لانگ مارچ کے بعد طاہر القادری
کا دھرنا ان سطور کی تحریر تک جاری ہے ،بلوچستان حکومت کی بر طرفی ،وزیر
اعظم کی گرفتاری کا آرڈر،چیرمین ِنیب کا استعفاء ،صدر کی دبئی روانگی اور
عر ب اسپرنگ کی آمد جیسے کچھ واقعات اور کچھ افواہیں بعض مبصرین کے یہاں اس
تحریک کے برگ وبارہیں ،’’سیاست نہیں․․․ ریاست بچاؤ‘‘ نعرہ اب معنی خیزلگتا
ہے ،مسلّح افواج کے عسکری ڈاکٹر ائن میں تبدیلی ’’ بیرونی نہیں اندرونی
خطرات‘‘ اس کی واضح غمازی کرتے ہیں ، جمہوریت ہر باشعور شہری کو عزیزتر ہے
،اس کے لئے بے پناہ قربانیاں بھی دی گئی ہیں ، جدید دنیا کے ساتھ ہم آہنگی
کیلئے منتخب ادارے لازمی ہیں، ہمارے آس پاس جن ملکوں میں آمریت یا آمریت
نما جمہوریت ہے،وہ بھی دسیوں ہزار جانوں کو قربانی کرکے اپنے خودسر
حکمرانوں اور ان کی انداز حکمرانی سے جان چھڑانا چاہتے ہیں ،ایسے میں ہمارے
یہاں شیڈوپارلیمنٹ ،ٹیکنو کریٹس، قومی حکومت یا بالفاظ صریحانہ فوجی
حکمرانی کی طرف نگاہیں آخر کیوں اٹھتی ہیں ؟
آپ خودہی اپنی اداؤں پہ ذرہ غور کریں
ہم اگر عرض کرینگے توشکایت ہوگی
حالات کے جبرمیں آکر جب کسی صوبائی جمہوری حکومت کو برخاست کر نے کے علاوہ
آپ کے پاس کوئی چارہ نہ ہو، توکیا اسی کو مرکز برخاستگی کے لئے کوئی طالع
آزماجواز نہیں بنا سکتا؟ لاشوں کے انبار وہاں کب سے لگ رہے تھے ، کیا یہ
دگرگوں حالات کسی سے پوشیدہ تھے، کیا ہر کسی کو اپنا دکھ درد محسوس کرانے
کے لئے اپنے پیاروں کی محترم لاشیں لے کر بچوں ،بوڑھوں اور خواتین سمیت کئی
کئی دن رات گرمی سردی کا پرواہ کئے بغیر سڑکوں پے دھرنے دینے ہوں گے ؟
ملک کے سربراہ کاذاتی سیکورٹی چیف جب بھرے بازار میں کسی ٹھیلے والے پر
فائر نگ کرے پھروہ ہسپتال بھاگ کر بے چارے مریضوں میں جاگھسے ،اب اگر کوئی
شقی القلب اس’’ معصوم ‘‘کو وہیں جاکر ڈھیر کردے تورونا کس کا رویاجائے ؟ملک
کے سب سے بڑے صوبے کا گورنر تک کو ملک کے کیپیٹل ہی میں علی رؤس الاشہاد
گولیوں سے چھلنے کردیا جائے ، اور ان کے غمزدہ صاحبزادے کو طویل مدت تک
اغواکیاجائے ، دونوں دلخراش واقعات پر حکمرانوں کے کانوں پر جوں بھی نہ
رینگے ،توایک عام شہری کس سے توقع رکھے ؟
قومی وصوبائی وزراء ، زعماء ، سیاسی قائدین کے علاوہ فوجی وینم فوجی دستے
علماء اور صحافتی برداری آئے دن خون میں میں لت پت ہوں ، ان کی لاشیں بکھری
پڑی ہوں اور وزارت داخلہ پر سپریم کورٹ پاکستان کی طرف سے باربار نا اہل
شدہ براجمان مسخرے دانت دکھاتے ہوئے مزاحیہ انداز میں صرف اتنا کہہ دے کہ
یہ ’’ظالمان‘‘ کی کارراوئی ہے ،تو نذیر بھٹی ، بشیر بلور، موسی خانخیل ،
ولی بابر اور مولانا رفیق الخلیل جیسوں کے پسماندگاں کہاں جائے ؟
جس ملک سے امریکی اپنے وہ دہشت گرد شہری جن کا جرم روز روشن کی طرح عیاں
ہو، ڈنکے کے چوٹ پر حکام بالاسے ساز باز کرکے لے جائے ، اور اس ملک کی اپنی
بیٹی آمرانہ دور کے زمانے سے بے ثبوت گناہ کے جرم میں المناک وکربناک حالت
میں قید زنداں کے سپرد ہو ، اس کے بچے تترّ بتّر اور نامعلوم کردیے گئے ہوں
، ان کی کوئی شنوائی نہ ہو ، انہیں ایسی جمہوریت یا آمریت سے کیا غرض ؟
ملک کے ایک حصے کشمیر میں کنٹرول لائن پر فورسز دشمن کے نشانے پرہو ں،
دوسرے حصے گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ آگ بھڑک رہی ہو، تیسرے حصے خیبر
پختون خوا میں لاکھوں لوگوں کو پناہ گزین بناکر بھی دہشت گرد ی جوں کی توں
ہو ، ایک جانب ڈرون حملوں میں ملکی خود مختاری داؤپے لگی ہو ، تودوسری طرف
