انتخابات 2013 میں نامور خواتین کی ناکامی

سلونی بخاری ، ڈاکٹر رخسانہ جبین، فرخ خان،غنوی بھٹو، عائلہ ملک، فوزیہ قصوری،ڈاکٹر یاسمین راشد، شمسہ علی ایڈووکیٹ ، رخسانہ بنگش، فرزانہ راجہ،مہرین انور راجہ،نرگس فیض ملک، بشریٰ اعتزازاحسن، ثمینہ گھرکی، یاسمین مصباح الرحمن ، شہناز وزیر علی، تنزیلہ عامر چیمہ ، دشکہ حیدر سید ، فرخ خان،جاویدہ خالد خان ، بشریٰ رحمن، ڈاکٹر ہاجرہ طارق عزیزنگہت آغا نوشین سعید،کوثر فردوس ،کشمالہ طارق، آسیہ اسحق سمیت متعدد ممتاز خواتین قومی اسمبلی تک پہنچنے کی آرزو حسرت میں تبدیل

پاکستانی سیاست میں خواتین ہمیشہ آگے آگے رہی ہیں۔ تحریک پاکستان میں بھ ان خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، قائد اعظم کے شانہ بشانہ محترمہ فاطمہ جناح، لیاقت علی خان کے ساتھ ، رعنا لیاقت، ذوالفقارعلی بھٹو کے ساتھ بیگم نصرت بھٹو، اور سب سے بڑھ کر محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستانی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔

گزشتہ چند برسوں سے پاکستانی سیاست میں نیا رجحان یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ خواتین سیاسی عمل میں سرگرم نظر آ رہی ہیں، پاکستان کے انتخابات میں جہاں سیاسی جماعتوں کی جانب سے مرد امیدواروں نے حصہ لیا وہیں خواتین امیدوار بھی کسی سے پیچھے نہیں رہیں۔گزشتہ چند برسوں کے دوران سیاست میں خواتین کی شرکت کے حوالے سے ایک مثبت رجحان نظر آ رہا ہے، جس سے سیاسی جماعتیں بھی فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ کئی سیاسی جماعتوں کے پاس چند ایک مضبوط خواتین امیدوار تھی، جو رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں‘۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 516 خواتین نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں جنرل سیٹوں پر حصہ لے کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ خواتین کے قومی کمیشن کی چیئرپرسن خاور ممتاز کے مطابق قومی اسمبلی کی نشستوں کے لئے 161 خواتین میدان میں نکلی ۔ ان میں سے 66 خواتین نے مختلف پارٹیوں کی جانب سے اور 95 خواتین آزاد امید وار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا۔ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں حصہ لینے والی خواتین امیدواروں کی تعداد 355 تھی۔ان میں پیپلز پارٹی کی خواتین امیدواروں کی تعداد 15 ، مسلم لیگ ن اور متحدہ قومی موومنٹ 8 - 8 خواتین امید وار،اور تحریک انصاف کی 6 خواتین امید وار، مسلم لیگ عوامی کی 3 اور مسلم لیگ ق کی دو خواتین امیدوار میدان میں تھیں۔لیکن ان انتخابات میں جہاں بہت سے نامور سیاست دان شکست کھا گئے۔ وہاں خواتین کو بھی بری طرح پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔

11 مئی کے عام انتخابات کے غیر حتمی نتائج سامنے آنے کے بعد 14 خواتین نے انتخابات 2013 میں اپنی دھاک بٹھا لی ہے۔ قومی اسمبلی کے لیے 5 خواتین، جبکہ صوبائی اسمبلیوں کے لیے 9 خواتین امیدواروں نے الیکشن میں عام نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق عام انتخابات 2013 کے لیے 516 خواتین نے اپنی قسمت آزمائی جس میں 161 خواتین نے قومی اسمبلی اور 355 خواتین صوبائی اسمبلی کی رکنیت کیلئے الیکشن کا حصہ رہیں۔پاکستان کی قومی اسمبلی کے لیے کامیاب خواتین امیدواروں میں مسلم لیگ(ن) کی 3 خواتین اور پاکستان کی سابقہ حکمران جماعت پیپلزپارٹی کی 2 خواتین نے قومی اسمبلی کی سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔مسلم لیگ (ن) کی سمیرا ملک نے حلقہ این اے 69 خوشاب سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار عمیر اسلم خان کو شکست دے کر قومی اسمبلی کی نشست اپنے نام کی، سمیرا ملک نواب کالا باغ کی نواسی ہیں، جو مسلسل تیسری بار کامیاب ہوئی ہیں۔ لیکن پارٹی بدل بدل کر۔دوسری کامیاب خاتون امیدوار (ن) لیگ کی غلام بی بی بھروانہ ہیں جنھوں نے حلقہ این اے 88 چنیوٹ سے آزاد امیدوار مخدوم اسد حیات کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی۔تیسری سائرہ افضل تارڑ ہیں جو سابق صدر رفیق تارڑ کی بیٹی ہیں۔ سائرہ افضل نے این سے 102 سے آزاد امیدوار شوکت علی بھٹی کو مات دی۔پیپلزپارٹی کی کامیاب خاتون امیدواروں میں سابق اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا نے این اے 225 بدین مسلم لیگ فنکشنل کی خاتون امیدوار یاسمین شاہ کو شکست دیکر کامیابی اپنے نام کی جبکہ پیپلزپارٹی کی رہنما اور صدر آصف زرداری کی بہن فریال تالپور نے حلقہ این اے 207 لاڑکانہ سے غنوی بھٹو کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی۔صوبائی اسمبلیوں میں کامیاب ہونے والے خواتین امیدوار میں
پنجاب اسمبلی کے لیے منتخب ہونے والی (ن) لیگ کی امیدوار نادیہ عزیز نے سرگودھا کے حلقہ پی پی 34 سے کامیابی حاصل کی جب کہ دوسری خاتون رکن اسمبلی عفت معراج ہیں جنھوں نے پی پی 53 سے نشست جیتی۔ مسلم لیگ (ن) کی نازیہ راحیل نے پی پی 88 سے صوبائی اسمبلی کی سیٹ جیتی اور اسی جماعت کی ثمینہ نور نے پی پی 185 اوکاڑہ اور نغمہ مشتاق نے پی پی 206 ملتان سے کامیابی حاصل کی۔محترمہ ریاض امانت نے حلقہ پی پی 101 گوجرانوالہ سے کامیابی حاصل کی۔ دوسری جانب راشدہ یعقوب نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے حلقہ پی پی 78 جھنگ سے پنجاب اسمبلی کے لیے نشست جیتی۔سندھ اسمبلی کے لیے منتخب ہونے والی خاتون رکن اسمبلی میں پیپلزپارٹی کی پروین عزیز نے حلقہ پی ایس 76 دادو سے جب کہ ثانیہ خان نے حلقہ پی ایس 109 کراچی سے صوبائی اسمبلی کی نشست اپنے نام کی۔تاہم بلوچستان اور خیبر پختونخوا اسمبلی کی رکنیت کے لیے کوئی خاتون امیدوار کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ خواتین کی موجودہ تعداد اس سے کم ہے جو گذشتہ انتخابات میں کامیاب ہوئی تھی۔ 2008 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے 16 خواتین جب کہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے 10 خواتین منتخب ہوئیں تھیں۔ دوسری جانب اس الیکشن میں بہت سی خواتین کو ناکامی سے بھی دوچار ہونا پڑا۔ خواتین کی سب سے زیادہ ناکامی پنجاب میں ہوئی، جہاں مسلم لیگ ن کی زبردست کامیابی کے بعد دیگر پارٹیوںکے شعبہ ہائے خواتین کی مرکزی وصوبائی صدور سمیت بہت سی نامور خواتین امیدواران قومی اسمبلی تک پہنچنے سے محروم ہوئی۔ ان میںپیپلز پارٹی پنجاب شعبہ خواتین کی صدر بیلم حسنین ، تحریک انصاف شعبہ خواتین پنجاب کی صدر سلونی بخاری ،جماعت اسلامی شعبہ خواتین کی مرکزی صدر ڈاکٹر رخسانہ جبین، مسلم لیگ ق شعبہ خواتین کی مرکزی صدر فرخ خان، تحریک انصاف کی عائلہ ملک،شعبہ خواتین کی سابق مرکزی صدر فوزیہ قصوری،حلقہ این اے 120سے نواز شریف کیخلاف براہ راست الیکشن لڑنے والی ڈاکٹر یاسمین راشد، اور جنرل سیکرٹری شمسہ علی ایڈووکیٹ ودیگر کابھی قومی اسمبلی تک پہنچنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔ صدر زرداری کی پولیٹیکل سیکرٹری رخسانہ بنگش، بینظیرانکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن فرزانہ راجہ،مہرین انور راجہ،نرگس فیض ملک،این اے 126سے الیکشن براہ راست الیکشن لڑنے والی بشریٰ اعتزازاحسن، سابق وفاقی وزیر اور پیپلز لاہور کی صدر ثمینہ گھرکی، یاسمین مصباح الرحمن ، سابق مشیر وزیراعظم شہناز وزیر علی سمیت کوئی خاتون رکن اسمبلی نہیں بن سکے گی جبکہ مسلم لیگ ق کے پنجاب سے2 نشستیں حاصل کرنے پر چوہدری خاندان کی تنزیلہ عامر چیمہ ،مرکزی سیکرٹری جنرل مشاہد حسین سید کی اہلیہ دشکہ حیدر سید ، شعبہ خواتین کی مرکزی صدر فرخ خان،جاویدہ خالد خان ،دومرتبہ رکن قومی اسمبلی رہنے والی کالم نگار بشریٰ رحمن، ڈاکٹر ہاجرہ طارق عزیزنگہت آغا نوشین سعیداورجماعت اسلامی کی سابق سینیٹر کوثر فردوس ، مسلم لیگ جے کی کشمالہ طارق، اے پی ایم ایل میں آسیہ اسحق سمیت متعدد ممتاز خواتین امیدواران کی قومی اسمبلی تک پہنچنے کی آرزو حسرت میں تبدیل ہوگئی ہے۔ اس بار انتخابات کئی حوالوں سے خطرات سے دوچار رہے۔ بم دھماکوں کے ساتھ ساتھ طالبان کے خوف، سماجی مشکلات اور انتظامیہ کی غیر ذمہ دارنہ روش کی وجہ سے بھی خواتین کی بڑی تعدا اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے سے محروم رہی۔

پاکستان کی 180 ملین کی آبادی میں سے37 ملین خواتین اور 48 ملین مردوں کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے۔ تاہم پاکستان کے متعدد علاقوں میں انتخابات کے دوران خواتین کے ووٹوں کا تناسب انتہائی کم رہتا ہے۔ ان میں شمالی مغربی صوبہ خیبر پختوانخوا، قبائلی علاقہ جات اور جنوب مغربی صوبہ بلوچستان شامل ہیں۔ گیارہ مئی کے انتخابات میں بھی صورتحال اس سے مختلف نہیں رہی۔ فاٹا اور صوبہ سرحد میں کئی ایسے حلقہ جات تھے جہاں سیاسی جماعتوں کے درمیان باقاعدہ اس بات پر معاہدہ ہوا تھا کہ خواتین ووٹ نہیں ڈالیں گی۔ اس معاہدے کی خلاف ورزی پر پچاس لاکھ روپے جرمانہ تھا۔
2008ء میں ہونے والے انتخابات کے دوران پیشے کے اعتبار سے اسکول ٹیچر بادامی بیگم کی ڈیوٹی مردان کے ایک پولنگ اسٹیشن میں لگی ہوئی تھی۔ ا ±س وقت کو یاد کرتے ہوئے وہ بتاتی ہیں کہ ”قبائلی سرداروں کی جانب سے پابندی عائد کی گئی تھی، جس کی وجہ سے کسی خاتون نے پولنگ اسٹیشن کا رخ تک نہیں کیا اور ہم دن بھر انتظار کرتے رہے“۔ الیکشن انتظامیہ نے خواتین ووٹرز کے لیے ایک علیحدہ پولنگ اسٹیشن قائم کیا تھا تاہم اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بادامی بیگم کہتی ہیں کہ ”ہم نے شام کے وقت پولنگ اسٹیشن بند کیا اور غیراستعمال شدہ بیلٹ پیپرز اور خالی ڈبے الیکشن کمیشن کے دفتر پہنچا دیے“۔ 2008ء میں 76 خواتین نے انتخابات میں حصہ لیا تھا اور ان میں سے 16 اپنی نشستوں پر کامیاب ہوئی تھیں۔اعداد و شمار کے مطابق 2008ء میں ملک بھر میں خواتین کے لیے قائم کیے گئے 28 ہزار 8 سو پولنگ اسٹیشنز میں سے 564 ایسے تھے، جہاں ایک بھی ووٹ نہیں ڈالا گیا تھا۔ ان میں سے 55 فیصد خیبر پختوانخوا میں تھے۔ 2008ء میں 76 خواتین نے انتخابات میں حصہ لیا تھا اور ان میں سے 16 اپنی نشستوں پر کامیاب ہوئی تھیں۔ انتخابات سے قبل ووٹرز کا اندارج کرنے کے لیے حکام گھروں پر جاتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی لاکھوں خواتین کا اندارج نہیں ہو پاتا۔ خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم فرزانہ باری کے بقول 11 ملین اہل خواتین شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث انتخابی عمل میں حصہ نہیں لے پاتیں۔ اس کے علاوہ مذہبی وجوہات کی بناءپر بھی خواتین کو ووٹنگ سے دور رکھا جاتا ہے۔ متعدد مذہبی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ خواتین کا ووٹ ڈالنا غیر اسلامی ہے۔ ان دنوں لاہور ہائیکورٹ میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر انتخابات رکوانے کیلئے درخواست دائر کردی ہے۔ درخواستگزار طارق عزیز نے موقف اختیار کیا ہے کہ خواتین کی مخصوص نشستیں غیر آئینی ہیں لہٰذا عدالت ان پر الیکشن رکوانے کے احکامات جاری کرے۔ آئین کے مطابق خفیہ رائے شماری کے ذریعے نمائندوں کو منتخب کیا جاتا ہے۔ عدالت نے الیکشن کمشن سے 27مئی کو جواب طلب کیا ہے۔

گزشتہ چند برسوں سے پاکستانی سیاست میں نیا رجحان یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ خواتین سیاسی عمل میں سرگرم نظر آ رہی ہیں، حتیٰ کہ قدامت پسند قبائلی علاقوں میں بھی اب ایک خاتون بادام زری انتخابات میں امیدوار کے طور پراپنا فارم پر کیا۔ بادام زری گیارہ مئی کے انتخابات میں ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے شریک ہونا چاہتی تھی۔ اور اپنے قبائلی علاقے باجوڑ کی نمائندگی کرنا چاہتی تھی۔ افغان سرحد سے ملحقہ باجوڑ بد امنی کی لپیٹ میں رہا ہے اور طالبان اور القاعدہ جنگجوو ¿ں کی پناہ گاہ تصور کیا جاتا ہے۔ بادام زری کا یہ سفر خطرات سے بھرپور تھا۔ الیکشن مہم شروع ہونے فورا بعد ہی بادام ذری نے انتخابات سے دستبردار ہونے کا اعلان کردیا تھا۔ صوبہ سرحد میں ایک خاتون امیدوار پر خودکش حمل ہوا تھا۔ جس کے بعد انھوں نے انتخابات سے علیحدگی اختیار کی تھی۔ انتخابات میں امیدوار کے طور پر شرکت کی خواہاں خواتین پشاور میں الیکشن کمیشن کے سامنے بھی پیش ہوئی ۔ کچھ عرصہ قبل اقتصادی فورم کی ایک رپورٹ میں اس بات کا جائزہ لیا گیا تھا ۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ آبادی کے تناسب سے برطانیہ یا امریکا کے مقابلے میں پاکستانی پارلیمان میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ سائنس اور ثقافت کی جرمن فاو ¿نڈیشن سے وابستہ کرسٹیان واگنر کے مطابق ’پاکستانی سیاست میں خواتین کا مسئلہ ویسے ہی حل طلب ہے، جیسے کہ کئی دیگر ملکوں میں بھی ہے‘۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران سیاست میں خواتین کی شرکت کے حوالے سے ایک مثبت رجحان بھی سامنے آیا ہے۔ پاکستانی کی قومی اسمبلی کی 342 نشستوں میں سے اصولاً 60 نشستیں خواتین کے لیے مخصوص ہیں۔ جرمنی کی ہائنرش بوئل فاؤنڈیشن کے اسلام آباد دفتر کی انچارج خاتون بریٹا پیٹرسن کے مطابق ’پارلیمان میں تو خواتین کے لیے کوٹہ مخصوص ہے لیکن خود سیاسی جماعتوں کے اندر ایسا کوئی کوٹہ نہیں ہے‘۔گزشتہ پانچ سال برسرِاقتدار رہنے والی حکومت نے بہت سے خواتین دوست قوانین متعارف کروائے۔ مزید برآں تمام سیاسی جماعتوں کی خواتین نے خواتین کا ایک پارلیمانی گروپ بھی تشکیل دیا، جہاں خواتین کی دلچسپی کے امور پر تبادلہء خیال کیا جاتا رہا ہے۔

