اگر ہم اردو ادب کی مشہور مثنویوں کو دیکھیں تو تقریباً
تمام مثنویاں عشقیہ جذبات سے لبریز ہیں۔ملّا وجہی کی قطب مشتری ہو کہ سراج
اورنگ آبادی کی پرستانِ خیال۔ میر تقی میر کی مثنوی دریائے عشق ہو یا میر
حسن کی مثنوی سحرالبیان۔ میر اثر کی مثنوی خواب و خیال ہو کہ دیا شنکر نسیم
کی مثنوی گلزارِ نسیم۔ نواب مرزا شوق کی مثنوی زہرِ عشق ہو یا پھر داغ
دہلوی کی مثنوی فریادِ داغ۔ عبدالقادر سروری غنائی شاعری کے باب میں لکھتے
ہیں:
’’شاعری کی اس نوع کو انگریزی میں ’’لریکل‘‘ شاعری کے نام سے موسوم کیا
جاتا ہے۔ یہ وہ نظمیں ہیں جن میں حسن و عشق کے داخلی جذبات اور قلبی واردات
کے بیان کے ساتھ غنا کی رعایت بھی ملحوظ رکھی جاتی ہے۔ غنائی شاعری عموماً
گہرائی میں جانے کی کوشش نہیں کرتی بلکہ پر جوش جذبات اس کے محرک ہوتے ہیں،
اس لیے یہ فطرت انسانی کے جذباتی پہلو سے زیحادہ واسطہ رکھتی ہے۔ فکر یا
قوتِ استدلال کو متاثر کرنا اس نوع کی شاعری کا کام نہیں ہے۔‘‘
عبدالقادر سروری کی رائے میں صرف اس بات کا اضافہ کیا جا سکتا ہے کہ پر جوش
جذبات کے اظہار کا ماحول و معاشرہ بھی اس شاعری میں خود بخود شامل ہو جاتا
ہے۔وارداتِ قلب سے گزرنے والا شخص جب تڑپتا ہے، بلبلاتا ہے یا خوشی سے بے
خود ہو جاتا ہے تو اس کے شامل رونے اور گانے والے کچھ اور لوگ بھی ہوتے ہیں،
حالات ہوتے ہیں، کوئی نہ کوئی موسم ہوتا ہے، علاقہ ہوتا ہے اس علاقے کی
زبان ہوتی ہے، تہذیب ہوتی ہے ان کے رسم و رواج ہوتے ہیں مذہب ہوتا ہے اور
ساتھ ہی غم و خوشی کے اظہار کا وہ وسیلہ بھی اس سماج کا زائیدہ ہوتا ہے جس
میں وہ شاعر رہ رہا ہوتا ہے۔
زیرِ نظر مثنوی ’’فریادِ داغ‘‘ کو بھی ان معروضات کی روشنی میں دیکھنے کی
ضرورت ہے۔
’’فریادِ داغ‘‘ مرزا داغ دہلوی کی واحد مثنوی ہے۔ حالاں کہ یہ رائے بھی ہے
کہ انھوں نے بہت ساری مثنویاں لکھی تھیں لیکن ابھی تک ان کا کوئی سراغ نہیں
مل سکا ہے اس لیے ’’فریادِ داغ‘‘ کو ہی ان کی واحد مثنوی قرار دیا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں سید محمد عقیل رقمطراز ہیں:
’’داغ کا جتنا بھی کلام شائع ہو چکا ہے اور سامنے ہے اس میں صرف ان کی ایک
مثنوی ہے جو ’’فریادِ داغ‘‘ کے نام سے 1884میں پہلی مرتبہ شائع ہوئی ہے۔‘‘
عبدالقادر سروری بھی اپنی کتاب ’’اردو مثنوی کا ارتقا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ
’’داغ نے صرف ایک مثنوی فریادِ داغ لکھی تھی۔‘‘
جہاں تک سوال ہے مرزا خاں داغ دہلوی کی شاعری کا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ
