عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ شاعر
حضرات بہت حساس ہونے کی وجہ سے مُنصف مزاج بھی ہوتے ہیں مگر ہمارا مُشاہدہ
اور تاریخ کا مُطالعہ اَس بات کی نفی کرتا ہے، شاعر حضرات بھی مُعاشرے کا
ہی حصّہ ہوتے ہیں اور مُعاشرے میں مُروّج تعصُبات، ذاتی مُفاد، حرص اور
دیگر فطری و بشری خامیاں شاعر حضرات (گو سب شاعروں میں نہیں مگر کُچھ میں)
بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔
مثال کے طور پر عموماً شاعر حضرات کسی دوسرے کے کلام کو علمِ عرُوض کے
اصولوں اور خیالات کی بُلندی سے زیادہ ذاتی تعلقات کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں،
یہی وجہ ہے کہ کسی نوآموز کا بہترین کلام داد و تحسین سے قطعی طور پر محروم
رہتا ہے اور کوئی کبنہ مشق اپنے قدرے معمولی کلام پہ بھی بے انتہا داد و
دہش سے مالا مال ہوجاتا ہے۔
لُطف کی بات تو یہ ہے کہ شاعرانہ بے انصافی کا شکار صرف آج کے نوآمُوز ہی
نہیں ہوتے بلکہ یہ سلسلہ روزِ ازل سے ہی موجود ہے، تاریخ بتاتی ہے کہ مرزا
اسد اللہ خان غالب جب پہلی بار دربار میں کلام سُنانے لگے اور مصرعہء اُولیٰ
سُنایا تو مُشاعرے کی رِوایات کے برعکس کسی نے مِصرعہ نہ اُٹھایا، مرزا نے
کہا، “حضرات، مصرعہ اُٹھائیے“ (یعنی مصرعہ دوہرائیے) کسی بزُعمِ خُود شاعر
نے جواب دیا “مصرعہ بہت وزنی ہے، ہم سے تو نہ اُٹھے گا“ مرزا صاحب نے غزل
جیب میں رکھی اور یہ فرما کر واپس آ گئے کہ “جو اذہان میرے ایک مصرعے کا
بار نہیں اُٹھا سکتے، اُن پر پُوری غزل کا بار کیا ڈالنا۔“
حالات کی ستم ظریفی کے ہاتھوں جب میر تقی میر، دلّی سے کسی اور علاقے میں
تشریف لے گئے تو ناواقفانِ حال شُعراء نے اُن کے معمولی حُلیہ کو درخُو
اعتنا نہ سمجھا اور میر کو کہنا پڑا
“کیا بُود و باش پُوچھو ہو پُورب کے ساکُنو
ہم کو غریب جان کر ہنس ہنس پُکارتے
دلّی جو اِک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے جہاں مُنتخب ہی روزگار کے
تُس کو فَلَک نے لُوٹ کر ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اُسی اُجڑے دیار کے“
اور یہ بات بھی تاریخ کا حصّہ ہے کہ خُدائے سُخن کا نام تو اُردو ادب میں
آج بھی موجود ہے مگر اُن معاصرین کا دُور دُور تک کہیں کوئی پتہ نہیں ہے۔
اسی طرح خواجہ الطاف حُسین حالی کو اپنی ناقدری کا گلہ ان الفاظ میں کرنا
پڑا
“مال ہے نایاب پر گاہک ہیں اکثر بے خبر
شہر میں حالی نے کھولی ہے دُکاں سب سے الگ“
لیکن جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ بے انصاف ہونے یا ناقدری کرنے کا کُلیہ
جُملہ شُعراء پہ عائد نہیں ہوتا بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ شُعراء کی ایک کثیر
تعداد نہ صرف یہ کہ ذاتی پسند نا پسند کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف
شاعرانہ معیار کو تحسین کی بُنیاد بناتی ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک بار حالی نے کسی مُشاعرے میں غالباً تھکن یا بیماری کی وجہ
سے اپنا کلام علامہ اقبال کو پڑھنے کو کہا، شاعرانہ تعصب سے فزوں تر، بُلند
مرتبہ اِقبال نے فی البدیہہ اس شعر کے ذریعے حالی کی مِدح کی
“گویا کہ میں نبی ہوں، اشعار کے خُدا کا
قُرآن بن کر اُترا، مُجھ پر کلامِ حالی“
اِس لئے ہمارا نو واردگانِ ادب کو مشورہ ہے کہ دلبرداشتہ ہرگز نہ ہوں، اور
مشقِ سُخن کا سلسلہ جاری و ساری رکھیں کہ محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ |