جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے معاشرے میں کچھ ایسی اصلاحات رائج ہوگئی ہیں جو کہ غلط ہیں لیکن آج کل وہ ضرب المثل بن چکی ہیں اور کوئی ان کی گہرائی میں جاکر نہیں سوچتا کہ یہ ہم کیا کہہ رہے ہیں۔

سب سے پہلی چیز اس وقت اسرائیل کی مظلوم اور نہتے فلسطینی مسلمانوں پر جارحیت پوری دنیا میں موضوع بحث ہے اور اس میں اسرائیلی جارحیت اور ظلم کے لیے ایک لفظ بربریت استعمال کیا جاتا ہے۔ کبھی ہم نے غور کیا ہے کہ یہ لفظ بربریت کیا ہے اور کہاں سے نکلا ہے۔ یہ لفظ یا اصطلاح دراصل متعصب عیسائیوں کی ایجاد کردہ ہے۔ بربریت کا لفظ دراصل بربر سے نکلا ہے اور بربر ایک افریقی قبیلہ ہے اور عظیم مسلمان سپہ سالار طارق بن زیاد جنہوں نے اسپین فتح کیا ان کا تعلق بربر قبیلے سے تھا، متعصب عیسائیوں نے کبھی بھی اس بات کو برداشت نہیں کیا اور متعصب عیسائی مورخین نے اپنی کتب میں مسلمانوں کو ظالم اور جابر کے روپ میں پیش کیا اور طارق بن زیاد کی شخصیت اور ذات کو خاص طور سے نشانہ بنایا گیا۔ اور بر بر قبیلے کی نسبت سے ان کے فرضی مظالم کو بربریت یا باربیرین کے نام سے موسوم کیا اور یہ اتنے تواتر سے کیا گیا کہ یہ باقاعدہ ایک اصطلاح بن گی اور اب جب کسی کے ظلم کو بیان کرنا ہوتا ہے تو اس کے لیے بربریت کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔کم از کم ہم لوگوں کو اس لفظ کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے اور اس کے لیے زیادہ مناسب لفظ چنگیزیت بلکہ اسرائیلی مظالم اور حیوانیت کی نسبت سے صہونیت کا لفظ استعمال کرنا چاہیے۔

دوسری چیز اردو زبان میں ایک مشہور مثال ہے کہ نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی ہمیں نہیں پتہ کہ یہ مثال اردو میں کب اور کیسے رائج ہوئی البتہ یہ مثال اس وقت استعمال کی جاتی جب کوئی شخص اپنی برائیوں اور گناہ سے توبہ کرکے نیکی کے راستے پر چلنے کی کوشش کرتا ہے،یا لوگوں کو برائی سے بچنے کی ترغیب دیتا ہے تو اسوقت اس فرد پر طنز کے طور پر کہا جاتا ہے کہ نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی،اس مثال میں دو باتیں قابل غور ہیں پہلی بات کہ اس میں یہ ظاہر ہوتا کہ حج کرنے والا ہر مسلمان حج سے پہلے گناہ اور معصیت میں بری طرح مبتلا تھا اور اب جب کہ اس میں گناہ کی طاقت نہ رہی تو وہ حج کرنے چلا جاتا ہے اور اس طرح ہم نادانستگی میں ان مسلمانوں کے بارے میں بدگمانی کرتے ہیں جو کہ حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔اور دوسری چیز یہ ہوتی ہے کہ اس مثال کے ذریعے ایک فرد جو کہ گناہ اور برائی کے راستے سے توبہ کر کے پلٹنا چاہتا ہے تو بجائے اس کی حوصلہ افزائی کے الٹا اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ ہمیں اس عمل سے گریز کرنا چاہیے

اسی طرح اردو میں ایک اور مثال بھی عام ہے کہ عیسٰی کا گواہ موسیٰ یہ مثال اسوقت دی جاتی ہے کہ جب کسی فرد کی گواہی پر اعتبار نہ کیا جائے یا اگر کوئی جرائم پیشہ فرد کوئی فراڈیا یا کوئی دھوکہ باز اپنے ساتھی کے جرم کو چھپانے کے لیے جھوٹی گواہی دے تو کہا جاتا ہے کہ عیسیٰ کا گواہ موسیٰ (استغفر اللہ )کہاں وہ اللہ کے رسول جو معصوم عن الخطاء ہوتے ہیں اور کہاں یہ گناہ گار اور مجرم لوگ لیکن ہم اپنی گفتگو میں بغیر سوچے سمجھے ان اصطلاحات کا استعمال کرتے ہیں اور معاذ اللہ نادانستگی میں میرے منہ میں خاک اللہ کے ان برگزیدہ انبیاء کی شان میں گستاخی کرتے ہیں اور نعوذ باللہ ان کو جھوٹا کہتے ہیں ۔ میری اپنے تمام مسلمان بھائیوں اور بہنوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنی گفتگو میں ایسے محاورات اور اصطلاحات کے استعمال سے گریز کریں۔ اور دیگر افراد کو بھی اس بات کی ترغیب دیں تاکہ یہ غلط العام اصطلاحات ختم ہوجائیں۔اور آخر میں ایک بار پھر یہ اپیل کرونگا کہ بالخصوص بربریت کی جگی صہونیت کا لفظ استعمال کریں تاکہ اسرائیلی دہشت گردی اورمظالم زبان زد عام ہوجائیں-
Chaudhry Tahir Ubaid Taj
About the Author: Chaudhry Tahir Ubaid Taj Read More Articles by Chaudhry Tahir Ubaid Taj: 38 Articles with 65954 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.