کسی شاعرنے کہا ہے
یادوں کے پھول سوکھ نہ جائیں اسی لئے
آنکھوں کو اشک بار کیاہے کبھی کبھی
آج جس نابغہء روزگار ہستی کے ذکرِ مشک بارسے آنکھیں اشکبارکرنی ہیں وہ ہے
حضرت مفتی احمدالرحمن کی شخصیت۔
جامعہ دار العلوم کراچی کے مرکز امتحان کا جائزہ لے کر ہم جامعہ فاروقیہ
کراچی کی طرف آرہے تھے ،عظیم پورہ اورشرافی گوٹھ کے درمیان موجودہ عظیم
الشان پل سے پہلے کچا راستہ تھا ، جو گھنے جنگلات اور باغات میں گھر
اہواتھا ، دیہات کیطرح یہاں چھپر ہوٹل ،تازہ سبز یوں کی دکا نیں اور ٹھیلوں
پر تروتازہ قسم قسم کے پھل فروٹ اور میوے سجے سجائے گذرنے والوں کو اپنی
طرف راغب کر تے ، حضرت مفتی جمیل خان مرحوم کے پاس ان دنوں ایک ہائی روف
تھی ، وہ ڈرائیو نگ میں مصروف تھے ، راقم الحروف حضرت امام اہلسنت کے سا تھ
وفاق کے نا ظم اعلیٰ کی حیثیت سے امتحانات کے مختلف امور پر گفتگو کر
رہاتھا، جسمیں زیادہ تر نظم امتحان کے متعلق کا ر گذاری کا بیان تھا ، حضرت
ناظم اعلیٰ صاحب مر حوم نے اس دوران مفتی جمیل خان صاحب کو روکنے کا اشارہ
فرمایا اور مجھ سے فرما نے لگے : ولی خان وہ ٹھیلے والے کو دیکھو ، میں نے
کہا ،حضرت جی تازہ تازہ پھل ، فرمایا : بیر لے آؤ ،اور سنو اچھے خاصے لے آؤ
،گاڑی میں بھی رکھ لینگے ،آرام سے کھا ئینگے ، یہ مجھے بہت پسند ہیں ، میں
نے دوڑ کر ڈھیر سارے بیر لئے اور ہم کھاتے ہو ئے جامعہ فاروقیہ آگئے ، پھر
دیگر سینٹروں میں بھی گئے ،اور دوپہر کا کھا نا بنو ری ٹاؤن میں امتحانی
عملہ کے سا تھ ایک ہی دستر خوان پر بیٹھ کر تنا ول فرمایا ، خود تو زیادہ
نہیں لیتے تھے ، مگر خدام کو کبھی دستر خوان کی ایک طرف کبھی دوسری طرف
مہمانوں کی طرف بار بار متوجہ فرما رہے تھے ، امتحان کے حوالے سے ان سے گفت
وشنید بھی ہو رہی تھی ، آخر میں راقم، مفتی جمیل خان مرحوم اور مولانا
امداد اﷲ صاحب کو امتحان کے دنوں میں چوکس رہنے کی تلقین فرمائی اور گھر
تشریف لے گئے ۔
میں جب بھی ان کے پاس آتا ایسا لگتا تھا کہ کہیں دور دراز کے شہر سے آیا
ہوں ، بہت مفصل خیریت دریافت فرماتے ،شفقتوں سے نواز تے اور اپنا ئیت کا وہ
احساس دلاتے کہ جیسے لمبے عرصے کا مسافر بہت دنوں بعد اپنے گھر لوٹ آئے ،
حضرت شیخ صدر وفاق اور جامعہ فاروقیہ کے بارے میں بھی کئی بار پو چھتے ،اور
ہر بات پر سبحان اﷲ ، الحمد ﷲ ، ماشاء اﷲ ، کے الفاظ سے خوشی ومسرت کا
اظہار فرماتے ۔
یہ سب کچھ کیوں نہ ہوتا ،آخر وہ حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوری کے ایک
ہونہار اور لائق فائق فرزند تھے، اپنی ذات میں، ظاہر ی باطنی ، ،روحانی
جسمانی محاسن وکمالات کے جامع تھے ، قرآن وسنت کے دارس ،مدرس ، محقق ،
اورماہر تھے ،حضرت العلامۃ بنوری رحمۃ اﷲ علیہ کے جانشین اور جامعہ العلوم
الاسلامیہ ، بنوری ٹاؤن کی عظیم نسبتوں کے امین تھے ، علمأ کے سر مایہ
افتخار و اعتزاز وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ ،جمعیت علمائے
اسلام پاکستان کے سر پر ست دنیا بھر کے فضلائے بنوری ٹاؤن کی امیدوں کے
چراغ اور امام اہل سنت تھے ، علامہ بنوری قدس سرہ جب ا نہیں اپنا مسند نشین
