یہ فریب ، یہ دھوکے آخرکب تلک۔۔۔!

ماہ مئی کے آغاز نے آزادکشمیر بھر میں بجلی کی بندش اور اندھیروں کے نئے ریکارڈ قائم کر دیئے، نگران حکومت کی طرف اُمید بھری نظروں سے دیکھنے والے عوام کو منہ کی کھانی پڑی اور پھر گیارہ مئی کا انتظار شروع ہوا۔ اس انتظار نے بھی اذیتوں سے ذہنی توجہ ہٹانے میں کچھ ہی دن تک ساتھ دیا لیکن انسانی ذہنوں کو اسوقت مزید اذیت اور انتشار کا سامنا ہوا جب گیارہ مئی کے گزرنے کے بعد اندھیروں کا سلسلہ مستقل ہی کر دیا گیا اور بجلی کی بندش میں کمی کی بجائے مزید اضافے کی گنجائش ہی ختم کر دی گئی، ، شہر سنسان و ویران ہوگئے، دن بھر بڑی بڑی مارکیٹوں اور پلازوں میں خونخوار آوازوں سے قوت سماعت کو ختم کردینے والے جنریٹر چلنے لگے جبکہ بجلی کی مدد سے دن بھر کی مشقت کے بعد شام کو اپنے بیوی بچوں کیلئے روٹی کے دو نوالے اکٹھے کرنیوالے غریب محنت کش دو وقت کی روٹی سے ہی محروم ہو چلے، اب وزارت خزانہ کے ذرائع کا ایک اور انکشاف غریب عوام کے ذہنوں میں دھماکوں کی صورت پڑے گا کہ بجلی پر دی جانیوالی پچاس بلین ڈالر تک کی سبسڈی بھی ختم کی جا رہی ہے جس سے بجلی کی قیمتوں میں چار روپے تک کا اضافہ ہو جائیگا۔ راولاکوٹ کی ایک ٹریڈ یونین نے بجلی کے بلات جمع نہ کرنے کی ٹھان لی جبکہ تمام سیاسی قیادت اور ٹریڈ یونینوں نے مظفرآباد میں ایک طالبہ کے ساتھ ہونیوالی مبینہ زیادتی کیخلاف احتجاجی تحریک شروع کرنے کیلئے یک نکاتی ایجنڈے کا اعلان کر رکھا ہے۔ آزادکشمیر کی حکومت کو فتح کرنے اور چہروں کی تبدیلی کیلئے سب متحد ہو گئے اور لوگوں کو غیرت بچانے کیلئے میدان عمل میں آنے کیلئے دعوت دی جانے لگی۔ اُن لوگوں کو جو بجلی کے ستائے ہیں، جن کے پاس چند پیسے ہوں بھی تو وہ آٹا خرید نہیں سکتے کیونکہ ملوں میں آٹا پسوائی کا کام رک چکا ہے ۔ وہ لوگ جو اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے سے قاصر ہیں انہیں غیرت بچانے اور حکومت گرانے کیلئے میدان میں آنے کی دعوت کے ساتھ ساتھ ایک بار پھر نئی امید مسائل سے چھٹکارے کی ، روشن مستقبل کی، اجالوں اور ایک حسین وآزاد زندگی کی دی جانے لگی ،پاکستان میں نئے اور روشن مستقبل کی نوید بھی کچھ اتنی تابناک نظر نہیں آرہی ہے، بجلی کا بحران تاریخی حدوں کو چھو رہا ہے جسے ختم کرنے کیلئے یکمشت آٹھ سو ارب روپے کی رقم درکار ہو گی، سرکلر ڈیٹ کو پورا کرنے کا کوئی واضح راستہ اسلئے بھی نظر نہیں آرہا کہ پندرہ سو ارب روپے کا 2008سے 2013ء تک لیا گیا گیاآئی ایم ایف سے قرضہ بھی وہیں موجود ہے جسکی ایک قسط فی الفور جمع کروانی ہے اور پانچ سو ارب روپے کی قسط حاصل کرنے کیلئے آئی ایم ایف کی مزید کڑی شرائط کو بھی لاگو کرنا ہے۔ وہ شرائط بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے، روپے کی قدر میں کمی سمیت دیگر مختلف کٹوتیوں کی صورت میں ہونگی جو غریب عوام کی زندگیوں پر مسلط کی جائیں گی اور محنت کشوں کے اس نچوڑے ہوئے خون پر نئی حکومت نیا روشن پاکستان تعمیر کرنے کی سعی لاحاصل میں اپنی لوٹ مار جاری رکھے گی۔

