جب تاریخ میں زیادہ تر مغل حکمرانوں کا ہندوستان کے حوالے
سے فتوحات اور حکمرانی کا تزکرہ کیا جاتا ہے تو سمجھ نہیں آتا کہ نصاب میں
افغانستان کے علاوہ افغانوں کی ایران ، تخت ِ دہلی اور ہندوستان کے صوبوں
پر 3561سالہ شاندار حکمرانی اور بے شمار بڑی فتوحات کو کی پیش کردہ کا ذکر
کرنے میں غفلت سے کام کیوں لیا جاتا ہے ۔ اکثر ہندوستان پر حکومت کے حوالے
سے مغلوں کا ذکر کیا جاتا ہے جبکہ قطب الدین ایبک ، التمش ، بلبن، اور
سکندر لودھی جیسے افغان حکمرانوں کے ذکر کو گول کرلیا جاتا ہے۔1516ءسوات
میں افغانوں سے شکست کھانے کے بعد یوسف زئی قبیلہ کے سب سے بڑے اور مضبوط
سردار شاہ منصور نے اپنی لڑکی کا ہاتھ بابر کے ہاتھ میں دے کر اُس کے ہاتھ
نہایت مضبوط کردئےے تھے۔بابر نے شیبانی خان ازُبک کے حملوں کے خوف سے بھاگ
کر1504ء، باجوڑ اور1514ءجہلم پر قبضہ کرلیا ، یوسف زئیوں نے اُسے نہ صرف
مدد ، بلکہ رشتہ اور رستہ دیکر ہندوستان پر حملے کی راہ ہموار کی۔بابر کی
چوالیس ہزار فوج کو پچیس سال جنگوں کا تجربہ تھا اس کے ساتھ سات سو کلدار
توپوں نے ہندوستان کا وہی حال کیا جو دوسری جنگ عظیم میں امریکہ کے ایٹم بم
نے غیور اور دلیر جاپانیوں کا کیا تھا۔ بابر کے متعلق ہیرلڈ اپنی کتاب
تاتاریوں کی یلغار میں لکھتا ہے کہ"اگر بابر کو کسی بات میں مہارت تی تو
ناکامی کے آثار دیکھتے ہوئے مخالفین کے بھگوڑے ہونے میں"جبکہ افغان سلطان
ابراہیم لودھی اپنے رشتے داروں ، عالم خان لودھی ، علاﺅ الدین لودھی اور
ہندو راجاﺅں کی فتنہ انگیزیوں اور سازشیوں سے گھرا ہوا تھا لیکن اس نے
مردانہ وار مقابلہ کیا اس کے لاش سب سے آگے پڑی تھی ایسے کسی مورخ نے
بھگوڑا یا بزدل نہیں کہا۔بابر نے ہندوستان کو کوئی نیا انتظامی ڈھانچہ نہیں
دیا بلکہ افغانوں ہی کے بنائے ہوئے لائحہ عمل کو اپنایا ۔بابر کی موت کے
بعد اس کے افیون کے عادی بیٹے ہمایوں کو مرتے دم تک افغانوں نے چین سے رہنے
نہیں دیا آخر شیر شاہ سوری نے 1539ءمیں تخت پر قبضہ کرلیا ، اگرچہ وہ بابر
سے جنگوں میں زیادہ الجھا رہا ۔بابر نے چار سال آٹھ ماہ چھ یوم حکومت کی
جبکہ شیر شاہ سوری نے اُس سے قلیل عرصے یعنی چار سال چار ماہ دس دن اس طرح
حکومت کی کہ اکبر اور اورنگزیب نے سو سال کی اپنی حکمرانی میں نہ
کرسکے۔اکبر بادشاہ بھی افغانوں کے انتظامی ڈھانچے کو چلانے پر مجبور رہا
کیونکہ اس میں وہ قابلیت تھی ہی نہیں۔ اس نے اسلام میں تفرقہ پیدا کرنے کے
لئے دین الہی کا نیا مذہب ایجاد کیا۔ جس میں سجدہ صرف شہنشاہ کےلئے، داڑھی
رکھنے کی حوصلہ شکنی، خنزیر کو حلال قرار دینا ، حج پر پابندی ،عربی تعلیم
کو نظر انداز کرنا ، بارہ سال سے پہلے ختنہ پر پابندی ،علماءمشایخ کو دربدر
کرنا ، اکبر کو خدا کا زمین پر نائب قرار دینا ،اکبر کے سامنے زمین بوس
ہوکر سجدہ کرنا ، کعبتہ اللہ کی جانب پاﺅں رکھ کر سونا ، نماز اور اذان کی