مقرر فرماتے ہیں تو کیا کچھ رقمطراز ہیں ،ذرا ملاحظہ ہو :
’’ بسم اﷲ الرحمن الرحیم ، الحمد ﷲ وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی ،اما
بعد ، عرصہ دراز سے خیال تھا ،کہ مدرسہ عربیہ اسلامیہ کے مشاغل وخدمات روز
افزوں ہیں ، اور میری مصروفیت ، ضعف و پیر انہ سالی بھی روزافزوں ہے ۔
ضرورت تھی کہ ایسا شخص میرا نائب ہو ، جس میں حسب ذیل خصوصیات ہوں :
(۱) پختہ عالم ہو، تدریس اور طلبہ کا تجربہ رکھتا ہو (۲) علم کے ساتھ تدبر
اوراخلاص سے معمور ہو (۳) سنجیدہ ،حلیم اور بر دبار ہو ، شعلہ مزاجی اور
جلد بازی سے محفوظ ہو (۴) مدرسہ عربیہ اسلامیہ سے گروید گی اور شدید قلبی
تعلق ہو ،اپنی زندگی کا سب سے اہم مشغلہ مدرسہ عر بیہ اسلامیہ کی خدمات
سمجھتاہواور ہرکام پر مدرسہ عربیہ اسلامیہ کو تر جیح دیتا ہو ۔
کافی عر صہ غور و خوض کر کے اور تمام رفقائے کار کی صلاحیتوں کے ملاحظہ کے
بعد اس کام کے لئے موجودہ احوال میں برادرم عزیزم مولانا مفتی احمد الرحمن
صاحب خلف الرشید مر حوم حضرت عبد الرحمن کامل پوری ، صدر مدرس جامعہ مظاہر
العلوم سہار نپور رحمۃ اﷲ سے بہتر اور کو ئی نظر نہیں آیا ،اس لئے توکلا ً
علی اﷲ اس خدمت کے لئے موصوف کا انتخاب عمل میں لایاگیا۔ استخارہ اور مشورہ
کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا اور تمام اساتذہ کو اسکی اطلاع کر دی گئی ،الحمد ﷲ
سب نے اتفاق کیا اور خوشی ومسرت کا اظہار کیا ، نیز عزیز موصوف سے کہا گیا
کہ اپنی زندگی کومدرسہ عر بیہ اسلامیہ کی خدمت کے لئے وقف کر نی ہو گی اور
جمعیت علمائے اسلام پا کستان کی رکنیت سے استعفاء دینا ہوگا ، تاکہ مدرسہ
کے کسی ذمہ دار شخص کو سیاسی امور حاضرہ سے کو ئی تعلق فکری ، ذہنی اور
عملی نہ ہو ،اﷲ تعالی اس انتخاب کو مبارک کرے ۔
میری غیر موجودگی۔ حیاً ومیتاً ۔ میں میرے تمام تصرفات واختیارات ان کو
حاصل ہوں گے ،اور مدرسہ وغیرھا کے میری تمام چیک بکوں پر دستخط ان کو کر نے
ہو ں گے ، میرے اعزازی دو معاونین مولانا محمد اسمعیل بھام جی اور جناب
میرعالم خان لغاری کو بدستور محولہ فرائض انجام دینے ہوں گے ،البتہ ان
(مفتی صاحب)کا مشورہ لیتے رہینگے ، تمام اساتذہ کو اس کی اطلاع دی حاتی ہے
۔
محمد یوسف بنوری عفااﷲ عنہ ۲۵ ربیع الثانی ۱۳۹۶ھ /۲۶ اپریل ۱۹۷۶ء تایید
ودستخط کنندان : مفتی احمد الرحمن ، مولانا معاذ الرحمن ، مولانا رضاء الحق
، مولانامولی بخش ، مفتی محمد شاہد ، مولانا محمد یوسف، مفتی عبد اﷲ ،
مولانا محمد اسحاق سندیلوی ، مولانا عبد القیوم ، مولانا سید مصباح اﷲ شاہ
، مولانا محمد ادریس میرٹھی ، مولانا محمداسمعیل ، مولانا عبدالرزاق سکندر
، مولانا محمد داؤد، مولانا بدیع الزمان، قاری عبد الحق ، جناب میر عالم
خان لغاری ، مولانا عبدالحکیم ،قاری مفتاح اﷲ ، مولانا محمد انور بدخشانی ،
مولانا حبیب اﷲ مختار، مولانا محمد سواتی ، مولانا محمد ولی درویش ‘‘۔
اب آپ خودہی اندازہ لگا ئیے کہ حضرت بنوری صاحب قدس سرہ کا اعتماد وانتخاب
اور وہ بھی کن تاریخی اور سندی القاب والفاظ کے ساتھ ، پھر ذیل دستخطی
