یہ11 مئی 1998 کا دن تھا، بھارت
نے پوکھران (راجستھان) کے صحرا میں فشن (ایٹم بم) تھرمو نیوکلیئر (ہائیڈروجن)
اور نیوکران بموں کےپانچ ایٹمی دھماکے کیے تو علاقے میں طاقت کا توازن بگڑ
گیا، پاکستان کی سلامتی اور آزادی کے لیے خطرات پیدا ہوگئے، طاقت کا توازن
تبدیل ہونے سے بھارت کے جارحانہ عزائم کی تکمیل کی راہ ہموار ہو گئی تھی۔
بھارت نے ایٹمی دھماکے کرنے کے ساتھ ہی کشمیر کی کنٹرول لائن پر فوج جمع
کرنا شروع کردی تھی۔ بھارتی وزیر داخلہ اور امور کشمیر کے انچارج ایل کے
ایڈوانی نے بھارتی فوج کو حکم دیا کہ وہ آزاد کشمیر میں داخل ہو جائے جبکہ
بھارتی وزیر دفاع جارج فرنینڈس نے کہہ دیا تھاکہ عنقریب بھارتی فوج کو
ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کر دیا جائے گا۔ بھارت کے حکمرانوں اور سیاستدانوں
کا پاکستان کے بارے میں لہجہ ہی بدل گیا تھا۔انہوں نے پاکستان کی سا لمیت
اوردوقومی نظریے کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیاتھا۔ان کے لب ولہجے سے
غروراورپاکستان دشمنی کی بوآرہی تھی۔ یہ سب کچھ پاکستان کے خلاف جارحانہ
اقدامات کی تیاریاں تھیں۔بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا واضح مقصد صرف اور صرف
پاکستان کو خوفزدہ کرنا اور ایک طاقتور ملک ہونے کا ثبوت دےکر پاکستان سمیت
پورے خطے کے ممالک پر اپنی برتری جتلانا تھا۔
ان حالات میں پاکستانی قوم کا غیرت و حمیت کی وجہ سے رنجیدہ ہونا ایک فطری
عمل تھا۔ وہی قومیں تاریخ میں زندہ رہتی ہیں جو عزت سے جیتی اور غیرت سے
مرتی ہیں۔ بقول ٹیپو سلطان شہید شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ
زندگی سے بہتر ہے۔پاکستانی قوم کو بھارت کا غرورو تکبر ایک لمحہ کے لیے بھی
گوارہ نہ تھا، پاکستانی قیادت سمیت پوری قوم ایٹمی دھما کے کر کے بھارتی
رعونت کا فوری جواب دینے کیلئے متحد اور متفق ہو چکی تھی۔ خیبر سے کراچی تک
ایک عجیب جوش و جذبہ پیدا ہوچکا تھا جو اس قسم کے حالات کے دوران پاکستانی
قوم کا طرہ امتیازہے۔تمام پاکستانی اس بات کے لیے تیار تھے کہ اگر انہیں
پیٹ پر پتھر باندھ کر اور گھاس کھا کر گزارہ کرنا پڑا تو کریں گے لیکن
پاکستان کی عزت و ناموس پر آنچ نہیں آنے دیں گے اور بھارت کی بالادستی کسی
قیمت پر قبول نہیں کریں گے۔ اس وقت کی حکومت قومی ا سمبلی میں دوتہائی کی
نمایاں اکثریت کے ساتھ کام کر رہی تھی، ملک کی اپوزیشن ، سول سوسائٹی اور
میڈیابھارتی دھماکوں کا جواب دینے پر اصرار کررہے تھے۔ میڈیا نے تو یہاں تک
لکھ دیا تھا کہ ”اگر حکومت نے بھارتی دھماکو ںکا جواب نہ دیا تو عوام حکومت
کا دھماکا کر دیں گے“۔ پاکستانی عوام کے علاوہ عالم اسلام کے پاکستان دوست
حلقوں کی طرف سے بھی شدید دباﺅ ڈالا جارہا تھا کہ پاکستان بھی ایٹمی تجربہ
کر کے بھارت کو منہ توڑ جواب دے۔
اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے دھماکا کرنے سے قبل اس وقت کی فوجی
قیادت، سیاسی رہنماﺅں، سول سوسائٹی اور میڈیا کے علاوہ اہم سفارتی حلقوں سے
بھی مشاورت کی۔ مشاورت کے ساتھ ساتھ بھارت کے دھماکوں کے جواب کی تیاریاں
بھی جاری تھیں، نواز شریف نے کابینہ کے ارکان اور وزیر خارجہ کو چین، سعودی
عرب، کویت، بحرین، یو اے ای سمیت اپنے تمام دوستوں سے مشاورت کے لیے
بھیجا۔سعودی عرب نے کہاکہ آپ ایٹمی دھماکا کریں ہم آپ کے ساتھ ہر قسم کا
تعاون کریں گے،تمام اسلامی ممالک نے بھی پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کی حمایت