داغ نے غالب و ذوق کے بعد اپنے فن کا لوہا تمام اہالیانِ ہند سے منوایا اور
اگر ذوق کا کوئی سچا جانشین کہے جانے کے لائق ہے تو وہ داغ ہیں جنھوں نے
صرف اپنے پر تاثیر کلام سے اپنی شناخت قائم کروائی کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ
ذوق پایہ کے شاعر ہونے کے باوجود اگر بادشاہِ وقت کے استاد نہ ہوتے تو
انھیں وہ قدر و منزلت نہ ملتی لیکن داغ نے غالب، شیفتہ،شاہ نصیر جیسے
استادوں کے درمیان اپنی انفرادیت قائم کر لی تھی۔ برا ہو غدر1857کا کہ اس
نے ان نامورانِ ادب و شعر کو تنگ دست و خستہ حال ہی نہیں غریب الدیار بھی
بنا دیا۔ ذاتی ضروریات اور فکرِ معاش سے مجبور ہو کر جہاں جس کو پناہ ملی
وہ وہاں چلا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ریاست رام پور علمی قدر افزائی کی وجہ
سے مشہور تھا۔ اسیر، امیر، تسلیم، جلال، قلق جیسے نامی گرامی شعرا وہاں شعر
و ادب کی قلمرو کو سجانے سنوارنے کا کام انجام دے رہے تھے اس وقت نواب یوسف
علی خاں ناظم مسند آرا حکومت تھے۔ علم دوستی ان کا وطیرہ تھا اور شعرا و
ادبا کی قدر ان کا شعار تھا۔ انھوں نے داغ کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ نواب کلب
علی خاں کا زمانۂ ولی عہدی تھا۔ داغ ان کے مصاحب مقرر ہوئے۔ قیام رامپور
میں داغ کے جوہر اور کھلے اور وہ بہت جلد آسمانِ شعر و سخن کے آفتاب قرار
دیے جانے لگے۔ رامپور کے قیام کا زمانہ ہی ’’فریادِ داغ‘‘ کی بنیاد ہے۔
فریادِ داغ در اصل داغ کی آپ بیتی کا ایک حصہ ہے جس میں جہاں داغ نے اپنے
نا مکمل عشق کی داستان بیان کی ہے وہیں نواب رامپور سے اپنی دلی محبت اور
ان کے اکرام کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔مثنوی کے شروع میں ہی انھوں نے
رامپور کا اور اپنے محسن نواب رامپور کا جس شان سے ذکر کیا ہے وہ ان کی
وابستگیٔ رامپور کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
مدح نواب نامدار کروں
جان قربان دل نثار کروں
حاجی و زائر و خدا آگاہ
شاہ، درویش خوئے ضل اﷲ
وہ رئیس دلاور اخترِ ہند
وہ مخاطب شیر قیصرِ ہند
قیصرِ ہند سے شیر خطاب
اور فرزند دلپذیر خطاب
اس سخی کا ہے کام دینے کا
اس کے دینے سے نام دینے کا
کیا خزانہ بھرا پرا پایا
دل خزانے سے بھی بڑا پایا
سو مزے ایک بات میں دیکھے
سو ہنر ایک ذات میں دیکھے
سب اسے رام پور کہتے ہیں
ہم تو آرام پور کہتے ہیں
خیر نواب کی مناتے ہیں
جس کا کھاتے ہیں اس کا گاتے ہیں
مثنوی فریادِ داغ کی مختصر کہانی یہ ہے کہ کلکتہ کی ایک مشہور طوائف ماں
منیر متخلص بہ حجاب رامپور بے نظیر کے میلے میں شرکت کے لیے آتی ہے داغ نے
