میاں صاحب احتیاط لازم ہے

محترم عرفان صدیقی میاں صاحبان سے کتنی قربت رکھتے ہیں اسکا ہمیں پتہ نہیں مگر ان کی کالمانہ کاروائیوں اور ٹاک شوز میں میاں برادران کی خوش بیانیوں سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ جناب عطاالحق قاسمی کو مداح سرائی کے میدان میں ہرانے ہی والے ہیں۔جناب قاسمی کی فیلڈ صحافیانہ تو ہے مگر مہنتانہ مختلف ہے وہ یورپ اور مشرق بعید میں سفارتکاری کرنا اپنی صحت اور مزاج کے عین موافق سمجھتے ہیں جبکہ جناب عرفان صدیقی کیلئے سعودی عرب یا پھر کوئی خلیجی ریاست بہتر چوائس ہوگا۔میاں صاحبان آجکل سیفماکی لپیٹ میں بھی ہیں اور امتیاز عالم جناب عرفان صدیقی اورجناب قاسمی پربازی لینے کیلئے بازیوں پر بازیاں لگا رہے ہے۔میاں صاحبان کے بیانات اور خواہشات سے لگتا ہے کہ امتیاز عالم اور نجم سیھٹی سکول آف تھاٹ بہت جلد میاں برادران کے زوال کا باعث بن جائے گا اور یہ لوگ نہ صرف میاں برادران بلکہ ملک کیلئے کسی نئے بحران کا انتظام کردینگے۔

میاں نواز شریف نے الیکشن جیتتے ہی ایک بے تکا اور بے مقصد بیان دیا ہے جس سے نہ صرف ان کے غریب اور مڈل کلاس ووٹروں کو دھچکا لگا ہے بلکہ اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کو حیرانگی ہوئی ہے۔میاں صاحب کے اس بیان سے شاہد عاصمہ جہانگیر،نجم سیھٹی،الطاف بھائی ،امتیاز عالم اور امن کی آشا والوں کو تو خوشی ہوئی ہوگی مگر عام پاکستانی کو دکھ پہنچا ہے،میاں نواز شریف نے کہا کہ وہ جلد بھارت کا دورہ کرینگے چاہئے بھارت دعوت دے یانہ دے۔میاں صاحب کو کچھ عوامی جذبات کا بھی احساس ہونا چایئے تھا کہ پاکستانی عوام بھارتی جبر،ہٹ دھرمی،پاکستان دشمنی پر کیا سوچ رکھتے ہیں؟الیکشن جیتنے کے بعد اس بیان کے پیچھے کیا چھپا ہے؟ میاں صاحب کو پاکستانیوں کو بتانا پڑے گا۔میاں صاحب نے یہ بیان کس کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے دیا اسکی وضاحت بھی ضروری ہے چونکہ یہ بیان پاکستانی عوام کے جذبات کی توہین کے مترادف ہے۔میاں صاحب کے پچھلے دور میں بھی بھارت نوازی کا رنگ چڑہنا شروع ہوا تو قدرت نے ان سے اقتدار چھین لیا اور انھیں ملک سے ہی نکلنا پڑا۔بھارت جسطرح پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کررہا ہے شاہد میاں صاحب کو اسکا احساس ہی نہیں بلوچستان اور فاٹا میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت کے چوبیس کونسل خانے ملوث ہیں جو دہشت گردوں اوربلوچ لبریشن آرمی کو تربیت ہی نہیں بلکہ اسلحہ،گولہ بارود اور مالی وسائل بھی مہیا کرتے ہیں۔اگر میاں صاحبان کو جناب عرفان صدیقی،عطاالحق قاسمی،نجم سیٹھی اور امتیاز عالم سے کچھ فرصت ملے تو وہ اپنی ہی پارٹی کے ٹکٹ نادہندہ جناب جنرل عبدالقیوم سے ملکر ان کے ان کالموں پر تھوڑی سی بریفنگ لے لیں جو جنرل صاحب نے پوری تحقیق کے بعد اخبارات میں شائع کیئے۔