ناول اطالوی زبان کے لفظ
Novellaسے اخذ کیا گیا ہے۔ جس کے معانی ہیں انوکھا، عجیب ، نرالا، نئی چیز
اور بدعت۔ اصطلاحی معنوں میں ناول وہ قصہ یا کہانی ہے جس کا موضوع انسانی
زندگی ہو۔ یعنی انسانی زندگی کے حالات و واقعات اور معاملات کا انتہائی
گہرے اور مکمل مشاہدے کے بعد ایک خاص انداز میں ترتیب کے ساتھ کہانی کی شکل
میں پیش کرنے کا نام ناول ہے۔ ناول کی تاریخ اتنی قدیم نہیں جتنی بقیہ
اُردو اصناف کی ہے۔ ناول کی ابتد اٹلی کے شاعر اور ادیب جینووینی بو کا شیو
نے ۵۵۳۱ءمیں ناویلا سٹوریا نامی کہانی سے کی۔ انگریزی ادب میں پہلا ناول
”پا میلا “ کے نام سے لکھا گیا اُردو ادب میں ناول کا آغاز انیسویں صدی میں
انگریزی ادب کی وساطت سے ہوا۔
ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کو اردو کا پہلا ناول نگار تسلیم کیاجاتا ہے۔ ۹۴۸۱ءمیں
اُن کا ناول ”مراة العروس“ کو اُردو کا پہلا ناول تسلیم کیا جاتا ہے۔ دراصل
ڈپٹی نذیر احمد کے اصلاحی قصوں کو ناول قرار دینا درست نہیں۔ ڈپٹی نذیر
احمد کے ہاں قصوں کو ایک نئے انداز میں رقم کرنے کا جو انداز ملتا ہے اس کے
ناول کی تکنیک سے رشتے تلاش کیے جاسکتے ہیں مگر انہیں ناول تسلیم نہیں کیا
جاسکتا اور نہ ہی وہ ناول کی فنی خصوصیات پر پورا اترتے ہیں اس سلسلے میں
پروفیسر سید وقار عظیم رقمطراز ہیں۔
ڈپٹی نذیر احمد کے جن قصوں کو متفقہ طور پر ناول کہا گیا ہے اُن میں فن کے
وہ لوازم موجود نہیں جن کا مطالبہ جدید ناول سے کیا جاسکتا ہے۔ پلاٹ اور
اُس کے مختلف اجزائ، ایک اہم موضوع اور موضوع کو پیش کرنے کیلئے ایک موزوں
اور پرکشش آغاز، الجھن، منطقی انجام، زندگی سے بھرپور کردار، ایک واضح نقطہ
نظر کی موجودگی، مقصد اور فن کا باہمی توازن، موضوع اور بیان میں مکمل
مطابقت، مصنف کی شخصیت کا گہرا پر تو اور اُس کی فکری وجذباتی صلاحیتوں کا
پورا مشاہدہ، نذیر احمد کی قصوں میں یہ سب کچھ نہیں ملتا، یہ کہنے میں زرا
تکلف نہیں برتا جاتا کہ یہ قصے ناول نہیں ہیں۔
ڈاکٹر احسن فاروقی نے ڈپٹی نذیر احمد کے قصوں کو تمثیلی افسانے قرار دیا
ہے۔ مگر مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ نذیر احمد نے ادب میں ایک
نئی چیز متعارف کرائی اگرچہ میں نذیر احمد کے فن سے اتفاق نہیں کرتا مگر یہ
تسلیم کرنا چاہیے کہ ان سے قبل اردو ناول میں کوئی نقشِ تقلید موجود نہ
تھا۔ ظاہر ہے جب پہلی دفعہ کسی نئی چیز کی بنیاد رکھی جاتی ہے تو اُس میں
غلطیوں کا احتمال لازمی امر ہے۔ آج اردو ناول جس ترقی یافتہ شکل میں ہمارے
سامنے موجود ہے اس کی بنیاد ڈپٹی نذیر احمد نے رکھی۔
ہمارے ناول سے جو بھی رابطے ہوں یہ طے ہے کہ ہم نے اپنی تکمیلی صورت مغرب
سے مستعار لی یوں تو ہمارے ہاں کہانی سے ناول تک کا سفر اپنا ایک ارتقائی
مقام رکھتا ہے اس سفر میں سرشار کے ہاں کرداروں کی کثرت، شیرر کے ہاں منتشر
واقعات کے باوجود پلاٹ کی صورت اور نذیر احمد کے ہاں معاشرتی جھلکیاں
ابھرتی ہیں۔ا بتدائی دور میں اردو ناول تمثیل کی سطح تک رہا جس میں جامد
اور غیر تاثر پذیر قسم کے کردار تھے۔ ناول کے موثر کردار ہمارے ہاں درجہ
بدرجہ اُبھرے، تب کہیں جا کر ”امرو جان ادا“ اور ”گﺅدان“ ابھرے۔ جب ہم مشرق
و مغرب کے ہاں ناول نگاری کے مقاصد کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں دونوں کے
