اس دنیائے رنگ و بو میں زندگی اتنی شکلوں میں بکھری ہوئی
ہے کہ ان کا شمار بھی مشکل ہے لیکن ان تمام زندہ چیزوں میں انسان یوں بھی
افضل ہے کہ وہ اپنے جذبات و خیالات کے اظہار پر ہی قادر نہیں بلکہ نت نئے
طریقوں سے وہ اپنی صلاحیتوں کو نئے نئے اسالیب میں تبدیل کر کے پیش کرنے کا
ہنر بھی جانتا ہے۔
شاعری قوتِ اظہار کا ایک ایسا ہی موثر اسلوب ہے جس کی تاریخ حیاتِ انسانی
کی تاریخ سے کسی بھی طرح کم نہیں۔ہم سب اس سے بخوبی واقف ہیں کہ انسانی
زندگی کسی جامد شئے کا نام نہیں ہر دور میں زندگی نئے جوڑے زیبِ تن کرتی ہے
۔ہر عہد میں اس کی خواہشات کا آسمان نیا ہوتا ہے، اس کے تجربات نئے ہوتے
ہیں۔ اس کے کرب و الم نئے ہوتے ہیں، سکون و راحت کے وسیلے نئے ہوتے ہیں اس
کے فکری ٹرانسمیٹر کی فریکوینسی تبدیل ہو جاتی ہے۔ انسانی زندگی کے اس
بدلتے ہوئے منظر نامے پر گہری نظر رکھنے والے مخصوص عہد کے مخصوص ادیب و
شاعر جب اپنے افکار و تجربات کی روشنی میں اپنے رائج ادبی سرمائے کا جائزہ
لیتے ہیں اور ان میں گراں قدر تبدیلی کو نا گزیر جان کر غور و فکر کے بحرِ
بیکراں میں غوطہ زن ہوتے ہیں تو ادبی صورتِ حال میں ایک بڑی تبدیلی رونما
ہوتی ہے اسے کوئی جائز قرار دیتا ہے اور کوئی نا جائز لیکن بہر حال یہ
سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
شاعری وہ کلام ہے جسے بالارادہ موزوں کیا گیا ہو۔ وہ کلام بھی شاعری ہے جو
انبساط یا انقباضِ نفس کا باعث بنے۔ شاعری اس کلام کو بھی کہا گیا جو
جذباتِ انسانی کو بر انگیختہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ شاعری کو حسین جذبات
کے حسین اور مسرت انگیزاظہار سے بھی منسوب کیا گیا اور تخیل اور جذبے کے
امتزاج کو بھی شاعری کا ہی نام دیا گیا۔ شعر و شاعری سے متعلق یہ خیالات
یقیناً میرے نہیں بلکہ ان اکابرینِ ادب کے ہیں جنھوں نے زبان کی پود کو
خونِ جگر سے سینچ کر چھتنار درخت بنا دیا لیکن یہ سوال آج بھی قائم ہے کہ
آیا شاعری کی یہ تعریف مکمل ہے؟ یقیناً نہیں کیونکہ ادب میں کچھ بھی مکمل
نہیں ہوا کرتا اور شاعری تو یقیناً ایک ایسی دلربا مخلوقِ ادب ہے جسے کسی
مخصوص تعریف کی زنجیر میں جکڑنا امرِ محال ہے۔ شاعری ابتدائے آفرینش سے ہر
دور میں انسان کی رفیقِ راز بھی رہی ہے اور رفیقِ کار بھی لیکن ہر عہد میں
اس نے اپنی شکل بھی بدلی ہے اور مزاج بھی کمال تو یہ ہے کہ ہر عہد میں جب
یہ اپنا نیا لباس زیب تن کرتی ہے تو اس کے وجود پر سوالات کھڑے کیے جاتے
ہیں۔ اس کے پرستار ہی اسے قابل اعتنا سمجھنے کے روادار نہیں ہوتے اسے