ان کا لموں میں جنرل عبدالقیوم نے بھارتی انٹلیجنس ایجنسی کی کارستانیوں ،بلوچستان میں فراری کیمپوں کے قیام اور کے جی بی کی مدرسے بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کا جو منصوبہ بنایا اسکی مکمل تفصیل درج ہے۔اسی سلسلہ کی ایک کوشش جناب کرنل سکندر خان بلوچ نے بھی کی۔ مگر ہمارے سیاستدانوں کو ریلوے ،پی آئی اے،سٹیل ملز،اوبی آئی فنڈ لوٹنے بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے حربے سوچنے اور امن کی آشاکے چکروں سے ہی فرصت نہ ملی اور نہ ہی کسی نے اسطرف دھیا ن دیا۔

ایک اور دانشور اور محب وطن پاکستانی جناب ڈاکٹر اصغر علی کوثر وڑائیچ اور پروفیسر نعیم قاسم نے بھی بھارت کی کشمیر پالیسی پر کھل کرلکھا جبکہ خبرناک کے میزبان جناب آفتاب اقبال نے اپنے ایک پروگرام کا بڑا حصہ بھارت کی اس منصوبہ بندی کیلئے مختص کیاجسکے ذریعے وہ کشمیر سے آنے والے سبھی دریاﺅں کا رخ موڑ کر پاکستان کو بخبر بنانے کے پروگرام پر ہنگامی بنیادوں پرکام کر رہا ہے۔بھارت کی ایک ڈویژن فوج اور کئی جرنیل اور اعلیٰ سرکاری افسر افغانستان میں ورکروں اور انجینروں کے بھیس میں بیھٹے پاکستان کیخلاف عمل پیرا ہیں۔بھارت افغانستان میں بیٹھ کرویسا ہی کام کر رہا ہے جو 1970ءمیں بھارتیوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کیلئے کیا تھا۔

اس بار بھارتیوں کا ہدف صوبہ سرحد موجودہ خیبر پختونخواہ،بلوچستان اور کراچی ہیں۔افغانستان کا حکمران حامد کارزائی بھارتیوں سے بڑھ کر بھارت نواز ہے جبکہ کے پی کے میں اے این پی اور بلوچستان میں بی ایل اے بھارتی مقاصد کیلئے کام کر رہے ہیں۔سینیئر کالم نگار اور دانشور جناب اجمل نیازی نے کالا باغ مخالف قوتوں کا نام لیکر لکھا ہے کہ اے این پی سمیت کون کونسے پاکستانی رہنما اور سیاسی گروپ بھارت سے اربوں روپیہ لیکر کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرتے ہیں۔بھارت کو لاکھوں افغان مہاجروں کی صورت میں ہزاروں ایجنٹ بھی دستیاب ہیں جو پاکستان مخالف کاروائیوںمیں ملوث ہیں۔میاں صاحب کو چاہیئے کہ وہ سب سے پہلے اقوام متحدہ ،امریکہ،یورپی یونین،چین اور اسلامی ممالک سے بات کرکے افغانوں کو واپس بھیجیں ورنہ ترقی اور تبدیلی محض کھوکھلا نعرہ بن جائے گا اور میاں صاحب کے بلند وبانگ دعوے ریت کا مینار بنکر رہ جائیگے۔پشاور میں کئی ایکڑوں پر پھیلی کارخانو مارکیٹ دنیا کا سب سے بڑا سمنگلنگ کا اڈہ ہے۔ جہاں افغان تاجروں، سمگلروں اور افغان وار لارڈز کے ایجنٹوں کی اجارہ رادی ہے۔کارخانو مارکیٹ پاکستان کا ہی نہیں بکہ ایشیاءکا سب سے بڑا تجارتی مرکز ہے مگر پاکستان کے بندوبستی علاقے میں ہونے کے باوجود اس تجارتی مرکز سے حکومت کو ایک روپیہ بھی ٹیکس کی مد میں نہیں ملتا۔