میںماہرین قانون کا کہنا تھا کہ ایمرجنسی لگانے اور آئین کو
پامال کرنے کی تمام تر ذمہ داری پرویز مشرف پر عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ اس
وقت ملک کے صدر تھے اور ایمرجنسی لگانے کا حتمی اختیار بھی انہی کو تھا۔ اس
لیے اس کیس میں انہیں کم از کم عمر قید یا سزائے موت ہو سکتی ہے۔نواب اکبر
بگٹی قتل کیس کی بھی یہی صورتحا ل ہے کیونکہ پرویز مشرف نے اس بات کا اظہار
بھی کیا تھا کہ اکبر بگٹی کو فائر وہاں سے لگے گا،جہاں سے اسے سمجھ بھی
نہیں آئے گی۔ جامعہ حفصہ، لال مسجد میں پرویز مشرف نے آپریشن کی منظوری دی
تھی اس لیے انہیں ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔لیکن بات یہ ہے کہ ہمارے ملک
میں آج تک کسی فوجی سربراہ کو سزا نہیں ہوئی ، اب دیکھیں سابقہ روش قائم
رہتی ہے یا پھر کسی نئی روایت کی داغ بیل پڑتی ہے۔
پرویز مشرف کے حوالے سے ہفتے کے روز پاکستانی بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق
پرویز کیانی نے مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف سے اہم ملاقات کی
ہے۔ ملاقات میں سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کا معاملہ خصوصی طور
پر زیر بحث رہا۔ اطلاعات کے مطابق ملاقات کا ایجنڈا بظاہر ملکی صورت حال
اور سیکورٹی معاملات پر بات چیت اور دیگر اہم امور پر رائے مشورہ کرنا تھا
لیکن نواز شریف کے وزیراعظم بننے سے قبل آرمی چیف کا اچانک ان سے ملنا
دراصل پرویز مشرف کو مشکلات سے نکالنے کی راہ ہموار کرنا تھا۔ آرمی چیف نے
متوقع وزیراعظم کو ملکی مفاد میں پرویز مشرف کے معاملے پر ہارڈ لائن سے
گریز کا مشورہ دیا جس پر نواز شریف نے انہیں بتایا کہ حکومت سازی کے بعد ان
پر مشرف کے خلاف کارروائی عمل میں لانے کے لیے عدلیہ اور عوامی دباؤ میں
اضافہ ہوگا۔ اگر وہ ن لیگ کی حکومت بننے سے قبل مشرف کو پاکستان سے باہر
بھیجنے کا کوئی طریقہ اختیار کریں تو انہیں کوئی اعتراض نہ ہوگا، اس طرح ن
لیگ بڑی مشکل اور کسی امتحان میں پڑنے سے بچ جائے گی۔کہا جارہا ہے کہ فوجی
قیادت اپنے پیش رو کو نئی حکومت کی تشکیل سے قبل ملک سے باہر بھجوانے کی
سنجیدہ کوششوں میں مصروف ہے۔
پرویز مشرف کے حوالے سے میڈیا پر آنے والی خبروں کی تصدیق مسلم لیگ
ضیاءگروپ کے سربراہ اعجاز الحق کے بیان سے بھی ہوتی ہے جس میں انہوں نے یہ
دعوی کیا کہ پرویز مشرف نئی حکومت آنے سے قبل ملک سے باہر چلے جائیں
گے۔اعجاز الحق کا دعوی ٰاس وقت حقیقت کا روپ دھارتا نظر آنے لگا جب ہفتے کے
روز پرویز مشرف کے خلاف ججز نظر بندی کیس میں مدعی نے حیرت انگیز طور پر
درخواست واپس لے لی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد
میں پریس کانفرنس کے دوران پرویز مشرف کے خلاف مدعی اسلم گھمن ایڈووکیٹ کا
کہنا تھا کہ اس وقت ملک افراتفری کا متحمل نہیں ہوسکتا، کوئی دباؤ نہیں
