بعض حسین عورتیں سینڈل پہننے کے لئے نہیں مارنے کیلئے
استعمال کرتی ہیں۔ گلاب بیگم کے بھی سینڈل اور اسکینڈل بہت مشہور تھے۔ اسے
دیکھ کر معلوم ہوجاتا تھا کہ بجلی کیا چیز ہوتی ہے۔ اس سے باتیں کرکے یقین
ہوجاتا تھا کہ عورت اور خامشی دو متضاد چیزیں ہیں۔ جو بھی اس کے ننگے بازؤں
کو چھوتا لگتا ننگے تاروں کو چھولیا۔ اپنے عاشقوں کے لئے گلاب بیگم کے تیور
بہت جارحانہ اور سرکشانہ تھے۔اگر اس کا موڈ بدل گیا تو سمجھو موسم سنبھل
گیا اور عاشق کا دل بہل گیا۔ جو بھی اس کی زلفوں کا اسیر ہوا اس کیلئے موت
اور تاریکی ممکن ہے زندگی اور روشنی ممکن نہیں۔
جب میں نے پہلی بار اسے ناظم آباد کے بس اسٹاپ پر کھڑا دیکھا ، میرے دل میں
ایک مجہول، نامکمل اور ناقص جذبہ پیدا ہوا لیکن دوسرے ہی لمحے یوں لگا جیسے
میرے خیالات و تصورات نے جسم اختیار کرلیا ہو۔ میرے دل نے کہا کاش تیرے
پلکوں کی ہر جنبش، تیری کمر کی ہر لچک، تیرے جسم کے تمام خطوط اور تیری
آنکھوں کا ہر خمارکہ جس سے تیرے شباب کی ترکیب ہوئی ہے میرے لئے مخصوص
ہوجائے۔
وہ بس کے انتظار میں کھڑی تھی، اس کے ایک ہاتھ میں پھلجھڑی تھی، دوسرے ہاتھ
میں موتیوں کی لڑی تھی، اس کے کان کی بالی سڑک پر گر پڑی تھی۔ مجھے دیکھ کر
وہ پہچان گئی یہ وہی دقیانوسی ادیب ہے جس کا پھٹا پرانا کالم اخبار میں آتا
ہے۔ پیشانی پر الجھی سی ایک وارفتہ لٹ کو سلجھاتے ہوئے کہنے لگی ’’کہاں
گئیں تمہاری تدبیریں؟کیا ہوئیں تمہاری تحریریں؟ کب توڑو گے یہ زنجیریں؟‘‘
میرے جوابدینے سے پہلے ہی اسنے خود اپنے سوال کی توضیح کی’’انسان کے وچن
اور عمل میں جو تفاوت ہے، بیچ میں جو کھائی ہے اس کو پاٹنا کسی کے بس کا
روگ نہیں‘‘
’’ کیا کروں دل گھبراتا ہے۔ بد حال ہوں بے حال ہوں۔ ہر وقت روگی رہتا ہوں۔
جی چاہتا ہے دنیا والوں کو ختم کردوں یا دنیا والے مجھے ختم کردیں‘‘
’’ کنوارے ہو تو شادی کرلو، شادی شدہ ہو تو طلاق لے لو‘‘
اس نے اپنے تئیں ہمدردانہ مگر اصلاً احمقانہ مشورہ دیا۔
گئے برس گلاب بیگم پاکستان سے امریکہ آگئی مگر اس کے لچھن نہیں گئے۔ یہاں
آکر اس نے ادھیڑ عمر چقندر خاں سے دوستی رچالی تھی۔ گلاب بیگم سے چقندر خاں
کی پہلی ملاقات سنٹرل پارک منہٹن میں ہوئی تھی۔ شب کا سمے تھا۔ بادل کی اوٹ
سے ایک چاند شعاعوں کے سفینے کو لے کر نمودار ہوا تھا۔ گلاب بیگم چقندر خاں
کو ٹکٹکی باندھ کے دیکھے جارہی تھی۔ چقندر خاں ذرا اس کی نظروں سے کترایا
تو بولی ’’ گھبراؤ نہیں ، میں تمہیں تحقیر کی نظروں سے نہیں تحقیق کی نظروں
سے دیکھ رہی ہوں‘‘
’’ تمہارے ذوق عریانی کے قربان جاؤں۔ اگر تم مجھے دیدہ نا بینا سے دیکھو تو
بہت کچھ دیکھ پاؤ گی‘‘
’’ زیادہ نہ بولو ، خاموش بیٹھے رہو، میں بہت بڑا فیصلہ کرنے والی ہوں‘‘
’’فیصلہ …… کیسا فیصلہ؟ کیا مطلب ہے تمہارا؟ اچھا اب سمجھا مجھ سے شادی
کرنا چاہتی ہو‘‘
’’شادی کیسے ہوسکتی ہے؟ تمہارے پاس جہیز ہے کیا؟‘‘
’’جہیز ضروری ہے؟‘‘
’’ جیسے ہیرو کے لئے ڈانس، امتحان کیلئے نقل اور کرکٹ کیلئے سیاست ضروری ہے
اسی طرح شادی کیلئے جہیز ضروری ہے‘‘
’’ تو پھر کیا کرنا چاہئیے؟‘‘
’’ کرنا کیا چاہئیے۔ آج سے میں تمہاری گرل فرینڈ اور تم میرے بوائے فرینڈ‘‘
’’ نہیں ، نہیں اس رشتے میں امریکی تہذیب کی بو آتی ہے‘‘