البتہ صوبہ پختونخواہ کے حکمران،سیاستدان اور نوکر شاہی کے ا علیٰ عہدیداران روزانہ کی بنیادوں پر نوٹوں اور ڈالروں کی بوریاں وصول کرتے ہیں۔کیا میاں صاحب کو ان کے باخبر صحافی برادران اور بھارت نوازی کا درس دینے والے مشیران نے کبھی اس طرف بھی توجہ دلوائی ہے کہ پاکستانی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹنے والا یہ تجارتی مرکز بھی پاکستان کی سرزمین پر موجود ہے جسے ٹیکس کے دائرہ میں لانے سے سارا صوبہ خوشحال ہو سکتا ہے۔میاں صاحب کے خیر خواہ ایک دانشور نے الیکشن کے دوسرے روز یعنی 12 مئی کو ایک ٹیلیویژن شو میں فرمایا کہ جلا وطنی کے بعد میاں نواز شریف بدل گئے ہیں۔اَب وہ باہم مشورے سے سارے کام کرتے ہیں نہ کہ پہلے کی طرح یکطرفہ حکم جاری کرتے ہیں۔صاحب یہ بھول گئے کہ جلا وطنی کے بعد میاں صاحب حکمران نہیں تھے بلکہ ان پابندیوں کی ذد میں تھے جن کے تحت وہ واپس وطن تشریف لائے تھے۔وہ جونہی ان پابندیوں کی دیوار سے نکلے ہیں انہوں نے وہی روش اختیار کر لی ہے جس کے وہ عادی ہیں۔کارگل اور بمبئی بم دھماکوںپر بھارت کی خوشنودی کیلئے اور بھارت کو مطمئین کرنے کیلئے کمیشن بنانا غلامانہ ذہن کی عکاسی ہے جبکہ بھارتی وزیراعظم کو تقریب حلف برداری میں دعوت دینا ثنااﷲ شہید اور شہدائے کشمیر کے خون سے بے وفائی ہے۔الیکشن جیتنے کے بعد میاں صاحبان کچھ ایسا تاثر دے رہے ہیں جیسے یہ الیکشن پاکستان میں نہیں بلکہ جالندھر،،امرتسر یا پھر لدھانہ میں ہوا ہے۔میاں صاحبان نے اگر حکمرانی کرنی ہے تو ان کیلئے ان خوش آمدی دانشوروں، مشیروں اور مولانا فضل الرحمن جیسے اتحادیوں سے پرہیز کرنا ہوگا ورنہ اس بار بھی وہ جیتی ہوئی بازی ہار جائیگے۔میاں صاحب کے بھارت جانے سے ان کے اور ان کے بھارتی دوستوں اور چند لاہوری تاجروں کے تعلقات تو بہتر ہوجائیگے مگر بحیثیت مجموعی پاکستانی غیرت،معیشت اور خود مختاری کو شدید نقصان پہنچے گا۔میاں برادران کی بھارت نوازی سے کشمیر کاز کو شدید نقصان ہوگا اور ملک میں دہشت گردی بھی بڑھے گی۔میاں صاحبان کے بیانات سے لگتا ہے کہ ملکی سلامتی کے اداروں پر عدم اطمنان کا اظہار کررہے ہیں اور تخت نشینی کے فوراً بعد کسی نئے بحران کی ابتدا کرنیوالے ہیں۔بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے اور بھارتیوں کو فری ہینڈ دینے سے اس ملک کا جو حشر ہوگا اسکا اندازہ شائد امن کی آشا کے ٹھیکداروں اور میاں صاحبان کے مشیروں، دانشوروں اور صلاح کاروں کونہیں۔