مخالفت جیسے ایسے ہی ملحدانہ نظریات کی اشاعت اکبر اعظم کے نئے مذہب کا تھا
جس کے سب سے بڑے پرچارک ابو الفصل کے خاتمے کے ساتھ کفر اور الحاد مبنی
مذہب کا خاتمہ ہوا۔جہانگیر ہی تھا جس نے سٹورٹ خاندان کے پہلے حکمران جیمز
اول کے نمائندے کیپٹن ہاکنز کو سورت میں1608 ایسٹ انڈیا کھولنے اور
1615میںسر تھامس روکو کمپنی کے لئے بنگال میں بلا محصول کھوٹیاں حاصل کرنے
کی اجازت دی۔ انجیئنر باشاہ نے اپنے تیس سالہ دور حکومت میں تاج محل ، تخت
طاوس،شاہ جہان آباد ،رنگ محل ، ممتاز محل ۔ مقبرہ جہانگیر ، شالامار باغ ،
نشاط باغ بنانے میں آٹھ کروڑ روپے اور آٹھ سال ضائع کئے۔ قندھار ، بلخ ،
بدخشاں کے معرکوں میں آٹھ کروڑ روپے اور دوسال ضائع کئے اور پچاس ہزار فوج
تباہ کی لیکن ایک انچ پر بھی قبضہ نہیں کرسکا ۔1650ءمیں دس پاﺅند سالانہ
کرائے پر بمبئی کا جزیرہ انگریزوں کے حوالے کیا ۔بعض مورخین شاہ جہاں کی
جانب سے عمارات بنانے کو بے روزگاری ختم کرنے کی تاویل کے طور پر لیتے ہیں
اگر واقعی ایسا تھا تو پھر عیاش گاہیں بنانے کے بجائے ، لوگوں کےلئے سڑکیں
، کنوئیں ، شفا خانے ، مدرسے یا درس گائیں بنا کر روزگار اور فوائد میسر
کرائے جاسکتے تھے ۔جیسا کہ شیر شاہ سوری نے اپنے ساڑھے چار سال دور حکمرانی
میں کیا ، لیکن ان کے کاموں کی نمود و نمائش اس لئے نہیں ہوتی کیونکہ ان
عوامی کاموں پر محافل رقص و سرور نہیں سجائی نہیں جاتی۔ بلکہ شیر شاہ سوری
کی بنائی ہوئی ہزاروں میل لمبی سڑکوں خصوصا جی ٹی روڈ یا جرنیلی سڑک کو چار
سو ستر برسوں سے اربوں کی تعداد میں پاﺅ تلے روندنے والوں نے کتنی ستائش کی
؟مغلیہ سلطنت کا شہنشاہ عالمگیر کا تو یہ عالم رہا کہ ایک طرف اس کے قصدے
پڑھے جاتے ہیں کہ روزی روٹی کے خاطرقرآن مجید لکھنے اور ٹوپیاں بنانے والے
ہاتھ ہی اپنے بھائی شجاع اور ان کے اہل عیال کے قتل سے رنگے ہوئے تھے۔اگر
مغل اور افغان فاتحین کا موازنہ ہو تو شہاب الدین غوری ، بختار خلیجی ،
علاو الدین خلجی سے بڑے فاتح ،غلوں نے پیدا نہیں کئے بلکہ بہلول لودھی ،
سکندر لودھی ، شیر شاہ سور اور مالوہ کے سلطان محمود خلجی جنہوں نے چورانے
سالہ دور حکومت میں بیشتر متعدد کامیاب جنگوں میں گذرا اور مغلوں سے کم
فاتح نہیں تھے۔افغانوں نے احمد شاہ ابدالی اور وزیر خان جیسی شخصیات بھی
پیدا کیںجس نے صرف 32برس کی عمر میں غیر تربیت یافتہ غیر منظم افغان قبائل
کو منظم کرکے 1842ءمیں انگریزوں کو خوفناک شکست دی انگریزوں کی حکمرانی کا
سورج پوری دنیا میں کہیں بھی غروب نہیں ہوتا تھا اس کے پاس بہترین فوج کے
دستوں اور جدید تریں ہتھیار بھی تھے لیکن انگریزوں کی تیس ہزار فوج میں صرف
ایک شخص ڈاکٹر برائیدن زندہ بچ جانے میں کامیاب ہوا تھا۔موجودہ دور میں ملا
عمر کو افغانستان جیسے سر کش ، خودسر ، جنگجو اور سر ہتھیلی پہ رکھ کے چلنے