حضرات مشائخ کی کلی تایید وتاکید، کیا کسی عالم دین اور پیشوائے امت کیلئے
اپنے اکابر واسلاف اور معاصر ین ورفقائے کا ر عباقرہ علم کی اس سند اور
شہادۃ سے کوئی بڑا سر مایہ افتخار ممکن ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ انہیں جوانی
ہی میں امامت ، سیادت اور قیادت پر فائز کر دیاگیاتھا، لوگ فرزدق کا آنے
دالا مشہور شعر ہر جگہ منطبق کر تے نہیں تھکتے ،حالانکہ وہ اگر کہیں صحیح
معنوں میں کسی مقام یا شخصیت پر جچتاہے ،تو وہ یہی ہے : أولا ئک آبائی
فجئنی بمثلھم : اذا جمعتنا یا جریر المجامع
یہ ہیں میرے آباء واجداد ، پس لائیئے ان کی کوئی مثال برائے فخر ، جب ہم
قوم کے اجتماعات میں جمع ہوں ۔
نیز قصیدے میں تھوڑا سا آگے چل کر وہ جریر کو مزید چیلنج کرتے ہوئے کہتے
ہیں :
وأین الوجوہ الواضحات عشیۃ ۔۔ علی الباب ، والأیدی الطوال النوافع
ارے جریر تم کہاں سے لاؤگے وہ منور ، روشن ، مبارک ، اور مقدس چہرے جن کے
سخی ، نفع رساں اور خیرات و انعامات تقسیم کر نے والے ہاتھ شام کے اوقات
میں جب وہ دروازوں پر دراز ہوں ۔
حضرت مفتی احمد الرحمن مرحوم ومغفور نے اپنے شیخ کے مشن اور فکر ونظر کو
کتنا آگے بڑھایا اور اس میں کس حد تک کا میاب ہوئے ، یہ آپ جامعہ بنوری
ٹاؤن کی تاریخ سے واقف خواص وعوام سے پوچھ سکتے ہیں ، انہوں نے ایک ادارے
کو ایک ایسے تحریکی نیٹ ورک میں تبدیل کر دیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس ادارے
کی کئی شاخیں کراچی شہر ، ملک اور پورے عالم میں متعدد حوالوں سے آگے نکل
گئیں ، لیکن تمام کے تمام مرکز سے وابستہ وپیو ستہ ، کئی شاخوں کو مستقل
ادارے قرار دے کر وہاں کے منتظمین کو تر قی دے کربا لاستقلال مہتممین
بنادیا،اور کمال یہ ہے کہ اپنا دست تعاون کبھی بھی ان سے نہیں کھینچا، بلکہ
ان کی سر پرستی ومعاونت بالتسلسل تاحیات فرماتے رہے۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے حضرت صدر وفاق کے
ساتھ مل کر متوسطات کا نیا نظام ونصاب متعارف کر وایا ،سابق ناظم امتحانات
مفتی محمد انور شاہ صاحب سے مسلسل رابطہ اور مولانا امداد اﷲ کو اپنا معاون
بناکر شب وروز وفاق کی فعالیت، تنظیم اور تاثیر ودائرہ کار کو حکمت ، حسن ،
تدبیروتدبر ، اور انتھا ئی جانفشانی سے تر قی کی راہوں پر گامزن کیا ، انکی
آمد سے جہاں وفاق کو تقویت ملی وہاں صدر وفاق کی پر عزم اور ولولہ انگیز
قیادت کو مہمیز اور نصاب ونظام کے حوالو ں سے اعتماد ومساعدت میسر آئی، ان
کے دور نظامت علیا میں وفاق ہرلحاظ سے ایک مٹھی کی طرح متحد ، منظم، فعال
اور سر گرم عمل رہا جو آج بھی صدر وفاق کی دانش مندی حزم واحتیاط ، اکابر و
اصاغر کے اعتماد اور ان کی بے انتھاء بصیرت کی وجہ سے روبترقی ہے ۔
لیکن اس حقیقت کے تسلیم کر نے میں کو ئی دو رائے ممکن نہیں کہ نظامت
علیاپران کی طرح ہر لحاظ سے متفق علیہ شخصیت صرف ان ہی کی تھی ۔
ان کا سب سے بڑا وصف یہ تھا کہ میدان عمل میں رہ کر ، دین کے ہر شعبے میں
جوہر دکھا کر اور باطل کی سر کو بی اور شکست ور یخت کا ساماں کر کے بھی وہ
اہل حق اور علماء ربانیےن کے یہاں ہمیشہ کیلئے غیر متنا زع رہے ، ان کی ذات
