دیکھا جائے تو سیاست اور اخلاقیات کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔سیاست آخر ہے کیا ؟ عام
عوامی معصوما نہ رائے کے مطابق ان کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ جن سیاسی نمائندوں
کو منتخب کرکے اسمبلیوں میں بھیجا جاتا ہے وہ خلوص دل اور حب الوطنی کے ساتھ ملک و
قوم کی خدمت بجا لائیں عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبے تیار کریں،اور ملک کو ترقی
یافتہ قوموں کی فہرست میں شامل کریں۔کیا سیاست خدمت کا دوسرا نام نہیں ہے ۔؟یقینا
ہے اگر سمجھا جائے تو۔مگر افسوس کے پاکستانی سیاست کے رنگ ڈھنگ اور اندازہی جدا ہیں
۔بلکہ کچھ عرصہ سے اس میں شدت پسندی ،ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنا ،نفرت تعصب ،اور
نازیبا زبان کا استعمال عام ہوتا جارہا ہے ۔پاکستان کا سرکاری نام اسلامی جمہوریہ
پاکستان ہے ،مگر یہاں جمہوریت اور اسلام کی اصل تصویر خال خال ہی نظر آتی ہے ۔اسلام
ہمیں اخلاقیات کا درس دیتا ہے ۔اور اخلاقیات کا پہلا درس آپس میں پیار و محبت ہے ۔مگر
جب ہم اپنے سیاسی لیڈران کی طرف دیکھتے ہیں تو ان میں اخلاقی خصوصات کا فقدان نظر
آتا ہے۔
ان حکمرانوں سے کوئی پوچھے کہ آخر آپ سیاست اور حکومت کن لوگوں سے کرتے ہیں ،یہی
گوشت پوست کے انسانوں سے ،کوئی غیر مرئی مخلوق پر نہ تو حکومت کر سکتے ہیں نہ سیاست
۔۔پھر نہ جانے کیوں انسانیت کا سبق کسی کو کیوں یاد نہیں،پاکستان میں ہر روز اخلاقی
قدروں کی پامالی کی جاتی ہے ، بھیڑ بکریاں سمجھ کر ان کو گولیوں سے اڑا دیا جاتا ہے
۔بم دھماکے کر کے انسانی جسم کے چیتھڑے ادھیڑ دیئے جاتے ہیں ۔انسان کوگاجرمولی سمجھ
کر تقریبا روزانہ ہی کاٹ کے رکھ دیا جاتا ہے ۔پرتشدد کاروائی کے بعد لاش کی بے
حرمتی کی اس قدر انتہا کی جاتی ہے کہ بوری میں بند کر کے ویران مقام پر چھوڑ دیا
جاتا ہے ۔خواتین ،بچے ،بوڑھے الغرض کسی کا بھی لحاظ نہیں کیا جاتا،ان سب واقعات میں
تقریباستر فی صد واقعات سیاسی چپقلش اختلافات یا پھر سیاسی دشمنی کی بنیاد پر ہوتے
ہیں ۔
ایسے میں ایک سیاسی لیڈر کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ امن و امان کی فضا کو برقرار
رکھنے کے لیئے ایک صحیح راستے کا چناؤ کرتے ہوئے عوام کے جزبات و احساسات کو
قابومیں رکھے ،اور حکمت عملی کا مظاہرہ کرے۔۔۔مگر صد افسوس کہ ایسا کوئی بھی قدم
اٹھانے کی بجائے نفرت کو مزید ہوا دی جاتی ہے ،جزبات کو اور بھڑکایا جاتا ہے ،اور
پھر یوں حالات اور بھی تیزی سے خراب ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔گالی گلوچ دینا اب تو
معمول بنتا جا رہا ہے ،اگر اس سے بھی تسکین نہ ملے تو بات گولی تک جا پہنچتی ہے ،اس
طرح شاید حکمران اپنے دل و دماغ کی خوب تسکین کر لیتے ہیں مگر عوام بچاری جس کرب
اور تکلیف سے گزرتی ہے اس کا اندازہ شاید کسی کو بھی نہیں ہوتا ۔جب کسی پارٹی کا
لیڈر ہی اپنے جوش خطابت میں ہوش کھو بیٹھے گا تو اس جماعت کے کارکنوں سے کیا امید
کی جاسکتی ہے ۔۔یقینا وہ بھی اشتعال میں آئیں گے۔اور پھر وہی ہوگا جو ایم کیو ایم
کے جلسہ میں ہوا ۔جس میں رابطہ کمیٹی کے ارکان کے ساتھ ساتھ میڈیا کی بھی شامت
آگئی۔
من حیث القوم ہم کس طرف جا رہے ہیں۔،؟انجام گلستاں کیا ہو گا۔؟آخریہ کشت و خون کب
تھمے گا۔؟؟کب عوام سکھ کا سانس لے گی۔؟ کب اس کے نصیب میں امن کے پھول مہکے گے۔؟کب
امن کی آشا اپنے پر پھیلائے گی۔۔؟؟ ۔کب انسانیت کا بول بالا ہو گا۔۔ ؟؟؟۔کب گولیاں
چلنا اور بم پھٹنے کا سلسلہ تھمے گا۔؟کب گالیوں کی جگہ منہ سے محبت و اخوت کے پھول
جھڑیں گے۔؟؟ کب ہم ایک دوسے کے جزبات و احساسات کی قدر کرنا سیکھیں گے۔ ؟،ہاں پتہ
نہیں کب ہم سکون کاسانس لیں گے ۔؟؟اب تو اﷲ ہی ہم پر رحم کرے۔ |