آزادکشمیر میں جاری احتجاج کی شورش غیرت کے نام پر ہو یا قومی رہنما کے قتل کیخلاف اس سب میں عوام کی عدم شرکت اس چیز کا اظہار کر رہی ہے کہ عوامی مسائل کی شدت کسی اور جانب ہے، قوم پرست رہنما کا بے دردی سے سرعام قتل کیا جانا ریاستی ڈھانچوں اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی ناکامی سمیت ریاست کے بوسیدہ ہونے کا ثبوت ہے، اس قتل کے پس پردہ حقائق کو عوام کے سامنے لایا جانا چاہیے، مظفرآباد کے مقام پر ایک طالبہ کی مبینہ عصمت دری کے واقعہ کی بھی تحقیقات غیر جانبدارانہ ہونی چاہیے اور ملزمان کو کڑی سزا ملنی چاہیے، یہ بھی واضح ہے کہ عوامی احتجاج کے بغیر شاید کہ ایسا ممکن نہ ہو لیکن عارف شاہد کے قتل کیخلاف قوم پرستوں کا احتجاج، طالبہ زیادتی کیس پر آزادکشمیر کی اپوزیشن جماعتوں کا احتجاج ذاتی مقاصد کی عکاسی تو کر رہا ہے اجتماعی مفادات کا عنصر اس میں کم پایا جا رہا ہے، قوم پرست قیادتوں سمیت تمام سیاسی جماعتوں کی مشترکہ قیادت کا عوام کے ساتھ ہونیوالے بہیمانہ معاشی اور سیاسی بلادکار کیخلاف صدائے احتجاج بلندکرنا مسلم لیگ ن کی پاکستان میں آمدہ حکومت کیلئے نقصان دہ ہو سکتا ہے، کیونکہ بجلی کی بندش کا انکے پاس بھی کوئی حل نہیں اور مہنگائی سے نجات دلانے کیلئے وہ کچھ اسلئے بھی نہیں کر سکتے کے سرمائے کے حواریوں اور لوٹ مار کرنیوالے سامراجی آقاؤں کو ناراض کرنا انکے بس میں نہیں۔ غریب عوام سرحدوں پر فوجوں کی تبدیلی کو مسائل کا حل نہیں سمجھتے، نہ ہی غیرت بھوکے پیٹ بحال رکھی جا سکتی ہے ،یہ تاریخی حقائق ہیں کہ ایک طوائف اپنی مرضی سے اپنا جسم کبھی فروخت نہیں کرتی، اسے بھی اپنی عزت و غیرت دیگر انسانوں کی طرح مقدم ہوا کرتی ہے، لیکن ایک ایسا سماج جہاں ہر رشتہ فروخت ہوتا ہو، انسانی روح و ضمیر فروخت ہوتے ہوں، جہاں عزتوں کی بولیاں لگتی ہوں، جہاں ایک اقلیت بھاری اکثریت کا خون چوس کراسے جینے سے عاری کر رہی ہو، وہاں جسم اور روح کے تسلسل کو جوڑے رکھنے کیلئے محکوم انسان انسانی گوشت کھانے اور بیچنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ جہاں سیاسی مداری اپنے مفادات کے حصول کیلئے عوامی حقوق کا پرچار کر کے ایک اور دھوکے اور فریب کی کوششوں میں مصروف ہیں وہاں ایک حقیقی قیادت کانسل انسانی کو اس لوٹ مار سے نجات دلانے کیلئے میدان میں آنا اشد ضروری ہے اور وہ قیادت آسمان سے اتر کر نہیں آئے گی ، انہی محنت کشوں، نوجوانوں اور طالب علموں نے اپنے اندر سے اس قیادت کو تراشنا بھی ہے اور تعمیر بھی کرنا ہے جو اس گلے سڑے سماجی ڈھانچے سمیت اس لوٹ مار کے ہمیشہ سے خاتمے کیلئے عوام کو نجات کے راستے پر گامزن کرسکے گی۔
حارث قدیر
About the Author: حارث قدیر Read More Articles by حارث قدیر: 8 Articles with 5324 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.