’’ چلو آج سے میں تمہاری منہ بولی بیوی، تم میرے منہ بولے شوہر، ملاؤ
ہاتھ‘‘
’’ہاں منہ بولی بیوی کا رشتہ مجھے منظور ہے‘‘
چقندر خاں کے اقرار پر گلاب بیگم نے مارے خوشی کے انگریزی بولنا شروع کردی۔
چقندر خاں بہت جھینپا اور اپنی بے وقوفی کا سکہ جماتے ہوئے کہنے لگا’’میری
انگلش آج کل کم زور ہے کیونکہ میں آج کل بیمار ہوں‘‘یہ رشتہ قائم ہوجانے کے
بعد سوال پیدا ہوا کہ گلاب بیگم چقندر خاں کے ہاں رہے گی یا چقندر خاں گلاب
بیگم کے ہاں۔ چقندر خاں نے معذرت کرتے ہوئے کہا ’’میرے ہاں پپو بیمار، چاچا
جی کو نزلہ اور بے بی کو بخار ہے۔ ہمارا گھر تو اچھا خاصا ہسپتال بنا ہوا
ہے‘‘گلاب بیگم بولی ’’ تو پھر چلو میرے گھر‘‘
’’ تمہارے گھر میں اور کون کون رہتا ہے؟‘‘
’’ میری ایک بہن، ایک خالہ، ایک ساس اور دو باپ ہیں …… مگر گھبرانے کی
ضرورت نہیں ، اس سب سے میرا منہ بولا رشتہ ہے۔ تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں
میرے ساتھ رہنے میں؟‘‘
’’ اعتراض تو نہیں مگر میری ڈیوٹی بڑھ جائے گی‘‘
’’ کیا مطلب ؟ ‘‘
’’ مجھے آدھی رات کو اٹھ کر گھر کے تمام افراد کو گننے کی عادت ہے مبادا
کوئی کم نہ ہوگیا ہو‘‘
’’ ویری گڈ ، تمہاری اس عادت کی وجہ سے مجھے یقین ہے یہ سب لوگ بہت جلد گھر
چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ چلو میرے ساتھ‘‘
چقندر خاں پالتو کتے کی طرح گلاب بیگم کے پیچھے چلا جارہا تھا۔دونوں جیکسن
ہائٹس کے ایک بیس مینٹ میں ہنسی خوشی رہنے لگے۔ ہر شخص اپنی خلوت گاہ میں
پردہ داری چاہتا ہے۔ مشہور روسی ناول ’’جنگ اور امن‘‘ کا آزاد خیال کیرکٹر
بھی اپنے ہم پیالہ و ہم نوالہ دوست سے کہتا ہے ’’جہاں جاؤں گا تمہیں اپنے
ساتھ لے کر جاؤں گا سوائے جہنم اور کمرہ عروسی کے‘‘پس انسان کو اپنی کار،
چیک بک اور بیوی میں کسی کو شئیر نہیں کرنا چاہئیے لیکن شئیر کیا جاسکتا ہے
اگر کار چوری کی ہو، چیک بک جعلی ہو یا بیوی غیر منکوحہ ہو۔ چقندر خاں بھی
اپنے سے نصف عمر عورت کا جعلی شوہر تھا۔ چقندر خاں کو وہ بطور ڈھال استعمال
کرتی۔ وہ اس کے لئے اس گونگے کی مانند تھا جو گانا بہت اچھاگاتا ہو۔
امریکہ کی آزاد خیالی اپنانے کے باوجود گلاب بیگم میں مشرقیت کا احساس باقی
تھا۔ وہ ان عورتوں میں سے نہیں تھی جو امریکہ آکر بڑی ڈھاٹی سے شلوار قمیض
چھوڑ جینز اور شرٹ چڑہالیتی ہیں۔ نہیں چاہتی تھی کہ اس کے ہم زبان اس پر
انگلی اٹھائیں۔ ادھر چقندر خاں کو دو وقت کی روٹی مل جائے اس کے لئے کافی
تھا۔ بیس مینٹ کے ایک کونے میں پڑا وہ بوتلیں چٹخاتا رہتا۔ اب اس میں
خواہشوں کی گرمی تھی نہ آرزؤں کا ابال۔ ریگستان میں رہ کر بھی وہ ریت سے
محروم تھا۔ سمندر کے کنارے کھڑا تھا مگر پانی کا پیاسا۔وہ تو بڑی حسرت لے
کر گلاب بیگم کے ہمراہ یہاں آیا تھا۔ اسے پتہ نہ تھا کہ گلاب بیگم اسکو
دارو کی لت لگاکر اپنا الو سیدھا کرتی رہے گی۔ نشہ چڑھتا تو شراب کو گالیاں
دینی شروع کردیتا۔ نشہ اترتا تو شراب کی طلب ظاہر کرتا۔
مگر آج گلاب بیگم زیادہ ہی مہربان تھی کہ دو کی بجائے چار پیگ لادئیے۔ وہ
بھی یکے بعد دیگرے چڑہاتا ہی گیا۔ جب ذرا ہوش آیا تو دیکھا گلاب بیگم برابر
والے کمرے میں کسی سے قدرے جھگڑ رہی ہے۔وہ انگلش زیادہ تو نہیں جانتا تھا
لیکن لگتا تھا کسی سے بھاؤ تاؤ کررہی ہے۔ |