آزمانے کے نئے نئے طریقے ایجاد کیے جاتے ہیں اور بالآخر پرانی کھیپ لد جاتی
ہے اور نئی نسل نئے طریقۂ اظہار کے توسط سے اسے تاریخ ادب کا حصّہ بنا دیتی
ہے ہمعصر شعرا فی الحال اردو دنیا میں اسی تشکیک و تنبیہ کے تیر سے زخمی ہو
رہے ہیں لیکن یہ سب ایک فطری طریقۂ تہذیبِ ادب ہے جس سے جہاں ایک طرف
نوواردانِ تخلیق کی لا سمتی کو نشانِ سمت کا ادراک ہوتا ہے وہیں تخلیق میں
بوجوہ داخل ہو گیا فاسد مادّہ خارج ہو کر اسے پاکیزہ بنا دیتا ہے۔ شاید
موضوع کے مطابق میری بات یہاں مکمل ہو گئی کیونکہ ہمعصر شاعری کا میں شاکی
نہیں ہوں لیکن کچھ وضاحتیں ابھی باقی ہیں۔
ہمعصر اردو شاعری کے بارے میں یہ خیال باندھنا کہ یہ تعطّل کا شکار ہے
بزرگانہ خیال ہو سکتا ہے۔ ہمعصر شعرا کی ایک کھیپ بھی اس بات کی تائید کرے
گی لیکن اگر آپ اعداد و شمار جمع کریں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ یہ وہ
لوگ ہیں جو ہمارے عہد میں شاعری تو کر رہے ہیں لیکن ان کا راست تعلق
1950-60اور1970کے دہے میں ان بزرگوں سے رہا ہے جنھوں نے ہم سے بدرجہا بہتر
ادبی ماحول میں آنکھیں کھولیں اور اپنی راست بصارت و سماعت سے کئی تحریکات
کے دھول دھپّے سنے اور دیکھے۔ انھوں نے اساتذۂ فنِّ شعر کی قدمبوسی کی اپنے
اشعار کو اپنے اساتذہ سے صیقل کروائے لیکن افسوس کہ وہ بجائے اس کے کہ
ہمارے اشعار کی خامیوں کو خوبیوں سے مبدّل کرتے ، ہمارے لیے وہ ماحول فراہم
کرتے جس کے وہ پروردہ رہے ہیں ہماری پوری شاعری کو القط قرار دینے کے درپے
ہیں۔ کیا یہ ایک اہم سوال نہیں کہ جن لوگوں کی نظر میں ہمعصر شاعری جمود و
تعطل کا شکار ہے ان لوگوں نے بھی اپنے دور میں لکیر پیٹنے سے اجتناب کیا
تھا اور نتیجتاً انھیں لعنت ملامت کے تیر کھانے پڑے تھے۔ ہمعصر شعرا بھی
لکیر پیٹنے سے اجتناب کیا تھا اور نتیجتاً انھیں لعنت ملامت کے تیر کھانے
پڑے تھے۔ ہمعصر شعرا بھی لکیر پیٹنے کے قائل نہیں یہاں تک کہ وہ تحریکات کے
بنے بنائے گھروندوں کے بھی قائل نہیں وہ اپنی آنکھیں کھلی رکھتے ہیں جو اب
پہلے سے زیادہ تابناک ہیں کیونکہ اب شعرا ہندوستان میں بیٹھ کر فلسطین
وعراق ہی نہیں بمریکہ اور اسرائیل کی خبریں ہی نہیں سنتے خبوروں کو بنتے
ہوئے دیکھتے ہیں۔ یقیناً کسی بھی دور کا ادب اپنے سے پیشتر کے ادبی اقدار
سے بے تعلق نہیں رہ سکتا ہمعصر شاعری بھی روایت کی قائل ہے لیکن اندھی
تقلید نہیں کرتی۔ حال اور ماضی کے مربوط رشتے کی زائیدہ بالکل نئی نسل کے
اس شعری دستخط کو آپ کیا کہیں گے۔
(1)
سمندر کو اپنا سمجھتے رہے
مگر ہونٹ رشتوں کے تپتے رہے
(خورشید اکبر)
میں نئی بات کہوں اور نئے تیور سے