اسے وہیں دیکھا اور عشق کی آگ میں جلنے لگے۔آگ دونوں طرف لگی تھی اس لیے
کچھ دنوں تک تو وہ رامپور میں رہی اور داغ کی دلدہی کرتی رہی لیکن پھر واپس
کلکتہ چلی گئی۔ وصال چند روزہ کے بعد ہجر کے کالے کوس کٹنے مشکل ہو گئے۔
ادھر حجاب کا بھی وہی حال تھا، وہاں کلکتہ میں اس کے پرانے عاشقوں نے جب
حجاب کی یہ حالت دیکھی تو انھوں نے یہ چال چلی کہ حجاب سے یہ کہنا شروع کیا
تم یکطرفہ محبت کر رہی ہو داغ کو تمھاری مطلق فکر نہیں اور اگر ایسا نہیں
ہے تو داغ کو کلکتہ بلاؤ اگر وہ آیا تو اندازہ ہوگا کہ وہ بھی تم سے عشق
کرتا ہے ورنہ نہیں۔سب جانتے تھے کہ نواب کو چھوڑے بغیر داغ کلکتہ نہیں
آسکتے اور آئے تو رامپور کی نوکری جائے گی۔ حجاب کی سمجھ میں یہ بات آ جاتی
ہے اور وہ داغ کو کلکتہ آنے کی دعوت بھجواتی ہے۔ حالاں کہ داغ حجاب کے عشق
میں مرغِ بسمل کی طرح تڑپ رہے تھے اور معشوق کا بلاوا ان کے لیے مژدۂ
جانفزا سے کم نہ تھا لیکن نوکری کی مجبوری بھی مانع تھی۔یہ الگ بات ہے کہ
عشق صادق اگر دل میں جاگزیں ہو تو وہ بھلا دنیاوی مشکلات کو کب خاطر میں
لاتا ہے لہٰذا انھوں نے رخصت لی اور کلکتہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ راستے میں
الٰہ آباد، کانپور اور لکھنؤ ہوتے ہوئے عظیم آباد میں بھی قیام کیا اور پھر
اپنی منزل پر پہنچ گئے۔ اپنی منزل کو پا کر ایک انسان جتنا خوش ہوتا ہے داغ
بھی ہوئے، لیکن اس سر خوشی میں وہ رامپور کو فراموش نہیں کرتے اور وہاں سے
بلاوہ آتے ہی وہ خلوت نازنین سے اٹھ کر پھر رامپور آ جاتے ہیں۔
فریادِ داغ اسی ہجر و وصال کی کہانی ہے جو اپنے آٖ میں مثنوی کی تمام
خوبیاں لیے ہوئے ہے۔ اس مثنوی کا تجزیہ کرتے ہوئے سید محمد عقیل رضوی
رقمطراز ہیں:
’’داغ کی زندگی، ان کی شخصیت، ان کا ماحول اور افتادِ طبع بہت رنگین
تھی۔داغ کی ساری زندگی شاہد بازی میں گزری مگر ان کی مثنوی میں کوئی ٹکڑا
ایسا نہیں ملتا جسے دیکھ کر شرم و حجاب کی آنکھیں جھپک جائیں۔مومن اور اثر
کی دبی ہوئی جنسیت کا داغ کے یہاں کوسوں پتہ نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ان کے
مصرعوں اور اشعار میں نوجوانی چہکارتی ہے مگر کہیں ایسی عریانی نہیں جو
پڑھتے وقت گرد و پیش پر نظرِ احتیاط ڈالنے پر مجبورکرے۔‘‘
پاکیزہ جذبات اور حسنِ تخیل کی مثال ان کی مثنوی کچھ ایسی دلفریب ہے کہ
والہانہ پن کے نازک سے نازک موقع پر بھی زبان کی سادگی جو داغ کا خالص وصف
ہے ان کے ہاتھ سے نہیں چھوٹتا۔متقدمین اور متاخرین میں سے بھی اکثر نے ان
مضامین کو باندھا ہے لیکن ان کا اسلوبِ بیان اس قدر صاف و شستہ نہیں بلکہ
