سائنس کی تازہ ایجاد نے آج ایک
بار پھر انسان کو حیرت سے دوچار کر دیا ہے، اور اس ایجاد کو کمپیوٹر کہتے
ہیں۔ کمپیوٹر کی اس ایجاد نے انسان کو اس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں
مختلف اقسام کی آسانیوں اور سہولتوں کی نوید سنائی ہے۔
رہی یہ بحث کہ اس کے مفید اور مضر اثرات کس طرح مرتب ہوں گے؟ اسے مفید اور
مضر بنانا خود انسان کے اختیار میں ہے۔ اگر مثبت طور پر اس کا استعمال کیا
جائے تو یہ مفید ہے، اور اگر منفی طور پر استعمال کیا جاے تو مضر ٹہرتی ہے۔
اگر اس کے فوائد پر نظر ڈالیں تو یہ اپنے اندر معلومات کا بھنڈار سموئے
ہوئے ہے حقیقت یہ ہے کہ جیسے گویا بہت سی لائبریریاں ایک کوزے میں بند ہوں۔
آپ گھر بیٹھے ہر قسم کی معلومات آسانی سے دستیاب کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ
جدید کاروباری عمل میں بھی اس کے اچھے اثرات رونما ہو رہے ہیں، اس کے ذریعے
اہم انتظامی فیصلے بھی کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وقت کی بچت بھی کی
جا سکتی ہے گھر بیٹھے بیٹھے آپ ٹیلی فون ملائیےاور ہوائی جہاز کی نشست
محفوظ کرالیجئے۔ غرضیکہ کمپیوٹر آپ کی درس گاہوں، دفتروں اور تجربہ گاہوں
میں علم و عمل کی رفتار کو تیز تر کرتا نظر آتا ہے۔
اب اس کے نقصانات پر نظر ڈالیں تو وہ ہماری غلط عمل اور طریقے کار کی وجہ
سے رونما ہوتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا نقصان ایک دوسرے کے ساتھ چیٹنگ (بات
چیت)کرنا ہے
پتہ ہی نہیں چلتا کہ جس سے چیٹنگ ہو رہی ہے وہ لڑکا ہے یا لڑکی، اس کے
ذریعے بہت سوں کے تو دل بھی ٹوٹے ہیں، اس کے علاوہ بہت سوں نے چیٹنگ کے بعد
شادی بھی کی لیکن جلد ہی طلاق کی نوبت آگئی۔ بہت کم ایسی شادیاں ہوں گی جو
اس کے تحت کیں اور کامیاب ہوئی ہوں۔
ساتھ ہی ساتھ الٹی سیدھی سائیڈز کا کھولنا تقریباً تمام نوجوان نسل اسی میں
الجھی ہوئی ہے، اگر کسی کے گھر میں کمپیوٹر نہیں ہے تو رہی سہی کسر انٹر
نیٹ کیفے والوں نے پوری کر دی ہے ہمیں اتنے پیسے دو تو اتنے گھنٹے نیٹ
استعمال کیا جا سکتا ہے۔ والدین کے لئے چھوٹے بچوں کا کمپیوٹر کے استعمال
کا زور پریشانی کا سبب بنتا جارہا ہے اسکول کی کتاب کو کم کمپیوٹر کو کھولے
زیادہ بیٹھے ملیں گے جس سے اکثر بچوں کی بینائی بھی کمزور ہوجاتی ہے۔
میں اس بات کو مانتی ہوں کہ آپ کی تربیت اچھی ہوگی تو بچے کے بگڑنے کے
موقعے کم ہوتے ہیں۔ لیکن معاشرے میں جو برائی عام ہو اس کا اثر ہر ایک پر
پڑتا ہے۔ آج کا بچہ بچہ گھر سے نہیں تو اسکولوں ، کالجوں سے اسے ہر بات کا
علم وقت سے پہلے ہی ہوچکا ہے۔
اس لئے یہ کہنا بجا ہے کہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں اچھائی چند فیصد
اور برائی عام ہے۔ چند فیصد اچھائی کی وجہ سے ہم ابھی تک اللہ کے پکڑ میں
نہیں آسکے ہیں۔ لیکن اگر برائی کو ختم نا کیا گیا تو وہ دن دور نہیں جب ہم
پر اللہ کا قہر نازل ہو۔ اللہ اپنا کرم کرے۔ (آمین) |