میاں صاحب اور بھارت کے مشترکہ دوست دانشور وہی ہیں جنھوں نے بمبئی بم دھماکوں کے بعد ایڑی چوٹی کا ذور لگایا تھا کہ وزیر اعظم گیلانی کسی نہ کسی طرح ڈی جی آئی ایس آئی کو بھارت جانیکا حکم جاری کردے۔انھوں نے اس بات کا اظہار ٹیلیویژن پروگراموں میں بھی کیا اور کچھ اسطرح کا تاثر دیا کہ اگر ڈی جی آئی ایس بھارت نہ گئے تو خدا نہ کرے بھارت پاکستان کو چند لمحوںمیں کھا جائے گا۔اس قسم کے دانشوروں اور بھارت نواز ٹیم نے پاکستان کے خلاف گہری چال چلی تھی جو ناکام ہوگئی۔اگر وزیر اعظمگیلانی میاں صاحب کی طرح سوچے سمجھے بغیر کسی حکم نامے پر دستخط کردیتے تو یقیناً فوج اس کی مخالفت کرتی اور ملک کے اندر ایک نیا بحران پیدا ہو جاتا اگر کسی ایسے غلامانہ حکم کے تابع ڈی جی آئی ایس آئی بھارت چلے جاتے تو بھارت پاکستان کی اس قدر درگت بناتا کہ پاکستانی قوم مرکر بھی اس حزیمت سے نجات حاصل نہ کر پاتی ۔ ایسے دانشور اور اسکے بھارت نوازگروپ کی دہری چال اور پاکستان مخالف سازش سے ملک ، فوج، قوم اور آئی ایس آئی کو خدا نے بچا لیا مگر اب امتیاز عالم اور امن کی آشا کے ٹھیکیداروں کو میاں صاحبان کی صورت میں ایک آسان حدف مل گیا ہے۔ شائد یہ کارستانی بھی ان ہی کی تھی کہ میاں صاحبان نے عبوری حکومت کیلئے عاصمہ جہانگیر کا نام تجویز کیا اور پھر امتیاز عالم کے یار اور غم خوار نجم سیٹھی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا دیا۔ عاصمہ جہانگیر وہ ذات شریفہ ہیں جو کہ تحریک آزادی کشمیر کی مخالفت کرنے سری نگر جا پہنچی اور ہمیشہ اس تحریک کا مذاق اڑایا موصوفہ کو فوج، عدلیہ اور آئی ایس آئی جیسے وطن محافظ ادارے سے خدا واسطے کا بیر ہے دنیا بھر میں کہیں مرغی مر جائے تو محترمہ کو اس میں بھی آئی ایس آئی ملوث نظر آتی ہے نجم سیٹھی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے اپنے ہی ملک کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا اور اپنی فوج کے خلاف لڑتے رہے جس کے صلے میں انہیں پنجاب کی وزارت اعلیٰ سونپی گئی دیکھا جائے تو امتیاز اعالم ، عاصمہ جہانگیر، امن کی آشا کے شیدائیوں اور نجم سیٹھی کی نسبت جنرل پرویز مشرف کی خامیاں کم ہیں جنرل پرویز کے جرائم میں بھی میاں صاحبان برابر کے حصے دار ہیں اگر میاں صاحبان فوج کے مروجہ سسٹم کو نہ چھیڑتے اور چوہدری نثار اور دیگر صلاح کاروں کے کہنے پر جنرل مشرف کو نیچے سے اٹھا کر اوپر نہ لاتے تو نہ وہ جلا وطن ہوتے نہ کارگل ہوتا، نہ ہی این آر او کی شکل میں پاکستان پر نحوست کے بادل برستے۔ آج ملک جس حال میں ہے اس کی بنیاد میاں صاحبان نے رکھی تھی میاں صاحبان اپنے جشن تاج پوشی میں من موہن سنگھ کے بجائے بھارتیوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بننے والے سپاہی کو دعوت دیں۔ وہ کارگل اور دہشت گردی کی جنگ میں شہید ہونے والے وطن کے محافظوں کے بچوں کو دعوت دیں جن کے پیارے بھارتی کونسل خانوں کی پھیلائی ہوئی آگ کے آگے شیلڈ بن گئے تاکہ اہل پاکستان دہشت گردی کی اس آگ سے محفوظ رہ سکیں۔