میری تنقید زیادہ ہو وکالت کم ہو
(خالد عبادی)
قدم قدم پہ سفر میں ہے حادثوں کا ہجوم
پلٹ کے آنے کی گھر کون آس رکھتا ہے
(شمس رمزی)
یہ بھی سچ ہے متاعِ شعور و بصیرت سے محروم ہے
اور یہ بھی حقیقت ہے وہ جانتا ہے زبانیں کئی
(شہباز ندیم)
(2)
مسکرائیں ٹہنیاں اور رنگ و بو نے بات کی
ایک سوکھے پیڑ سے کل آبجو نے بات کی
اب مجھے کچھ اور بھی محتاط رہنا چاہیے
کانپتے لہجے میں کل مجھ سے عدو نے بات کی
(نعمان شوق)
اسی غم نے تو زندہ رکھا مجھ کو
کہاں سے لاؤں گا مر کر کفن میں
(عطا عابدی)
رات اور بے کراں فاصلہ روشنی
کیسے دیکھوں ترا راست روشنی
میرے اندر زماں در زماں ظلمتیں
اور باہر خلا در خلا روشنی
(احمد محفوظ)
زندگی کا یوں مزہ لینے میں آخر حرج کیا
پھر بنا لیں گے نشیمن چھت ٹپکنے دیجیے
(راشد انور راشد)
پرائی دھوپ سے اپنا بھلا نہیں ہوگا
ہمارے نام کی صبحیں اسی زمیں پر ہیں
(رؤف رضا)
تم کہتے ہو جیون کو پربت دریا
میں کہتا ہوں اک ماچس کی تیلی ہے
(شعیب رضا)
کیا یہ حقیقت نہیں کہ آج ہم جس عہد میں سانس لے رہے ہیں وہ عہد ہر روز بے
حیقینی کا ایک سورج طلوع کرتا ہے اور شکستہ مظاہر کی شام کو بے اعتنائی سے
سر کے نیچے رکھ کر سوجاتا ہے۔بہت تیز روشنی بھی ظلمت کو جنم دیتی ہے اور یہ
عہد ایسا ہی ظلمت کدہ ہے ہر جانب گھٹا ٹوپ اندھیرا، فلسفہ جنون و خرد سب
آپس میں ایسے دست و گریباں ہیں کہ کسی کی آنکھ میں کسی کا گھٹنا در آیا ہے
ممالک و مسالک کے حدود اسی خرد برد کا شکار ہیں۔ ندیاں، سمندر ، ہوا فضا
یہاں تک کہ خلا بھی اس چھینا جھپٹی اور آلودگی میں مبتلا ہیں ایسے میں
شاعری کا کھُردرا ہونا حیرت کی بات نہیں لطیف و ہموار ہونا حیرت کی بات ہے۔
یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ ہمعصر شعرا کے سامنے مسائل لا متناہی ہیں لیکن
ان مسائل کو تخلیقی نہج پر قائم و دائم بنا دینے کی جو فنکارانہ چابکدستی
ہوتی ہے اس کا کسی حد تک قطح ہے۔ حامدی کاشمیری کے مطابق ’’جدید شاعری کا
المیہ بھی یہی ہے کہ شاعر اپنے تجربے کے بحران کو لسانی تصرف میں لانے میں
نا کام رہتا ہے‘‘ اور اس کی وجہ صاف ہے کہ ہماری نسل کے شعرا کو نہ تو گھر
میں وہ ادبی ماحول میسّر آیا اور نہ ہی مدرسوں اور اسکول کالجوں میں۔ کیا
یہ لمحۂ فکریہ نہیں کہ اگر آج کے کسی شاعر کو اپنی شاعری شائع کروانی ہو
اور وہ اسے کسی کو بہ نظرِ اصلاح دکھانا چاہے تو اس سلسلے میں اسے کتنی
صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں گی؟
یہ بات میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ ادب میں کچھ بھی مکمل نہیں ہوا کرتا
