کل ای ٹی وی اُردوکے خبرنامے سے نشر ہونے والی خبرکی ایک سُرخی نے ہمیں نہ
صرف چونکادیا بلکہ، اِس خبر نے ہمیں بے حد ملول بھی کردیا، کہ کرناٹک اُردو
اکادمی کے زیرک و فہیم، فعال و متحرک چیرمین عزت مآب امجد حسین حافظ
کرناٹکی صاحب،ا کادمی کی چیرمین شپ سے مستعفی ہوگئے ہیں، جو ظاہر ہے، ریاست
کی سیاسی اتھل پتھل کا ہی شاخسانہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حافظ کرناٹکی جیسے
ایک برد بار، صاحبِ ضمیر اور غیور فرد کے لیے یہ بات کیسے گوارا ہوسکتی تھی
کہ سیاسی سرپرستیوں کے ناموافق ہوجانے کے بعدبھی اپنے منصب سے چمٹے رہیں گے
اور متوقع خارجی عناصر کے دباﺅ کے غیر مناسب ومذموم محرکات، جب تک سر نہ
اُٹھائیں،تب تک بے سود اِنتظار کرتے ہوئے، خود اپنی نیک نامی اور اپنی
مسلّم خدمات کے لیے کسی قسم کا رِسک Risk مول لےں گے، جیسا کہ ہم ماضی میں”
بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے“والے منظر ملاحظہ کر چکے ہیں۔
بالآخرچیرمین موصوف نے اپنے بروقت اِقدام سے اگرچہ ہمیں ملول ضرور کیا ہے،
تاہم موجودہ تغیر پذیر حالات میں وہ خود اپنے استعفیٰ کو بلاشبہ وقار عطا
کر گیے ہیں۔ حافظِ محترم کے اِس اِقدام کا ملال ہر اُس محب اُردو کوضرور
ہوگا، جس نے اُردو زبان و ادب اور اکادمی کے قابلِ تقلید نظم و انصرام کے
لیے تین سالہ عرصے پر پھیلی اُن کی بے مثال جانفشانی کا گواہ ہے اور حافظ
صاحب کی قیادت میںاکادمی کی مقبولیت کی ممکنہ بلندیوں کو چھونے کے مناظر
اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ بحیثیتِ چیرمین ،کرناٹک اُردو اکادمی،حافظ کرناٹکی صاحب
کا حقیقی کارنامہ یہ ہے کہ موصوف نے اکادمی کے ساتھ جُڑے لفظ ”اُردو“ کے
ساتھ اِنصاف کی نظیرپہلی بار پیش کی اور اِس کے کینواس کو اِس قدر پھیلا
دیا کہ اِسے حقیقی معنویت عطا ہوئی ۔ مثلاًیہ کہ اُنہوں نے ”اُردو“ سے
وابستگی یا وابستگان کے ایک محدود تصور کو پاش پاش کر دیا،جو یہ تھا کہ
اُردو اکادمی صرف چند ”ادیب“ یا ”شعرائ“ کو تسکین بخشنے والاایک ایسا
سرکاری ادارہ ہے ، جو چند مٹنگوں یاچند شعری نشستوں سے اپنی پیاس
بجھاتارہتاہے،یا کچھ قلمکاروں کو صاحبِ کتاب بنانے کی ایک معاون تنظیم کا
نام ہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ اُردو کے وابستگان کے زُمرے میں اُنہوں نے
اُردو والوں کے ہر طبقے کو شامل کیا۔ چنانچہ،شعراءو ادباءکے ساتھ ساتھ
ریاست کے ٹیجرس و پروفیسرس، طلباءو طالبات،صحافی و اخبار نویس، اطفال اور
خواتین،علمائ.... یہاں تک کے درویش برادری کو بھی اُردو اکادمی سے جوڑ کر
جیسے اُردو کے فروغ کے لیے ریاستی سطح پر ایک تحریک برپا کردی، جس کی گونج
ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی سنائی دینے لگی۔اُن کی خدمات کی پذیرائی کا
عالم یہ تھا کہ دیگر ریاستوں کی اکادمیوں نے اُن کے تجربات سے فائدہ
اُٹھانے کے لیے اُن سے رابطہ کیا اور اپنے دفاتر میں بھی اُنہیں مدعو
کیا۔یہاں تک کہ ریاست میں بھی اور ریاست کے باہر بھی اُن کے لیے اعزازی
جلسوں کے اہتمام کا سلسلہ شروع ہوا، سپاس نامے پیش ہوئے اور بے پناہ عزت
افزائیوں سے اُنہیں نوازا ، جو دراصل ریاست کی ساری اُردو عوام کی عزت
افزائی تھی۔رب کا کرم یہ بھی ہوا کہ اُنہیں اُن کی طویل عرصے پر مشتمل
اُردو کی خدمات پر، جن میں اکادمی کے حوالے سے متذکرہ خد مات بھی شامل ہیں،
ریاست کی موقر گلبرگہ یونیورسٹی نے اُنہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے
سرفراز کیا، جو اپنے آپ میں بہت اہم واقعہ ہے۔ اِس لیے کہ یہ اعزاز دور
دراز کی کسی یونیورسٹی سے نہیں دیا گیا ہے بلکہ” اپنے گھر “کی یونیورسٹی سے
ملا ہے۔
پھر یہ کہ وہ چئیرمین بننے کے بعد اپنے ہیڈ کارٹر کو اپنا مسکن بنا کر بیٹھ
نہیں گئے، بلکہ پوری ریاست میں اُردو کے نخلستانوں کا دورہ کیا اور اِن سے
سیرابی حاصل کی اور اِن سے اکادمی کے لیے استحکام حاصل کیا اور جو علاقے
اُردو کے حق میں بے آب و گیاہ صحرا کی مانند نظرآتے تھے، اِنہیں سیراب کیا
اور اِنہیں اکادمی کی جانب سے استحکام بخشا۔سب سے بڑی بات یہ کہ جاتے جاتے
اُنہوں نے اکادمی کے تحت چھ اُردورسالوں ....”اذکار،ادیب،خبر نامہ،صدائے
اطفال اوردخترانِ کرناٹک“....کے اِداروں کو قیام بخشا، جس کی مثال سارے
ہندوستان میں دور دور تک نظر نہیں آتی۔
تین سال کے عرصے پر مشتمل اُردو کے لیے اپنی بے پناہ خدمات کے بعد حافظ
کرناٹکی صاحب کو جیسے اِس حقیقت کے سلسلے میں بھرپور اطمینان حاصل ہو
گیاتھا کہ اُنہوں نے کسی اکادمی کی منفرد کارکردگی کی” اِنقلابی طرح“ سے
عوام الناس کو روشناس کرادیا ہے ،کہ اب اکادمی کے مستقبل کے کسی مشعل بردار
کے لیے اِس کے علاوہ کوئی چارہ کار باقی نہیں رہ جائے گا کہ محترم حافظ
کرناٹکی صاحب کے دورِ صدارت کو ایک نمونے کی حیثیت سے نہ صرف باقی رکھے
بلکہ اُِن کے مشن کو جاری رکھتے ہوئے کرناٹک اُردو اکادمی کی خدمات کو
بلندیوں کے شش جہات آفاق سے بھی روشناس کرائے۔
لیکن کیا ایسا ہو سکے گا۔؟ممکن ہے ایسا نہ ہو۔ڈر ہے کہ ،محدود ذہنیت کے کچھ
بااثر مگر نام نہاد ”خادمانِ اُردو“،کہیں کرناٹک اُردو اکادمی پر قابض ہوکر
اپنی اُسی روایتی محدودیت کوموجودہ سرگرم اورVibrant اکادمی کی سمت منتقل
نہ کر دیں، جس کے مظاہرے ماضی میں ہو چکے ہیں اورجو بلندیاں حافظ صاحب نے
اکادمی کو بخشی ہیں وہ ایک بار پھر خدا نہ خواستہ پستیوں کا منہ دیکھنے پر
مجبور ہو جائیں۔اِس سے پہلے کہ یہ کریہہ منظر اُبھر کر ہماری بصارت پر بوجھ
بن جائے، آئیے ہم شیدائیانِ اُردوآگے بڑھتے ہیں اور کرناٹک اُردو اکادمی کی
موجودہ عظمتوں کی برقراری کا عزم لے کر اِس کی عصمت و آبرو کی حفاظت کا
بیڑہ اُٹھاتے ہیں:
میں آج نیے عزم سے پر تول رہا ہوں
کوئی میری پرواز کی راہوں میں نہ آئے
ہے کوئی اپنی جان سے پیاری اُردو زبان کا ایسا دیوانہ جو اِس کی خاطر اپنے
حصہ کا فرض ادا کرنے کو اِس عزم کے ساتھ آگے آئے.... ؟:
محترم امجد حسین حافظ کرناٹکی صاحب جیسے مجاہدِ اُردو کی رُخصت پر اِس کے
سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ بقولِ حفیظ میرٹھی:
اُن کے جانے کا منظر تماشہ نہیں
دور تک دیکھیے ، دیر تک سوچیے |