بلکہ سوچ بچار کے بعد ملکی مفاد میں درخواست واپس لینے کافیصلہ کیا۔ ججوں
سمیت کسی نے بھی ان سے رابطہ نہیں کیا۔ ایڈووکیٹ اسلم گھمن نے کہا کہ انہوں
نے اپنی شکایت وسیع تر قومی مفاد میں واپس لی ہے، سابق جنرل مشرف کے خلاف
یہ مقدمہ ایک ریاستی معاملہ ہے جو قومی مفاد میں نہیں، لہٰذا میں نے یہ سوچ
کر مقدمہ واپس لینے کا فیصلہ کیا۔ پٹیشن واپس لینے کا فیصلہ کرنے سے قبل
میں نے اپنے دوستوں سے مشورہ کیا اور کافی غورخوض کرنے کے بعد میں نے یہ
اقدام اٹھایا۔ایڈووکیٹ اسلم گھمن کا مزید کہنا تھا کہ وہ اب آئندہ نہ تو
عدالت میں پیش ہوں گے اور نہ ہی جنرل مشرف پر مقدمہ چلانے پر زور دیں گے۔
اب یہ عدالت پر منحصر ہے کہ وہ ان کے خلاف اس مقدمے میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔
یاد رہے کہ چند ہفتے قبل کم ازکم تین وکلا جن میں اسلام آباد پولیس کے
خصوصی سرکاری وکیل سید محمد طیب بھی شامل تھے، نے خود کو اس مقدمے سے
علیحدہ کرلیا تھا۔ بقیہ دو وکلاءمیں راجہ رضوان اور قمرافضل نے رپورٹ کی
تھی کہ انہیں نامعلوم افراد کی طرف سے دھمکیاں دی گئی ہیں۔لیکن اس وقت
ایڈوکیٹ اسلم گھمن نے کہا تھا کہ وہ کسی دباؤ یا خوف کے تحت اپنے کیس کو
واپس نہیں لیں گے۔چودھری اسلم گھمن کے وکیل ایڈوکیٹ اشرف گجر کا کہنا ہے کہ
انہیں اپنے موکل کے اس فیصلے کے بارے میں ذرا بھی علم نہیں تھا۔ انہوں نے
واضح کیا کہ اسلم گھمن نے اس معاملے پر ان سے کوئی مشورہ نہیں کیا ، اگرچہ
کہ وہ ان کی جانب سے ہی عدالت میں پیش ہوئے تھے۔ایڈوکیٹ اشرف گجر کی رائے
یہ تھی کہ اسلم گھمن اپنی شکایت کو واپس نہیں لے سکتے، اس لیے کہ انسداد
دہشت گردی ایکٹ 1997 کے سیکشن کے تحت ایف آئی آر بھی اس میں شامل ہے۔صرف
ریاست اس کیس کو واپس لے سکتی ہے۔قانونی ماہر بیرسٹر ظفراللہ خان کے مطابق
اس طرح کے مقدمے میں کوئی فرد خود کو انفرادی طور پر تو الگ کرسکتا ہے،
لیکن مقدمہ واپس نہیں لے سکتا۔دوسری جانب ہفتے کو اسلام آباد میں انسداد
دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں سابق صدر کے وکیل الیاس صدیقی ایڈوکیٹ نے
اپنے مﺅ کل کی ایک دن کے لیے حاضری سے استثنٰی کی درخواست پیش کی اور کہا
کہ سیکورٹی وجوہات کی بنا پر سابق صدر کو عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکتا،
جس پر عدالت نے درخواست منظور کرلی۔الیاس صدیقی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ
پولیس نے تاحال چلان جمع نہیں کرایا جب کہ کیس کا مدعی اسلم گھمن بھی
دستبردار ہوگیا ہے۔عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے جوڈیشل ریمانڈ میں 14
روز کی توسیع کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت یکم جون تک ملتوی کردی ہے۔ان
شواہد کی بنیاد پر مبصرین کی رائے ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پرویز مشرف
کو ملک سے بھگانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ |