دوست دشمن

ہماری طبعیت شہنشاﺅں کی طرح ہے فرق ہے تو اتنا کہ بادشاہ منافق نہیں ہوتے تھے دوغلا پن ان میں کم ہوتا ہے- کنفیوژن کا شکار بھی وہ کم ہی ہوتے تھے- اگر کبھی ہو جاتے تھے تو جلد اس کنفیوژن سے باہر نکل آتے تھے-دوست دشمن کی پہچان جلد کر لیتے تھے لیکن ہماری سوچ جو نتیجے نکالتی ہے اور اس میں جو عجلت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے وہ ہمارے آمرانا ذہن کی عکاسی تو ضرور کرتا ے لیکن کنفیوژن سے باہر نہیں نکالتا- اس کی بڑی وجہ شاید آزاد اور کثرت سے بااثر میڈیا ہے- یہ میڈیا نہ صرف عوام کو دوطبقات میں تقسیم کررہا ےہ بلکہ ایک بہت بڑے طبقہ کو کنفیوژن کا شکار بھی بنا رہا ہے- اس کی سب سے بڑی مثال حالیہ جنگ ہے جس کو بعض لوگ دہشت گردی یا انتہا پسندی کے خلاف جنگ کہتے ہیں اور کچھ لوگ اسے جہاد کا نام دیتے ہیں- دونوں اطراف سے مرنے والے افراد اور اولاد آدم اپنے اپنے مرنے والوں کو شہداءکا درجہ دیتے ہیں-

یہاں ہم سخت کنفیوژ اس وقت ہوتے ہیں جب ہم دیکھتے ہیں کہ خود کش حملہ ہوا کئی معصوم انسانوں کی جانیں اس طرح چلی گئیں کہ نہ مارنے والے کو معلوم ہو سکا کہ اس نے یہ قتل کیوں کیا اور نہ مرنے والے کو پتہ چل سکا کہ وہ کس جرم میں اس فانی زندگی سے قبل از وقت محروم کر دیاگیا- مرنے اور مارنے والے ایک دوسرے سے آشنا نہ تھے بلکہ ایک دوسرے کو غائبانہ طور پر بھی نہ جانتے تھے-جب یہ سین ہو رہا ہوتا ہے تو ہم ان شدت پسندوں کیلئے دل میں نفرت کے جذبات پیدا کرتے ہیں- وقت لمحوں اور گھنٹوں میں تبدیل ہو کر دنوں کی صورت میں آگے یا پیچھے کی طرف چل پڑتا ہے اور جمعتہ المبارک کا دن آ جاتا ہے- خطبہ سن کر ہم پھر قائل ہو کر آجاتے ہیں کہ یہ شدت پسند بھی کچھ اتنا غلط نہیں کر رہے جتنا غلط ان کو سمجھا جا رہا ہے-

ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسا ضرور موجود ہے جو اس شدت پسندی کے بارے کسی کنفیوژن کا شکار نہیں لیکن آگے چل کر وہ بھی ایک کنفیوژن کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کو سمجھ نہیں آتا کہ وہ امریکہ کو دوست قرار دے یاد شمن قرار دے-جب وہ طبقہ ایران کے بارے امریکہ کا رویہ دیکھتا ہے تو اسے دشمن خیال کرتا ہے لیکن جب ڈالروں کو دیکھتا ہے اور امریکہ کے ویزے کو دیکھتا ہے بات اس کی سمجھ سے باہر ہو جاتی ہے- اس کو سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آتی ہے کہ دشمن کا دشمن تو دوست ہوتا ہے لیکن دوست کا دشمن تو دوست نہیں ہو سکتا- بس اسی طرح کے دوغلے پن میں ہم زندگی گزار رہے ہیں-
ہم اپنے دوستوں اور دشمنوں کی پہچان ختم کر بیٹھے ہیں مثلا اگر تو طالبان ہمارے دشمن ہیں تو امریکہ کو اس بات کی اجازت دیں کہ جہاں بھی اسے ہمارے دشمن نظر آئے اسے مار دے اور اگر وہ ہمارے دشمن نہیں بلکہ ہمارے ہمدرد اور دوست ہیں تو پھر کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہئے کہ ان کو نقصان پہنچایا جائے-
ہمارا المیہ اور ماتم یہی ہے کہ ہم امریکہ کے ڈالروں کو کھونا نہیں چاہتے لیکن اس کی امداد کھا کر دل میں یہ تمنا رکھتے ہیں کہ اس کو تباہ وبرباد کر دیا جائے اور پھر مزے کی بات یہ ہے کہ امریکہ کی تباہی وبربادی دیکھنے والوں کی اکثریت کو آج امریکہ کا ویزہ دینے کی پیشکش کی جائے تو اسلام آباد سے لاہور تک لمبی قطار بن جائے گی بشرطیکہ انہیں یقین دلا دیا جائے کہ ویزہ اسی کو ملے گا جو قطار میں کھڑا ہو گا-
عیسائیوں اور یہودیوں کی وہ پکی کو کھانے اور اس میں بھی کرپشن کرنے میں ہمیں ذرا شرم محسوس نہیں ہوتی لیکن ہمارا شاہانہ مزاج یہ ہے کہ ہم فورا" یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ جس طرح ہمارے ظرف چھوٹے ہیں اور ہم جلد ہی غصے میں آ کر دوسرے پر حملہ کر دیتے ہیں شاید ملک بھی دوسرے ملکوں پر حملوں میں یہی رویہ اختیار کرتے ہیں- ہم سمجھتے ہیں کہ جیسے گلی محلہ میں ہماری لڑائی ہو جاتی ہے اسی طرح ملک بھی آج کے زمانہ میں اسی طرح سے جنگیں شروع کر دیتے ہیں- چونکہ ہم آمرانہ ذہن رکھتے ہیں- ہزار سال سے ہمارے بادشاہ”یلغار ہو“ کا نعرہ لگاتے تھے اور طبل جنگ کے ساتھ ہمسایوں پر چڑھائی کر دیتے تھے جیسے ماضی میں افغانستان اور وسط ایشیاءسے برصغیر پر حملے ہوتے رہے تو ہم یہی سمجھتے ہیں کہ امریکہ بھی ایسے ہی ناراض ہو کر ”یلغار ہو“ کا نعرہ لگائے گا اور پاکستان جیسے ریت کا قلعہ ہے اس کو فتح کر لے گا- نہیں بھائی جی آج کی دنیا میں ایسا نہیں ہوتا-یہ حکمرانوں کے نئے ڈرامے ہیں اور اس ڈرامہ میں اہم کردار سفیر پاکستان کا ہوتا ہے- یہ سب ڈرامہ ہو رہا ہے- دونوں طرف انتخابات نزدیک ہیں- موجودہ حکومت گزشتہ چار سالوں میں سوائے مہنگائی‘ کرپشن اور ناانصافی کے عوام کو کچھ نہیں دے سکی اب ڈرامے کر کے سرخرو ہونا چاہتی ہے- آج کی دنیا میں جب امریکہ نے کسی پر حملہ کرنا ہوتا ہے تو اس کی لمبی تیاریاں کی جاتی ہیں- دنیا کے کئی ممالک کو ساتھ ملایا جاتا ہے- پراپیگنڈہ ہوتا ہے- اس پر پہلے پابندیاں لگائی جاتی ہیں‘ ارد گرد سے تنہا کیا جاتا ہے ‘غدار بنائے جاتے ہیں- خیر پاکستان میں یہی ایک فصل ہے جس کی کوئی کمی نہیں- ڈالروں سے یہ کام بہت سہل ہو جائے گا-ایک لمبا عرصہ اس حملہ کیلئے درکار ہو گا اور پھر اس کو کوئی بہانہ بھی ڈھونڈنا ہوتا ہے- افغانستان جیسے معمولی ملک کیلئے جس کے نوٹ کو کوئی قبول نہ کرتا تھا‘ کوئی اس کی بنک کی گارنٹی کو قبول نہ کرتا تھا‘ اس پر حملہ کرنے کیلئے نائن الیون جیسے واقعہ کی ضرورت ضروری قرار پائی- کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ پاکستان پر حملہ کرنے کیلئے اس کو کسی بھی منصوبہ بندی یا کسی بھی بہانہ کی ضرورت نہیں-