ہمعصر اردو شاعری کے دامن پر بھی کچھ داغ ہیں لیکن اگر تجزیہ کیا جائے تو
یہ دھبّے اس معاشرتی کجروی کے ہیں جس کی بنیاد پچاس یا ساٹھ سال پہلے پڑ
چکی تھی۔ جیسے
1۔ اچھے قاری کا زوال
2۔ مشاعرے کی روایت کا زوال
3۔ استاد اور شاگرد کے بیچ دوری
4۔ اردو شعرا میں عروض سے نا واقفیت
5۔ اکادمیوں اور دیگر اردو اداروں پر سیاست کی بالا دستی
6۔ نئی نسل کے شعرا کو نصاب میں شامل نہ کرنا
7۔ بزرگ ناقدین کی بے اعتنائیاں
8۔ اور ایک بڑی وجہ خوشامد پسند ہمعصر /ناقدین کی کثرت
ان جملہ مسائل کے باوجود اگر آج ہمعصر شاعروں کے کھیسے میں زر و جواہر ہیں
اور یقیناً ہیں تو پھر اردو شاعری کو تعطل کا شکار نہیں کہا جا سکتا۔ نیا
سفر شمارہ نمبر 6میں پروفیسر عتیق اﷲ موجودہ شعر و ادب کی صورتِ حال ایک
سرسری جائزہ (خدا جانے وہ گہرائی سے جائزہ کب لیں گے یا لیں گے بھی نہیں)
میں فرماتے ہیں ’’ اس نسل کے شعرا کی سب سے بڑی قوت ان کا اعتماد ہے۔ وہ
ہمارے پیشہ ور نقادوں کے دعوں اور ہدایت ناموں پر کم ہی کان دھر رہی
ہے۔حالانکہ ان شعرا کو نہ تو وہ اردو مدارس ہی میسّر آئے، جہاں کے اساتذہ
عربی فارسی قواعد اور حتیٰ کہ عروض و آہنگ پر گہری پکڑ رکھتے تھے بلکہ ان
میں اپنے طلبا کو سکھانے اور اپنے علم کو پھیلانے کی ایک تڑپ بھی تھی۔‘‘
اس اقتباس سے صاف ظاہر ہے کہ ہمعصر شعرا نے ناقدینِ ادب کے دلوں پر دستک
دینی شروع کر دی ہے۔ ڈاکٹر کوثر مظہری نے کہیں لکھا تھا کہ: ’’نئی نسل کو
اگر کوئی مسئلہ در پیش ہے تو اپنی نسل کا نقاد پیدا کرنے کا کاش اس نسل کو
ایک عدد نقّاد مل جاتا‘‘
میں ان کی بات سے اتفاق کرتا ہوں لیکن کیا کوثر مظہری اس بات سے واقف ہیں
کہ نئی نسل کے جو لوگ تنقیدی دبستان میں داخل ہو تے ہیں وہ اس کشتِ ذار میں
داخلے کا پروانہ بھی ان سے ہی حاصل کر تے ہیں جولوگ پچھلے پچاس سال سے
تنقیدی دبستان کے ملجا وماویٰ ہیں معدودے چند لوگ اگر پہلے پر وانہ نہیں
حاصل نہیں کر تے تو بعد میں سیمینار ، سمپوزیم، لیکچرارسے ریڈر اور ریڈر سے
پروفیسر بننے کی ادھیڑ بن میں ان دروں کی خاک چھاننے لگتے ہیں جہاں سے
انہیں کم از کم اس کا وعدہ ہمیشہ ملتا رہتا ہے یہ الگ بات ہے کہ ان بزرگان
ِادب کے نام پر کا وظیفہ پڑ ھنے والے لوگوں کا کہیں بھولے سے بھی یہ
بزرگانِ ادب اپنے مضمون میں نام نہیں لیتے ہاں سیمیناروں اور صدارتی خطبوں
میں زبانی تقریر میں ان کا نام بڑی محبت سے لیتے ہیں اور وہ اسی پر پھولے
نہیں سماتے اب کوثر مظہری دعا کریں تو اس میں یہ اضافہ ضرور کر یں کہ نئی
نسل کو ایسا نقاد کی ضرور ت ہے جو نقد کا نقاد ہو ناقدین کے نقاد سے تو اﷲ
