چین کے نئے وزیراعظم لی کیانگ کے دورہ پاکستان کو کامیاب
سمجھاجاناچاہیئے یاناکام ؟اس سوال کا جواب ہمیں چین پاکستان تعلقات اور
چینی وزیراعظم کے دورے کے پس منظرپر ایک نظر ڈالنا ضروری ہوگا۔ان کا دورہ
اس لحاظ سے تو پوری طرح کامیاب کہاجاسکتاہے کہ ان کا استقبال فیقید المثال
کیاگیا۔اور صدر، نگران وزیراعظم سمیت متوقع وزیراعظم بھی ظہرانے میں شریک
ہوئے۔چینی وزیراعظم کا طیارہ پاکستانی حدود میں داخل ہوتے ہیں چھ تھنڈر
اسکواڈ پاکستانی طیاروں نے انہیں اپنے حصار میں لے کر چکلالہ ایئر بیس
پہنچایا۔اکیس توپوں کی سلامی اور گارڈ آف آنر کا تحفہ بھی انہیں
دیاگیا۔ویسے بھی چین پاکستان کا سب سے مخلص اور قریبی دوست رہا ہے۔اس لئے
ان کا فقید المثال استقبال ضروری تھا۔چین اور پاکستان میں علاقائی تعاون
معاہدہ ضرور ہوناچاہیئے، ایشیاکی فلاح اور امنِ عالم کے لئے دونوں ملکوں کا
اتحاد بھی بے انتہا ضروری ہے۔دونوں ممالک میں متعدد تکملے اور مماثلتیں
پائی جاتی ہیںجن کو آپسی فلاح کے لئے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستانی
قیادت کے ساتھ اپنی بات چیت پر اطمینان کااظہار کرتے ہوئے دورہ پاکستان کو
خوش آئند قرار دیا۔انہوں نے اپنے بیان میں مزیدکہاکہ حالات چاہے کچھ بھی
ہوں پاکستان چین دوستی پائیدار ہی رہے گی۔ دونوں ممالک کی دوستی نسل در نسل
مضبوط ہوئی ہے اور یہ ہر آزمائش پر پوری اتری ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ باہمی
تعلقات اور دوستی مزید مضبوط ہوگی۔انہوں نے اپنے پُرتباک استقبال
پرپاکستانی قیادت کا شکریہ بھی ادا کیا۔ویسے دیکھنے میں یہ آیاہے کہ پاک
چین تعلقات میں وسعت آئی ہے اوراقتصادی ترقی میں تعاون پر چین نے رضا مندی
ظاہر کر دی ہے۔
پاک چین کے مابین گیارہ معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کر دیئے
گئے ہیں۔ایونِ صدر میں پاک چین کے درمیان معاہدوں پر دستخط کے حوالے سے بھی
تقریب منعقد کی گئی تھی۔پاکستان اور چین کے درمیان میری ٹائم ٹریفک تعاون،
سرحدی چوکیوں کے انتظامی نظام کو وضع کرنے ، طویل المدت اقتصادی راہداری،
اقتصادی اور تکنیکی شعبوں میں تعاون، خلائی ٹریفک کے نظام، سمندری سائنس
اور ٹیکنالوجی، سیٹلائٹ نیوی گلیشن سسٹم وضع کرنے،گریگ فیبرک
سمجھوتے،سالانہ تانبے کی خریداری کے معاہدوں پر دستخط کر دیئے گئے ہیں جوکہ
ظاہرہے کہ دونوں ممالک کے لئے سود مند ہونگے۔چین کے ساتھ مزید گوادر
بندرگاہ، فائبر آپٹک،خلائی سیارے جیسے معاہدے قابلِ ستائش ہیں۔
دعویٰ دوستی ہے تو کھل کر ملا کرو
یوں ساحلوں کی طرح نہ ہٹ کر چلا کرو
ہر شخص میرے شہر کا تم کو صنم کہے
یوں مسکرا کر سب کو اپنا کہا کرو
چین نے ہمارے سب سے بڑے مسئلے لوڈ شیڈنگ پر بھی اپناکردار ادا کرنے کی
پیشکش کی ہے۔ہمارے اقتدار والوں کا اب فرض بنتاہے کہ اس مسئلے کا حل اُن کے
ذریعے بھی نکالنے کی جستجوکریں ۔ویسے بھی اگر چین بجلی جیسے شدید ترین
بحران کو حل کرنے میں دلچسپی رکھتاہے تو اس سے فائدہ اٹھاناچاہیئے۔ان کے
ملک میں کون سی ایسی چیزہے جو نہیں بن رہی ، پِن سے لیکر پلین تک ہر چیز
چین میں بن رہی ہے اور ساری دنیا کے بازار ”میڈ اِن چائنا “کے مال سے بھرے
پڑے ہیں۔ہمارے ملک میں بھی ان کی تمام چیزیں با آسانی دستیاب رہتی ہیں۔چین
کے ساتھ مزید معاہدے بھی ہو سکتے ہیں اگر مہمان اور میزبان دونوں لچک جاری