امریکہ کے تھنک ٹینک اتنے احمق نہیں کہ وہ پاکستان پر حملہ کی کوشش کریں گے- حملہ کے علاوہ ان کے پاس بہت حربے ہیں اور ہمارے کمزوریاں ہیں- ہمیں ان کمزوریوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے- ان ڈراموں سے ہمارا نقصان ہو گا- ہماری آمدنیاں کم ہو جائیں گی- مثلا اگر امریکہ کی سپلائی تاجکستان کی طرف سے شروع ہوتی ہے تو ہماری آمدنی میں لامحالہ کمی واقع ہو گی- ویسے اطلاعا" عرض ہے کہ خاکسار نے دریائے آمو چار بار کشتی کے ذریعے عبور کیا ہے- آخری بار کوئی چار سال پہلے تک اس پر پل کی تعمیر ہو رہی تھی جو یقینا اب مکمل ہو چکی ہے- نیٹو کی سپلائی کیلئے یہ راستہ اس کیلئے بن چکا ہے- اس پل کے بننے کے بعد متبادل راستہ نیٹو کو مل چکا- اس لیے امریکہ نے اب سوچا ہو گا کہ پاکستان کے ناز ونخرے مزید برداشت کرنے کی کیا ضرورت ہے- ہماری ضرورت تو امریکہ کو رہے گی لیکن اب اسے کچھ سہولت مہیا ہو رہی ہے اس لیے اس کے تیور تبدیل ہو رہے ہیں- ہمیں اس صورتحال میں کیا کرنا ہے وہ سب سے ضروری چیز ہے کہ ناراض لوگوں کو منایا جائے- شک نہیں کہ حکومت نے بظاہر ناراض بلوچوں کو منانے کی کوشش ضرور کی ہے لیکن کرپشن ایسا پرندہ ہے جس کے اثرات یہ ہوتے ہیں کہ جس شاخ پر یہ بیٹھتا ہے اس کے دور نزدیک امن‘ دوستی‘ محبت و الفت کے پرندے پر نہیں مارتے اور جہاں دوستی و محبت اور امن کی فاختائیں پر نہیں مارتیں وہاں کچھ بھی خرابی ہو سکتی ہے- ہم تمام تر خرابیوں کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں- ہم کنفیوژن میں ہی رہنا چاہتے ہیں- ہم ڈالر لینا چاہتے ہیں لیکن دینے والے کی تباہی وبربادی کے بھی خواہاں ہیں اور اس سمجھ و فکر سے آزاد ہیں کہ امریکہ کے چار بنک دیوالیہ ہوتے ہیں تو ادھر ہمارے سٹاک مارکیٹ اجڑ جاتی ہے-

ہماری طبعیت شہنشاہوں کی طرح ہے فرق ہے تو اتنا کہ شاہ منافق نہیں ہوتے-
Ahmed Daud
About the Author: Ahmed Daud Read More Articles by Ahmed Daud: 14 Articles with 11356 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.