مغربی مبصرین کہتے ہیں کہ پاکستانی سیاست پر جاگیردارانہ چھاپ نظر آتی ہے اور پارلیمان پر چند ایک طاقتور اور دولت مند خاندانوں ہی کا غلبہ ہے۔ یہی بات پاکستانی سیاست میں موجود خواتین کے حوالے سے بھی کہی جا سکتی ہے۔قومی اسمبلی میں یا پھر بڑی سیاسی جماعتوں کے سرکردہ عہدوں پر موجود زیادہ تر خواتین کا تعلق طویل سیاسی روایات کے حامل خاندانوں سے ہے۔“ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ چھوٹی جماعتوں میں بھی، جو متوسط طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں، اب زیادہ سے زیادہ خواتین نظر آنے لگی ہیں۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ تعلیم و تربیت کی کمی اور سماجی روایات خواتین کے سیاسی کیریئر کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ پاکستانی خواتین میں خواندگی کی شرح محض تقریباً چالیس فیصد بتائی جاتی ہے۔ اس کے باوجود گزشتہ برسوں کے دوران پاکستانی خواتین نے زبردست حوصلے سے کام لیا ہے۔خواتین کے حوالے سے پاکستان میں تبدیلی کا عمل سست رفتار لیکن مستقل ہے۔ خواتین سیاست میں کافی زیادہ سرگرم ہیں۔ مئی گیارہ کے انتخابات کے لیے پارٹی ٹکٹ تقسیم کیے جاچکے، جس سے واضح ہے کہ سیاسی جماعتیں جن کی حمکتِ عملی میں خواتین کے ووٹ تو اہمیت کے حامل ہیں تاہم جنرل نشستوں پر ان کی نامزدگی پر کافی غور سے احتراز برتا گیا۔قومی اسمبلی کی دو سو تھہتر عام نشستوں، بشمول خواتین کی مخصوص چھتیس نشستوں پر، امیدواروں کی فہرست میں خواتین امیدواروں کی تعداد کم تھی۔ مذہبی جماعتوں، میں سے جے یو آئی۔ ف نے تو خواتین کو اہل امیدوار کے طو پر مکمل نظر انداز کیا ۔ مرکزی دھارے میں شامل سیاسی جماعتوں سے تو بہتری کی امید تھی۔ وہ بھی پوری نہ ہوسکی۔ پاکستان پیپلزپاٹی نے عام نشستوں پر گیارہ خواتین امیدواروں کو نامزد کیا ہے، سن دو ہزار آٹھ کے مقابلے میں اس بار چار خواتین امیدوار کم نامزد کی گئی ہیں۔ایم کیو ایم نے عام نشستوں کے لیے سات خواتین امیدواروں کو ٹکٹ دیے ہیں، جو کہ گذشتہ دو انتخابات کے مقابلے میں ذرا سا ہی زیادہ ہے۔ اے این پی کے ٹکٹ پر دو خواتین امیدوار عام نشستوں پر امیدوار ہوں گی۔پاکستان مسلم لیگ نے سات خواتین کو نامزد کیا ہے،ان کی ماضی کی کارکردگی کے مقابلے میں، بمشکل ہی بہتر کہا جاسکتا ہے۔اگرچہ مجموعی لحاظ سے اس بار پاکستان مسلم لیگ۔ ق کے ٹکٹ پر گنے چ ±نے امیدواروں نے ہی کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے تھے۔ تاہم اس بار ان کی کار کردگی بہت نیچے تھی۔ ۔گذشتہ انتخابات میں ق لیگ کے ٹکٹ پر آٹھ خواتین انتخابی میدان میں تھیں، اس بار صرف چار خواتین عام نشستوں پر امیدوار ہیں۔پاکستان تحریکِ انصاف جو ‘تبدیلی’ کا نعرہ لے کر انتخابات کے میدان میں اتری ہے، اس نے مجموع طور پر دو سو ستائیس امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دیے ہیں تاہم ان میں صرف پانچ خواتین شامل ہیں۔