محفوظ رکھے کیونکہ ہمعصر شعرا کی اب یہ حالت دیکھی نہیں جاتی کہ:
فاروقیوں کی جنبشِ ابرو پہ رکھ نظر
پھر شعر کہہ کے جانبِ نارنگ دیکھنا
ہم عصر شاعری کسی حد تک ان تنقیدی جھگڑوں سے آزاد ہے اور تخلیق کا پلڑا بھی
اسی لئے تنقید سے بھاری ہو تا ہے کہ اس پر دباؤ کا زیادہ اثر نہیں پڑتا اب
چاہے وہ دباؤ شخصی ہو یا معاشی ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ نئی نسل کے
شعراء آج سے پچاس سال پہلے کی نسل سے ان معنوں میں الگ ہے کہ اس کے سا منے
تلاشِ رزق کا مسئلہ اتنا اہم نہیں اور وہ شاعری کو تلاشِ رزق کا وسیلہ نہیں
بنا تے ان کے اپنے کارو بار ہیں ، ملازمتیں ہیں خوش حال خاندان ہے اس کی
جلو میں شاعری بھی ہو تی رہتی ہے ۔ مشاعرے کے شاعروں کو اس سے الگ کر کے
دیکھنا ہو گا کیونکہ مشاعروں کے شاعروں کو ابھی تک تو ہمارے یہاں وہ مقام
حاصل نہیں ہو سکا ہے ۔ اور ان میں اکثر کی وقتی شاعری یا شاعری جیسی چیز کو
ادب کا حصہ قرار دینے میں بھی کئی قباحتیں ہیں بہر حال یہ ایک الگ موضوع ہے
۔ میں تو صرف یہ کہنا چا ہ رہا ہوں کہ باوجود اس کے کہ آج ہمارے معاشرے میں
ادب وشعر کے لئے کوئی باوقار مقام متعین نہیں ہے جو لوگ شعرو شاعری کر رہے
ہیں وہ نہ تو کسی ایوارڈ کی خاطر شاعری کر رہے ہیں اور نہ ہی اعزاز کے لئے
وہ تو بس جو دل پہ گزر تی ہے رقم کئے جا رہے ہیں لہٰذا اس پر اگر کسی کو
اعتراض ہے یا ان کی اس کد و کاوش کی کسی کو پرواہ نہیں تو یہ ان لوگوں کا
ذہنی فتو ر ہے اور یہ بھی ایک روایت ہے کہ غالب اور نظیر جیسوں کو بھی اپنے
عہد میں ستائش سے زیادہ گالیاں ہی ملی تھیں اسی لئے تو انہوں نے کہا بھی
تھا کہ نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
بات ایک اور ہے اوروہ یہ کہ جو شعراء آج ساٹھ یاستّر کی عمر کو پہنچ چکے
ہیں انہیں تو یہ پورا دور ہی کیڑوں سے پر نظر آرہا ہے وہ بیچارے اپنی پاری
کھیل چکے ہیں اور زبان وہ بیان کے رٹے رٹائے کلّیوں پرتکیہ لگائے بیٹھے ہیں
انہیں کیا پتہ کہ زبان نے خاص طور پر اردو زبان نے اب اپنا طرز ِ ادا ہی
بدل ڈالا ہے اب عروضی لٹکوں جھٹکوں کو سمجھنے والے ہی کتنے ہیں ایسے میں
نئی نسل اگر ان چکّروں میں پڑی تو پھر ان کی شاعری میں بچ کیا جا ئے گا اور
لوگ ان کی شاعری کیوں پڑھیں گے کلاسیکی شاعری کا وہ سر مایہ کیا کم ہے جو
ہماری لائبریریوں میں دیمک کی خوراک بن رہا ہے اور کیا اس سے اچھی شاعری
زندہ بزرگ شعراء کر رہے ہیں -
ہم عصر شعراء اپنی بساط بھر بہت اچھی شاعری کر رہے ہیں جو لوگ اس پر ناک
بھنؤ چڑھا تے ہیں یہ ان کا کام ہے نئی نسل کو اپنا کام تندہی سے کر تے رہنا
چاہئے ۔ |