والے افغانوں ، نیز نیہاےت پیچیدہ اور دشوار گذار علاقے میں امن و امان
قائم کرنے کا ملکہ حاصل رہا ہے۔افغانستان کی سرزمین پر امن کے لئے ان جیسا
ہی جنگجو اور رکھنے والے حکمران کی ضرورت ہے ۔افغانوں کی انتظامی طرز
حکمرانی سے جب عیاش مغل بادشاہوں نے استفادہ کیا تو اب ملا محمدعمر کی جانب
سے دئےے گئے سیاسی طور پر جدوجہد کے واضح پیغام پر بین الاقوامی قوتوں کو
سوچ لینا چاہیے کہ جہاں وہ اپنے عید کے پیغام میں قومی تشخص کا ذکر اور امن
کے لئے واضح رہنمائی دی جا رہی ہے تو اس لاحاصل جنگ سے کیا فائدہ ہوا جس
میں لاکھوں انسانوں کو جان کی قربانی دینی پڑی ۔ ملا عمر کا یہ کہنا قابل
غور ہے کہ سیاسی کوششوں کے لئے قائم دفتر کا قیام اور خاص جماعت کا تعین لا
یا گیا ہے ۔ان کے مطابق اس مذکورہ دفتر کے علاوہ مفاہمت کے لئے کوئی دوسرا
چینل نہیں ہے اس لئے خفیہ سیاست کرنے کے بجائے ملا عمر کی اس پیش کش کو
مثبت انداز میں لینا چاہے ۔ابھی تک نیٹو ممالک کی جانب سے سوائے انسانی جان
و مال نقصان اور شدت پسندی کے لئے الٹے سیدھے اقدامات سے سوائے نقصان کے
علاوہ کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔جب امریکہ کی جانب سے جاپان پر ایٹم بم گرا
کر لاکھوں معصوم انسانوں کے قتل عام کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے تو پھر امن
کے لئے اس سیاسی پیش رفت کا فائدہ اٹھانے میں مغربی ممالک کو کیوں تامل
ہے۔بالا سطور میں مغل مسلم حکمرانوں کے تذکرے کا بھی یہی مقصد ہے کہ ہم جب
ہندوستان کی سرزمیں پر قبضہ کرنے والوں کے گن گاتے رہیں گے تو کل ہمارے قوم
کے معماروں کے سامنے اصل حقیقت کون پیش کرے گا کہ افغانستان کی طرح
ہندوستان کی سرزمیں پر اُن کی مرضی کے بغیر قبضہ کیا گیا۔افغانستان میں
انگریزوں کی مداخلت سالوں سے جاری ہے ۔ اپنے پٹھو حکمران بھی بنائے ۔
امریکہ نے بھی انگریزوں کی روایت کو دوہرایا لیکن دنیا کا کوئی قانون ایسا
نہیں ہے کہ اپنی زمیں کے لئے کی جانے والی جدوجہد کو غیر انسانی فعل قرار
دیں۔یہاں مقصود کسی خاص تنظیم کی ترجمانی نہیں ہے لیکن ہم نے تاریخ سے یہ
سبق سیکھا ہے کہ لاکھوں جنگ و جدل کے بعد بھی مذاکرات کے ذریعے ہی امن کا
قیام عمل لایا جاتا ہے۔افغان طالبان کا مسئلہ اگر حل کرلیں تو جو دوسرے
گروپ جو پاکستان سمیت پوری دنیا میں امن کی خرابی کا باعث بنے ہوئے ہیں ان
کو افغان حکومت کے منتخب حقیقی نمائندے ہی راہ راست پر لا سکتے ہیں اگر
سیاسی دفتر کے چینل سے قیام امن کے لئے کوشش کی جائیں تو قیام امن کے لئے
یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہوگا ، پھر امریکہ آج نہیں تو کل ، افغانستان سے
نکل جانے پر مجبور ہوگا ہی ۔ جبکہ افغانی تو اپنی سرزمیں پر ہمیشہ موجود
رہیں گے ۔ سوچ لیںمستقل رہنے والوں کو ہمنوا بنایا جائے تو غیر ملکیوں کو ؟ |