اب اس شرح کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ملک میں عوامی نمائندگی کے اعلیٰ ترین ایوان میں خواتین کی نمائندگی علامتی ہی رہتی۔ مشرف دور میں سن دو ہزار دو میں حکومت نے قومی اسمبلی میں خواتین کے لیے ساٹھ نشستوں کا کوٹہ مختص کیا تھا۔ گذشتہ پانچ سالہ جمہوری دور متعدد خامیوں کا بھی حامل رہا تاہم اس دوران خواتین کے حوالے سے قابلِ غور قانون سازی کی گئیں۔ یہ ایک اہم قدم تھا جس کا مقصد سماجی سطح پر خواتین کے مرتبے میں اضافہ کرنا ہے۔گذشتہ قومی اسمبلی میں ارکان کی کارکردگی کے حوالے سے اعداد وشمار پر مشتمل حقائق بیان کرتے ہیں کہ مرد ارکان کے مقابلے میں، خواتین ارکانِ اسمبلی نے پارلیمانی امور اور قانون سازی میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔خطرات سے ہچکچانے کی قدامت پسند سوچ کے برعکس، ہونا تو یہ چاہیےکہ خواتین ارکانِ قانون ساز نے جس عمدہ پارلیمانی کارکردگی کامظاہرہ کیا، اس کے پیشِ نظر سیاسی جماعتوں کو عام نشستوں پر زیادہ خواتین امیدواروں کو نامزد کرنا چاہیے تھا۔م ±لک کے بعض نہایت پسماندہ حصوں میں کچھ خواتین نے اس طے شدہ ذہنیت کو چیلنج کیا اور وہ آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ بھی لیا ۔ لیکن ان کی پذیرائی نہیں ہوئی۔ یہ امر بھی افسوسناک ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں نے اس ہمت و جرات کا مظاہرہ نہیں کیا۔تاریخ کے اس اہم موڑ پر، انتقالِ اقتدار میں خواتین منتخب نمائندوں کو شامل کرنے کے بجائے انہیں ایک طرف کھڑا کردیا گیا ہے۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین دو گنا زیادہ کام کرتی ہیں لیکن انہیں بمشکل ہی آدھا کریڈٹ مل پایا۔جائزوں سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ خواتین ارکانِ قانون ساز حاضری کے لحاظ سے اپنے مرد ساتھیوں پر سبقت لے گئیں، پارلیمنٹ میں کہ جہاں قانون سازی کی جاتی ہے۔ خواتین کی حاضری کی شرح بہت بہتر تھی۔ دوسری جانب مخصوص نشستوں کے ذریعے اسمبلیوں میں خواتین کی (قابلِ ذکر) نمائندگی یقینی بنانے کی کوشش کی گئی جہاں ان کی تعداد پہلے بہت ہی کم تھی۔اس کے باوجود کہ خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کا نظام غیر متنازع ہے تاہم بلواسطہ انتخاب، براہ راست طریقے سے عام نشست پر منتخب ہونے کا متبادل نہیں۔ یہ تصور بھی کیا جاتا ہے کہ مخصوص نشستوں پر منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچنے والی خواتین دوسرے درجے کی قانون ساز ہیں، اور اس رویے کا سامنا انہیں اپنے مرد قانون ساز ساتھیوں کی طرف سے بھی کرنا پڑتا ہے۔پچھلی قومی اسمبلی میں خواتین بائیس فیصد پر مشتمل تھیں، یہ جنوبی ایشیا میں نیپال کے بعد سب سے زیادہ شرح ہے۔ نیپال میں قانون ساز اسمبلی میں خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کی تعداد ساٹھ فیصد ہے۔گذشتہ عام انتخابات میں براہ راست حصہ لے کر منتخب ہونے والی خواتین کی تعداد صرف پندرہ تھی، جن میں سے تقریباً تمام ہی معروف سیاسی گھرانوں سے تھیں۔سیاست میں خواتین کو حقیقی معنوں میں صرف اسی صورت بااختیاربنایا جاسکتا ہے کہ جب انہیں عوام کی عدالت کا براہ راست سامنا کرنے دیا جائے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387730 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More