مغلق الفاظ اور پیچیدہ عبارت سے مطالب اکثر عسیر الفہم ہو گئے ہیں۔ داغ کی
امتیازی خصوصیت ہے کہ وہ مشکل مضمون کو بھی آسان زبان میں ادا کر دیتے ہیں
اور اس مثنوی میں بھی اس کی مثالیں وافر تعداد میں موجود ہیں۔ داغ کی زبان
کے بارے میں بات کرنا ایسا ہے جیسے سورج کو چراغ دکھانا کیوں کہ ان کے
معترضین کو بھی اس کا اعتراف ہے کہ جو سادگی اور صفائی اردو میں انھوں نے
پیدا کی ہے وہ ان ہی کا حصہ ہے۔ فصیح الفاظ، عام فہم ترکیبیں، برجستہ
محاورے،سلجھی ہوئی بندشیں اور روز مرہ کی صفائی ان تمام اعتبار سے فریادِ
داغ بھی بے نظیر ہے۔ اسالیبِ بیان کی خوبیاں ہی ہیں جس کی وجہ سے فریادِ
داغ اردو کی چند مقبول مثنویوں میں سے ایک ہے۔اس مثنوی میں صناعی کو بالکل
دخل نہیں۔ انھوں نے محاورے اور چٹکلے بھی اسی طرح نظم کر دیے ہیں جس طرح
روز مرہ کی گفتگو میں بولے جاتے ہیں۔ زبان کی طرح داغ نے جہاں کہیں بھی
حسبِ ضرورت تشبیہات و استعارات سے کام لیا ہے وہاں میانہ روی کو مد نظر
رکھا ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ مثنوی فریادِ داغ جب شروع ہوتی ہے تو اس
میں روایت کی پاسداری کرتے ہوئے داغ حسبِ روایت حمد، نعت اور منقبت کے
مصرعے اور اشعار کہتے ہوئے مدح نواب پر آجاتے ہیں اور دل کھول کر نواب کی
تعریف کرتے ہیں۔ جس زبان کی خوبی کے لیے داغ مشہور ہیں اس کا نمونہ یہاں
بھی موجود ہے میں صرف پہلے حصے کے آخری شعر کا حوالہ دوں گا:
خیر نواب کی مناتے ہیں
جس کا کھاتے ہیں اس کا گاتے ہیں
ضرب المثل کا یوں بے محابہ استعمال داغ کے حصے کی چیز ہے اور اس سے جو کام
انھوں نے لینا تھا وہ لیا بعد از تمہید’’عشق کی تعریف‘‘ کے نام سے کچھ
اشعار ہیں جس میں داغ نے ماحول خلق کرنے کی کوشش کی ہے اور پوری طرح کامیاب
ہوئے ہیں۔ داغ نے یہاں بھی اپنی راہ الگ نکالنے کی کوشش کی ہے فرماتے ہیں:
خوبیاں عشق کی بیان کروں
کچھ طبیعت کا امتحان کروں
سب نے کی ہیں برائیاں اس کی
میں نے لکھیں بھلائیاں اس کی
دل بنا ہے اسی مزے کے لیے
میں نے یہ لطف جان دے کے لیے
عشق کی تعریف کے بعدساقی نامہ ہے اور پھر عشق کی ابتدا کے عنوان سے اصل قصہ
سامنے آتا ہے۔اس میں بھی کئی عنوانات ہیں جیسے ’’پہلا آمنا سامنا‘‘،
’’معشوقہ کی تعریف‘‘، ’’معشوق کی روانگی‘‘، ’’جدائی‘‘، ’’عاشق کی تصویر سے
معشوق کی مخاطبت‘‘، ’’معشوقہ کی آمد‘‘، ’’واپسی‘‘، ’’بلاوا‘‘، ’’معشوق کا
خط‘‘، ’’جواب‘‘ اور ’’کلکتہ کو جانا‘‘۔
یوں تو یہ پوری مثنوی اپنی خوبیوں سے مالا مال ہے مگر خاص طور پر عاشق کی
تصویر سے معشوق کی مخاطبت بار بار پڑھنے کی چیز ہے جس میں داغ نے اپنے تخیل