مقاصد میں ایک واضح فرق نظر آتا ہے۔ ہمارے ہاں کے ناول کا مقصد نہ مغرب کی
طرح لامحدود آزادی کی لگن ہے نہ محض زندہ رہنے کی آرزو نہ تقدیر کی وہ طنز
جس کے آگے فرد محض بے معنی ہے اور نہ یہاں کی زندگی کسی Idiotکی ستائی ہوئی
کہانی ہے۔ ہمارے ناول کا موضوع ہماری بدلتی ہوئی بنتی ہوئی اور بگڑتی ہوئی
اقداءہیں اور ہمارے ہاں ناول کی شروعات اُن ایام میں ہوئی جب یہ خطہ تبدیلی
کے عمل سے گزر رہا تھا اس لیے ناول کے مرکز میں غیر یقینی ماحول کا پیدا
ہونا عین فطری امر تھا۔ چونکہ ہمارے ہاں ناول کی عمر ۳۴۱ سال بنتی ہے اور
جن زبانوں میں ناول کی عمر تین صدیوں سے زائد ہے اُن سے اردو ناول کا تقابل
کرنا قرینِ قیاس نہیں۔ تاہم اُردو ناول کا افق اتنا محدود نہیں کہ اُردو
ناول نگار کسی احساس کمتری کا شکار ہوں۔
مولوی نذیر احمد، مرزا ہادی رسوا اور عبدالحیلم شرر نے انیسویں صدی کے
اواخر میں اردو ناول کو جو بنیاد فراہم کی تھی اس پر ایک قصرتعمیر کرنے کے
آثار بیسویں صدی میں نظر آتے ہیں۔ بیسویں صدی کے ابتدائی ناول نگاروں میں
منشی پریم چند، نیاز فتح پوری اور علی عباس حسینی کے نام اہم ہیں۔ پریم چند
کے ناولوں میں اصلاحی رحجانات اور حقیقت نگاری نظر آتی ہے۔ نیاز فتح پوری
کا ناول ”شہاب کی سرگزشت“ حقیقت کو فلسفے کی نظر سے دیکھتا ہے۔ علی عباس
حسینی نے طربیہ ناول لکھنے کی کوشش کی ”قاف کی پری“ اور ”شاید کہ بہار آئے“
ناولوں میں محبت کے عمل کو مثالی کرداروں کی مدد سے امتحان سے گزرنے کا
موقع دیا۔ حسینی مرزا رسوا کے شاگرد تھے تاہم اُن کی ناول نگاری پر رسوا کے
اثرات نظر نہیں آتے۔
ترقی پسند مصنفین سجاد ظہیر، کرشن چندر، اوپندر ناتھ اشک وغیرہ نے کسی نہ
کسی حوالے سے ناول کی ضرور خدمت کی اور اس صنف کو آہستہ آہستہ ایک بڑے ناول
نگار کیلئے ساز گار بنایا۔ 1950ءکی دہائی میں ناول کے افق پر جو سب سے بڑی
شخصیت رونما ہوئی وہ قرة العین حیدر کی شخصیت ہے۔ 1959میں قرة العین حیدر
کا ناول ”آگ کا دریا“ شائع ہوا۔ اس سے پہلے ان کے ناول ”میرے بھی صنم خانے“
اور ”سفینہ غم دل“ شائع ہوچکے تھے۔ مگر ”آگ کا دریا“ اُن کا نمائندہ ناول
ہے۔ آگ کا دریا بڑے کینوس کا ناول ہے جو گذشتہ چار ہزار سال کی تہذیبی،
سیاسی ، تاریخی اور معاشرتی زندگی کی عہد بہ عہد ابھرنے والی علامتوں سے
گزرتا ہوا عہد جدید تک آتا ہے۔ آگ کا دریا فنی اعتبار سے اُردو ناول نگاری
میں ایک نیا تجربہ تھا۔ اس ناول میں مصنفہ نے مغربی ناول کی تکنیک ”شعور کی
رو“ استعمال کی ہے۔
عبداللہ حسین اردو کے بڑے اہم ناول نگار ہیں وہ ”اداس نسلیں“ کے ذریعے
اچانک اردو ناول کے منظر پر ابھرے۔ اس ناول کا سیاسی اور سماجی پس منظر
انگریزی حکومت کے نوے سالوں پر محیط ہے۔ لیکن اس دور کے واقعات ناول کی بنت
میں پوری طرح سما نہیں سکے۔
ناول نگار نے ایسے موضوع کا انتخاب کیا جو بہت وسیع تھا۔ ناول کے آخر میں
قاری الجھاو کا شکار ہوجاتا ہے بلکہ میری رائے میں ناول نگار آخر میں خود
الجھاو کا شکار ہوجاتا ہے۔ کہانی پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑ جاتی ہے اور ناول
نگار جان چھڑانے کے چکر میں ہے۔
متماز مفتی کا ناول ”علی پور کا ایلی“ بھی اُردو کے اہم ناولوں میں شمار