رکھیں تو۔ ان کے سرمایہ دار اگر پاکستان میں سرمایہ کاری کریں تو پاکستان
کے لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی میسر آ سکتے ہیں اس لئے حکومت کو چاہیئے
کہ اس طرف بھی خصوصی توجہ دے ۔انہوں نے ہماری مہمان نوازی کی بے حد تعریف
بھی کی اور کہا،پاکستان ہمارا بہترین پڑوسی ہے۔ہم پاکستان کی مہمان نواز ی
پر شکریہ بھی ادا کرتے ہیں۔لی چی چیانگ کے بیان سے کسی کو کوئی اختلاف نہیں
کہ پاکستان اور چین کی مابین دوستی ہر آزمائش پر پوری اتری ہے، دوستی کے اس
رشتے میں دونوں ممالک نے انتہائی خلوص اور جذبہ ¿ تعاون کا مظاہرہ کیا ہے
جو قابلِ فخر ہے۔بہرحال پاک چین د وستی مادی فوائد سے بالا تر اور خلوص پر
مبنی ہے، اس کا بنیادی فلسفہ اس خطہ ارضی میں امن و سلامتی کو یقینی بنانا
ہے۔اور دونوں ممالک امن و امان کے فروغ کے لئے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
ہمارے ملک کے بھی اربابِ اقتدار کو چین کی ترقی سے کوئی سبق ضرور لینا
چاہیئے۔ان کی ترقی کے اسباب کا تجزیہ کرناچاہیئے تاکہ اُسی راستے پر گامزن
ہوکر ہم بھی اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں۔پاکستانی شہروں کی حالت اس وقت تک
تبدیل نہیں ہو سکتی جب تک دونوں ممالک بشمول بھارت کے ساتھ تجارت نہ کی
جائے۔ان ملکوں کے درمیان دوستی اور تجارت ہی اس خطے کی تقدیربن سکتی ہے۔اس
وقت ہمارے یہاں صدر، یا نگران وزیراعظم ہی کام کر رہے ہیں۔اور نئی حکومت
ابھی تک بنی ہی نہیں،لیکن بہرحال شہرِ اقتدار کو یہ ضرور اختیار ہوناچاہیئے
کہ صرف وعدوں کا پیالہ نہ بھریں بلکہ ان کی ترقی، ان کی پالیسیاں اور دوسرے
تمام معاملات کو سنجیدگی سے لیں اور اپنے ملک کے لئے بھی ترقی کا راستہ
ہموار کریں۔صرف قرض لے لینا بڑی بات نہیں ہوتی بلکہ اسے لوٹانا بڑا اہم
ہوتاہے۔ اس لئے قرض پر کم انحصار ہی ہماری قوم کے لئے راحت کا سامان ہو
سکتاہے۔
عظیم چینی رہنما ہو جن تاﺅ نے ایک موقعے پر کہا تھا کہ ” پاک چین دوستی
پہاڑوں سے بلند اور سمندروں سے گہری ہے“ اس لئے ہم یہ کہنے میں حق بجانب
ہیں کہ پاک چین دوستی کی اس سے بہتر تشریح نہیں کی جا سکتی۔وقت گزرنے کے
ساتھ ساتھ عالمی سیاسی منظر نامے کی شکل بہت بدل چکی ہے۔مگر پاک چین تعلقات
ہر آزمائش پر پورا اترے ہیں۔کراچی میں تعینات عوامی جمہوریہ چین کے قونصل
جنرل نے پاک چین تعلقات کے ماضی ، حال اور مستقبل کے حوالے سے اپنے خیالات
کو خوبصورت اظہار بھی تھا۔دھیمے لہجے اور احتیاط سے الفاظوں کا چناﺅ کرنے
والے سفارت کار نے کہاکہ دونوں ممالک کی دوستی کا مستقبل انتہائی تابناک
ہے۔ان کا کہنا تھاکہ چین اور پاکستان کی سر زمین کو صرف پہاڑوں ، دریاﺅں نے
ہی نہیں گھیر رکھا ہے بلکہ سرحد کے دونوں اطراف رہنے والے عوام دوستانہ
تعلقات کی ایک قابلِ قدر تاریخ رکھتے ہیں۔زمانے سے ہم قریبی دوست اور اچھے
ہمسائے رہے ہیں ،جس کا وقتاً فوقتاً بھارت بھی رونا روتا ہے۔
پاکستان اور اس کے عوام کو اپنے چینی بھائیوں کی دوستی پر فخرہے اور آپ کی
دوستی ہمارے لئے قیمتی اثاثہ بھی ہے۔دونوں ممالک کے عوام اس دوستی کو بہت
قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ویسے بھی اچھا پڑوسی ملک کسی نعمت سے کم نہیں
ہوتا۔خدا کرے کہ ہماری یہ دوستی (حالات چاہے جیسے بھی ہوں) صدا قائم و دائم
رہے ۔ |