معصوم جانیں بے رحمانہ وبے دریغ آہن آتش کی زد پر ہوں ، باپردہ خواتین اور
ناتواں بچوں کی خون میں رنگین اور اعضاء بریدہ لاشیں سوشل میڈیا میں آئے دن
دکھائی جارہی ہوں ،اوپر سے مقامی فورسز کے آپریشن پرآپریشن ہو ں اور مزید
علاقوں میں اسکی آوازیں ہوں ، انہیں آپ کی سلطانی ٔجمہور سے کیا فائدہ ؟
چوتھے حصے میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہوں ، تعصب کی بنیاد پر وہاں سوسو
لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہوں ، ایرانی زائرین کی بسوں کے پر خچے اڑتے
ہیں ،وھاں آپ کے نعرے ’’جمہوریت بہترین انتقام ‘‘ کا کیامعنی ؟
پانچویں حصے میں شریک ِاقتدار پارٹی کے وزراء ہٹ لسٹ پر ہوں، بعض شھید بھی
ہوچکے ہوں ، ان کے نوجوانوں کی لاشوں کواٹھااٹھا کر ان کی مائیں اور بہنیں
تھک چکی ہوں ، خونی ، لسانی ، اور تفرقہ بازی کا بازار وہاں گرم ہو ، کیا
سندھی، کیا مہاجر ، کیاپٹھان ، کیا بلوچ سب ہی اس آگ کی لپیٹ میں ہوں ،
حکمرانوں کے پاس اس کا کوئی پائیدار حل نہ ہو، پھرایسے جمہوری حکمراں کس
کام کے ؟
پنجاب میں جان سے مارنے کا اگر مسئلہ نہ بھی ہو ، تو جہاں بجلی نہ ہو، گیس
نہ ہو، پانی نہ ہو،جسکی وجہ سے بچے صبح ہاتھ منہ دھوئے بغیرچہرے اترے ہوئے
اور بال بکھرے ہوے بے استری لباس میں سکولوں کو رواں دواں ہوں ، روزگارنہ
ہو، کارخانے بند ہوں ، ہسپتالوں میں ہڑتالیں ہوں ، تعلیم گاہوں میں تعلیم
نہ ہوں اور لیپ ٹاپ کے حقائق جعلی ہوں ، رقوم عوام پر خرچ کرنے کے بجائے
اسراف کی حد تک سڑکوں اور چوراہوں کی نذر ہوں ، جہاں حکمراں محلات اور عوام
جھونپڑں میں ہوں ، ضدی ہوں ، منتقم مزاج ہوں ، مرکز گریزاں ہوں ،رعونت پسند
ہوں ، ماضی کو بھول چکے ہوں ، نام کے خادم اعلی ہوں ، اپنے زعم میں وہ’’انا
ربکم ا لاعلی ‘‘ کے مصداق ہوں ، مستزادیہ کہ ان کا گورنر کھو سہ ہوں جو
گیند مارے تو گیند آگے کو گرے یا نہ گرے وہ خود چاروں خانے چت ضرورگرے ،کیا
یہی مثالی جمہوریت ہے،یا نام نہاد جمہوری حکمرانوں کی ناکامی کی ایک مثال۔
جہاں ملک میں بار بار سیاستدانوں کی نا اہلی کو جواز بناکر مارشل لا لگائے
جاچکے ہوں، صدر اپنے بچوں کی عظیم ماں کے قاتلوں کو پانچ سال میں بھی پہچان
یاگرفتار نہ کرسکے ،وزیر اعظم صدر کے کرپشن کیس میں کورٹ سے تعاون نہ کرنے
پر بر طرف ہو، دوسرا نا مزد بھی ملزم ہو ، تیسرا نیب کو مطلوب ہو، وزیر
خارجہ بھاگ کر حزب اختلاف کی صفوں میں شامل ہو، وزیر داخلہ جمہوریت مارچ کر
نے والوں کو بچے سمجھ کر طالبان کو ’’ بَوْ ‘‘ بنا رہا ہو، خود سورۂ اخلاص
یاد نہ ہو اور علامہ کی ٹوپی لباس کا پتلی تماشہ بن کر مذاق اڑارہاہوں ،
سفراء بیرون ملک بیٹھ کر اپنے ہی ملکی اداروں کے خلاف سازشوں کے تانے بانے
بُن رہے ہوں ، جہاں سب کے سب اہل اقتدار بھی اور اہل اختلاف بھی ہوں ، کسی
حزب اختلاف کا کوئی پتہ جب چلتا ہو جب ان کے مخصوص مفادات کا اندیشہ ہو
،کراچی اور اسلام آباد جیسے شہروں تک میں بجلی ناپید ہو،سیاسی پارٹیوں میں
انتخابات ڈھونگ ہوں،بین الاقوامی صورت حال دگرگوں ہوں ، سر حدات غیر محفوظ
ہونے کی وجہ سے سلا لہ اور جندروٹ جیسے واقعات ہوں ،ہر بچہ ہیدائشی مقروض
ہو، ملکی کرنسی گررہی ہو، لیکن تجوریوں کے تلاطم میں اضافہ ہو، یہ ’’مشتے
از خروارے ‘‘ اور اس طرح کے بے شمار ناگفتہ بہ حالات ہوں ،تب بھی ہم تو
جمہوریت ہی چاہتے ہیں ، لیکن مکافاتِ عمل کے قانونِ فطرت کے تحت اوپر والے
ہاتفِ غیبی منادی کررہے ہیں :
بے چین تو زمیں پر ، مضطرب میں آسماں پر
تجھ کو بھی جستجو ہے ، مجھ کوبھی جستجو ہے |