ہوتا ہے۔ مفتی ہیت کے بجائے مواد پر زور دینے والے قلمکار ہیں۔ وہ اظہار
کیلئے ہیت کی توڑ پھوڑ اور اس سے انحراف سے گریز نہیں کرتے۔ زندگی کا کوئی
واضح نقطہ نظر ناول میں نظر نہیں آتا۔
محمد احسن فاروقی کا ناول ”شامِ اوودھ“ اُن کیلئے وجہ شہرت بنا۔ امراﺅ جان
ادا کے بعد یہ اُردو کا پہلا ناول ہے جس میں لکھنو ¿ کی مٹتی ہوئی تہذیب کی
عکاسی کی گئی ہے۔
فضل کریم فضلی کا ناول ”خونِ جگر ہونے تک“ سماجی حقائق کو غیر آرائشی اور
سادہ انداز میں سامنے لاتا ہے اس ناول کا پس منظر تقسیم سے قبل کا بنگال
ہے۔
حیات اللہ انصاری کے ناول ”لہو کے پھول“ میں اشتراکی نظریے کی فوقیت ثابت
کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ یہ ناول دراصل ترقی پسند تحریک کا منشور ہے۔
خدیجہ مستور کا ناول ”آنگن“ گھر کی کہانی ہے۔ اس ناول سے نظریہ پاکستان کے
بنیادی مباحث جنم لیتے ہیں۔
اس دور کے ایک اہم ناول نگار غلام اثقلین نقوی ہیں اُن کا ناول ”میراگاﺅں“
ایک بہت ہی مختلف قسم کا ناول ہے۔ بقول ڈاکٹر وزیر آغا ایسا ناول تو کبھی
کبھار تخلیق ہوتا ہے اور جب تخلیق ہوتا ہے تو اپنے عہد کا عظیم ناول قرار
دیا جاتا ہے۔
قدرت اللہ شہاب کا ناول ”یا خدا “ قیام پاکستان کے وقت ہونے والے فسادات کی
عکاسی کرتا ہے ناول کا موضوع اس دور کا عام موضوع ہے۔ ناول کے اندر کوئی
جدت اور ندرتِ خیال نہیں ہے بس ایک مظلوم عورت کی کہانی ہے جسے فسادات کے
مظالم نے بے حس کر رکھا ہے۔ شوکت صدیقی کا ناول ”خدا کی بستی“ ایک اہم ناول
ہے جس نے عام اور نچلے طبقے کی زندگی کے دو بھٹکے ہوئے نو عمر کرداروں کو
زندگی کے سفر میں دکھایا ہے۔ یہ ناول بڑی سفاک حقیقت نگاری، زبان اور
مکالمے کی کاٹ اور خارج کی عمدہ تصویر کشی کے باوجود ہمارے بعد کے ناولوں
کیلئے کوئی روایت نہیں چھوڑتا۔
ترقی پسند تحریک کے زیر اثر جس طبقاتی معاشرے کی نمائندگی کی گئی ہے اس کے
اثرات بعد کے ناول نگاروں میں بھی موجود ہیں۔ والدہ افضال علی، اے آر
خاتون، وحیدہ نسیم، الطاف فاطمہ، رضیہ بٹ، سلمی کنول اور بشری رحمن کے ہاں
بھی طبقاتی لشکارے نظر آتے ہیں۔
تاریخی ناول نگاری میں ربیس احمد جعفری کا ناول مجاہد، قیسی رام پوری کا
جون نسیم حجازی کا خاک و خون زیادہ نمایاں ہیں۔
مستنصر حسین تارڑ بیسویں صدی کے آخری ربع میں ایک اہم ناول نگار کے طور پر
اُبھرتے ہیں اُن کا ناول ”بہاو“ ایک تہذیب کے اُجڑنے کا منظر پیش کرتا ہے۔
معاصر تاریخ کو موضوع بنانے کے حوالے سے انتظار حسین کا ناول ”آگے سمندر
ہے“ خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس ناول میں کراچی کے فسادات کو انتہائی
فنکارانہ چابکدستی کے ساتھ موضوع بنایا گیا ہے۔ ان ناولوں کے علاوہ دستک نہ
دو (الطاف فاطمہ) تلاش بہاراں (جمیلہ ہاشمی) نگری نگری پھرا مسافر (عزیز
بٹ) باگھ (عبداللہ حسین) راجہ گدھ (بانو قدسیہ) بستی (انتظار حسین) محاصرہ
(انیس ناگی) خوشیوں کا باغ (انور سجاد) وغیرہ وہ ناول ہیں جن کی ابتد امراة
العروس سے ہوئی۔ آج اردو ناول جس کا بیج ڈپٹی نذیر احمد نے بویا تھا ایک
تنو مند درخت بن کر برگ و بار لاچکا ہے۔ چند ایک ناول نگاروں اور ناولوں کا
تذکرہ کیا ہے حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ آغاز سے لے کر اب تک ہزاروں ناول
منصہ شہود پر رونما ہوچکے ہیں۔ |