کی بلند پروازی کے بہترین جوہر دکھائے ہیں۔ داغ نے اس حصے میں اپنے دلی
جذبات کو جس طرح پیش کیا ہے وہ ڈراما کا ایک بہترین سین معلوم ہوتا ہے:
یہ سنا ہے کہ وہ پری پیکر
یاد کرتا ہے مجھ کو یوں اکثر
میری تصویر رکھ کے پیشِ نظر
کوسنا، چھیڑنا، یہ کہہ کہہ کر
اس ڈھٹائی سے تو ادھر دیکھے
آنکھیں پھوٹیں ہمیں اگر دیکھے
کس طرح گھورتا ہے مجھ کو شریر
جی میں آتا ہے پھونک دوں تصویر
تو سہی رات دن رلاؤں تجھے
دیکھنے کا مزہ چکھاؤں تجھے
ایسی صورت پہ یہ دماغ ترا
خوب رکھا ہے نام داغ ترا
حسن ہوتا ہے حاصلِ تصویر
روسیہ تو ہے قابلِ تصویر
شکل منحوس کیوں نظر آئے
مول لے کر بھی ہم تو پچھتائے
ایسی تصویر کس کو بھاتی ہے
پر بلا سے ہنسی تو آتی ہے
تجھ سے رونق نہیں بے گھر کے لیے
رکھ لیا ہے نظر گزر کے لیے
مصرع لکھتے وقت قلم کو روکنا ہوتا ہے۔ہر مصرع اپنی جگہ اگلے مصرع کی فہمائش
کرتا ہوا ہر شعر فرطِ جذبات میں ڈوبا ہوا اور کمال یہ ہے کہ داغ نے کس خوبی
سے خود ہی معشوق کی طرف سے اپنے پرزے اڑائے ہیں ورنہ مثنوی میں مستقل ایسے
اشعار جو اپنے آپ میں ایک دوسرے سے بغیر کسی واقعے کے بندے ہوئے مشکل سے
ملتے ہیں۔ ہم نے مثنویوں کو پڑھتے وقت دیکھا ہے اس میں واقعے کی دلچسپی اور
تحیر خیزی قاری کو باندھے رکھتی ہے لیکن یہاں زبان کی چاشنی اور تخیل
آفرینی کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ کچھ اشعار تو اتنے بر محل اور عورتوں
کی نفسیات سے بھر پور ہیں کہ وہ مثنوی کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتے ہیں:
دام دے کر تجھے خریدا ہے
تجھ پہ ہر طرح اپنا دعویٰ ہے
ہاں زلیخا مجھے نہ ٹھہرانا
بن کے یوسف کہیں نہ اترانا
بال باندھا مرا غلام ہے تو
اسی باعث سے نیک نام ہے تو
مثنوی میں اس کے علاوہ بھی کچھ اور چیزیں ہیں جس کا ذکر کرنا ضروری ہے خاص
طور پر رامپور سے کلکتہ کے سفر میں الٰہ آباد، کانپور، لکھنؤ اور پھر عظیم
آباد کا ذکر جس طرح داغ نے کیا ہے وہ سارے حصے اس وقت کے حالات اور وہاں کے
لوگوں کا حسنِ اخلاق جس طرح داغ کو گرویدہ کرتا ہے اس سے داغ کی اعلیٰ ظرفی
کا پتہ چلتا ہے۔
آخر میں عبدالقادر سروری کے اس اقتباس پر مضمون ختم کرتا ہوں کہ:
’’داغ نے صرف ایک مثنوی ’’فریادِ داغ‘‘ لکھی تھی جو نہایت دلچسپ ہے۔ اس میں
حسن و عشق کی واردات بیان کی ہیں زبان میں سلاست کے باوجود شعری لذتیں
موجود ہیں لیکن صرف ایک مثنوی کسی شاعر کے انداز کا تصفیہ کرنے کے لیے
ناکافی مواد ہے۔ ’’فریادِ داغ‘‘ سے اس قدر ضرور معلوم ہوتا ہے کہ اگر داغ
اس طرف خاص توجہ کرتے تو یقیناً عمدہ مثنویاں سرانجام دے سکتے تھے۔‘‘ |