، ان کے افکار ونظریات ، ان کے دائر ہ عمل کی سرگرمیوں اور نشاطات پر کہیں
سے بھی انگلی نہیں اٹھا ئی گئی ۔
انہوں نے انبیائے کر ام علیھم الصلاۃ والسلام کے نقش قدم پر چلتے ہو ئے
رجال کارکی تیاری پر خوب خوب توجہ دی، چنانچہ انہوں نے تلامذہ ، وابستگان
جامعہ اور ہر میدان کیلئے اپنی نظر ثاقب سے ایسے ایسے حضرات کا انتخاب
ونامزدگی فرمائی ، کہ رہتی دنیا ان کے علوم ومعارف ، جہود ومساعی اور فکر
ونظر سے تا قیامت مستفید ہو تی رہیگی ،اور امت ان کے نقش پا کو اپنی لئے
سنگ میل اور راھنما خطوط تصور کریگی۔
اداروں اور شعبوں پر ان کی ایسی دوررس نگاہ پڑ تی تھی ، کہ ذرہ ذرہ اشارے
سے وہ ادارے اور شعبے نئی زندگی اور حیات جا وداں پاتے تھے ، جامعہ بنوری
ٹاؤن آج اہل دیوبند وعلمائے حق اور پو ری امت کا ایک علمی قبلہ ہے ، تو اس
میں حضرت بنوری قدس سر ہ کے بعد بلاشبہ امام اہل سنت حضرت مفتی احمد الر
حمن صاحب نور اﷲ مر قدہ کا سب سے بڑا اور زرین کر دار ہے ۔
اپنے شیخ کے اعتماد پر پوراپورا اترنے اور وفاداری بشرط استواری کی وہ
لازوال مثال قائم کردی کہ تا قیامت ان کے پہلو ہی میں جاکر دم لیا۔
۔۔ ان کی حیات مستعار پر اردو ،عر بی اور انگریزی میں پی ایچ ڈی لیول کے
ایک ضخیم ااور مفصل مقالے کی ضرورت ہے ،اس حوالے سے ان کی خاندانی ، علا
قائی تاریخی پس منظر ، حصول تعلیم ، درس وتدریس ، اسفار و رحلات حضرت بنوری
کی جانشینی اور جامعہ کا اھتمام ، جمعیت علمائے اسلام کی اما رت ، وفاق
المدارس العربیہ پا کستان کی نظامت علیا، امامت وخطابت،مشیخت ِتصوف وسلوک ،
دینی تحریکات وتنظیمات کی سرپر ستی ، طلبہ ، اساتذہ اورعلماء کی تر بیت ،
عر بی اردو تقاریر ومحاضرات ، باطل کا علمی، عملی ، میدانی ، اور قلمی
تعاقب ، تحریرات و مقالات ، مدارس ومرا کز دینیہ کی تاسیس وقیام ، عالم
اسلام اور امت کیلئے ہمہ جہتی غم و فکر ، ملک وملت کیلئے خدمات ، مشاہیر کے
نام اور ان کی طرف سے ان کے نام مکاتیب ، عر بی کلاسوں کی تر ویج وتر قی
کیلئے منصوبہ بندی ، عر بی اردو اور فارسی ادب میں ان کی عبقریت و کمال ،
وسعت فکری ، اتحادامت ، رفاہی خد مات ، یکسوئی ، زہد وقناعت ۔قلندری میں
پادشاہی سفر آخرت ، علماء شعراء ، حکام اور میڈیا کا خراج عقیدت ، پس ماندہ
وپسماند گان جیسے عنوانات پر آسانی سے قلم اٹھایا جاسکتاہے۔تاکہ جن نوجوان
علمائے کرام نے انہیں دیکھا، ان سے شرف بار یابی حاصل نہ کر سکے، کم از کم
ان کی سیرت وکردار کو پڑھکر اس کی روشنی میں اپنے مستقبل کی راہیں متعین کر
سکیں، برادرم صاحبزادہ عزیز الرحمن رحمانی اور جامعہ بنوری ٹاؤن کے منتظمین
کو ﴿ھل جزاء الاحسان الاالاحسان ﴾مد نظر رکھکر جلد سے جلد اس کام پر توجہ
دینے کی ضرورت ہے ۔
حضرت مفتی صاحب کے حوالے سے مجھ جیسے ـطالب علم کے ان چند بے نظم کلمات
کامقصدفقط ان سے اپنی والہانہ عقیدت کااظہارہے ورنہ ان کی شخصیت ہماری مدح
سرائی سے بالاترہے کہ بقو ل عرب شاعرابونواس:
اذانحن اثنینا علیک بصالح
فانت کمانثنی وفوق الذی نثنی
جب کبھی ہم آپ کی مدح سرائی کرتے ہیں توآپ ایسے ہی ہوتے ہیں(جیسے ہم نے
کہا) اوراس سے کہیں بڑھ کر۔ |