بقول جناب عرفان صدیقی! اگر میاں صاحبان واقعی بدل گئے ہیں تو بھارت کی خوشنودی کیلئے غیر ضروری بیانات سے اجتناب کریں اور اپنی سابقہ غلطیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے فوج کے سسٹم اور روایات کا احترام کریںوہ اپنے دوستوں اورمداح سراﺅں کو قومی خزانے سے نوازنے کی بجائے اپنے ذاتی خزانے سے بخشیشیں، تحفے اور نذرانے دیں لیپ ٹاپ، سستی روٹی اور پیلی ٹیکسی جیسے منصوبوں پر خزانہ نہ لٹائیں بلکہ ایسے موثر اور دیر پا منصوبے بنائیں جس سے ملک مضبوط اور قوم خوشحال ہو۔ بے نظیر انکم سپوڑٹ پروگرام کی صورت میں ریوڑیاں نہ بانٹیں اور نہ ہی دانش سکولوں پر مزید سرمایہ ضائع کریں ملک میں موجود تعلیمی نظام کو درست کریں تاکہ عام آدمی کا بچہ بھی سکول میں پڑھ سکے۔ ریلوے پی آئی اے اور سٹیل ملز پر توجہ دیں اور اس طرح کے اداروں کو سب سے پہلے بہتر اور منافع بخش بنائیں ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کروا کر عوام کو ترقی کی شکل دکھائیں اور پارلیمنٹ کے ممبروں کو صوابدیدی فنڈز دیکر قومی خزانے کو نالیوں میں نہ بہائیں سعودی عرب جیسے دوست اور چین جیسے ہمدرد پڑوسی کی مدد سے معیشت کی حالت درست کریں اور وزیروں مشیروں کی فوج کو کرپشن پر نہ لگائے ۔ملک میں بہتری کا اور بجلی بحران سے نکلنے کا سو دن کا جہاں آپ پلان دے رہے ہیں ۔وہاں اگر آپ اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں یہ اعلان بھی کردیں کہ پہلے سو دن کوئی اسمبلی ممبر تنخواہ نہیں لے گا اور تمام وزیر مشیربشمول وزیر اعظم ان سو دنوں میں گاڑیوں میں فیول اور اپنے تمام سرکاری اور غیر سرکاری دورے ملکی یا غیر ملکی ان کے اخراجات اپنی جیب سے کرے گا اس کمائی سے جو گزشتہ کئیں سالوں سے اکٹھے کرنے میں لگے ہیں ۔اور اس پیسے کو ملکی قرض اتارنے اور بجلی بحران کے حل کے لئے استعمال کریں تو عوام کو آپ کی اور آپ کی ٹیم کی نیک نیتی نظر آئی گی۔ عدالتی فیصلوں کا احترام کریں، اور نیب جیسے ادارے کی سمت درست کریںتوقیر صادق جیسے ڈاکٹروں کو قانونی کے شکنجے میں لائے اور لوٹ مارکرنے والوں کو محفوظ رستہ دیکر مصنوئی قومی یکجہتی اور سستی شہرت حاصل نہ کریں۔بھارت سے محبت، بھارت کے ظلم اور بربریت کا شکار ہونے والوں سے نفرت کے مترادف ہو گا ۔ہوسکے تو شہید ثنااللہ کی قبروں پر پھولوں کی چادرکیلئے احسن اقبال اور خواجہ ٓاصف ہی کو بجھوا دیں۔یاد رکھیں عوام آپ کے وعدوںکی طرف دیکھ رہی ہے اور آپ بھارت کے عشق میں مبتلا ہے اس یکطرفہ عشق کے پچھے کیا راز ہے ؟جناب عرفان صدیقی اور عطالحق قاسمی بہتر جانتے ہے عام آدمی کا خیال ہے کے یہ امن کی آشا والوں کی چال اور سیفماکے سانپ کی سازش ہو سکتی ہے۔
(سپاں دے پتر متر نہیں بن دے پاویں چلیاں دودھ پلائیے ھو۔۔۔)

asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 90715 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.