کی۔ جبکہ امریکا کے صدر بل کلنٹن اور برطانیہ کے وزیر اعظم نے نواز شریف کو
بار بار فون کر کے بھارت کے جواب میں خاموش رہنے کو کہا، اس کے بدلے میں
قرضوں کی معافی سمیت بہت سے مالی فائدوں کی یقین دہانی کرائی۔ امریکی صدر
کلنٹن، برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر اور جاپانی وزیراعظم موتو نے پاکستان
پر دباﺅ ڈالا کہ پاکستان ایٹمی دھماکا نہ کرے ورنہ اس کے خلاف سخت ترین
پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ فوج کے سابق چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ
جنرل (ر) شاہد عزیز نے اپنی کتاب ”یہ خاموشی کہاں تک“ میں لکھا ہے۔ 28 مئی
1998کو جب پاکستان ایٹمی دھماکے کی تیاریاں کر رہا تھا تو انٹیلی جنس ذرائع
نے بتادیا تھا کہ بھارت اور اسرائیل مل کر پاکستان کو ایٹمی دھماکا کرنے سے
روکیں گے۔ایک خبر یہ بھی تھی کہ اسرائیل کے چند طیارے حملے کے لیے پہنچ چکے
ہیں۔ ایٹمی دھماکوں کے روز امریکی بحریہ کے کئی جہاز جس میں ائرکرافٹ
کیرئیر بھی شامل تھا پاکستان کے ساحلوں کے قریب گھوم رہے تھے۔ پاکستان کے
ساحلی علاقوں میں امریکی طیاروں کی پروازیں جاری تھیں جو کبھی کبھی پاکستان
کی فضائی حدود کی خلاف ورزیاں بھی کرتی تھیں۔ فوج کا ملٹری آپریشنز شعبہ
دفاعی تیاریوں میں مصروف تھا۔ ایٹمی دھماکے والے علاقے میں بڑی تعداد میں
فوج بھیج دی گئی تھی۔ پاک فضائیہ کا کردار بہت اہم تھا، دفاعی تیاریاں مکمل
تھیں۔
پاکستان کے محافظ اچھی طرح جانتے تھے کہ دشمن کبھی بھی خاموش نہیں بیٹھے
گا۔ انہیں معلوم تھا کہ اسرائیل نے عراق کے ایٹمی ری ایکٹر پر 7جون 1981 کو
اچانک اور بھرپور حملہ کر کے سب کچھ ملیامیٹ کردیا تھا۔ ساتھ ہی نامور
سائنس دان بھی اللہ کو پیارے ہوگئے اور عراق اس میدان میں بہت پیچھے چلا
گیا۔ایسا ہی ایک منصوبہ اسرائیل نے اس وقت بھی بنالیا تھا۔ ایٹمی دھماکے سے
چند روز پہلے سعودی عرب کے” اواکس “(Awacs) طیاروں نے اسرائیلی جہازوں کے 6
اسکواڈرنوں کو بھارت کی طرف پرواز کرتے ہوئے دیکھ لیاتھا۔ حالات کے ”سیاق
وسباق “میں سعودی فضائیہ کو یہ صورت حال بڑی معنی خیز معلوم ہوئی۔ چنانچہ
سعودی عرب نے روایتی دوستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت پاکستان کو فوری طور
پر اس سے مطلع کرنا اپنا فرض سمجھا۔حکومت پاکستان معاملے کو بھانپ گئی۔
مواصلاتی سیٹلائٹ کے ذریعے اسرائیلی طیاروں کی نقل وحرکت کی مانیٹرنگ شروع
کردی۔ جس سے اسرائیل اور بھارت کا ناپاک منصوبہ ناکام و نامراد ہوگیا۔
ممکن تھا اگر اقوام متحدہ اور بڑی عالمی طاقتیں بھارت کے اس عمل کی سختی سے
مذمت کرتیں اور پابندیاں لگاتیں تو پاکستان بھی اس کا جواب نہ دیتا مگر
اقوام عالم کے رویے سے مایوس ہو کر حکومت نے فیصلہ کیا کہ پاکستان اپنا
فیصلہ خود کرے گا جس کے نتیجے میں حکومت نے ایٹمی سائنسدانوں کو تیار رہنے
کا حکم دیا، سائنس دانوں کی ایک ٹیم اسلام آباد سے کوئٹہ پہنچی جہاں سے
چاغی روانہ ہوئی، جہاں ایٹمی دھماکے کرنے تھے، بھارت کے دھماکوں کے ٹھیک 17
روز کے بعد جمعرات کا دن تھا،چاغی نے رنگ بدلا، سمندر کی لہروں نے انگڑائی
لی ، پھولوں، پتوں اور درختوں نے قومی گیت گائے، سرحدوں پر چوکس کھڑے
سپاہیوں نے حوصلہ پکڑا، وطن عزیز پاکستان کی مقدس فضا اللہ اکبر سے گونج
اٹھی اور سہ پہر 3 بجکر 40 منٹ پر یکے بعد دیگرے پانچ ایٹمی دھماکے کر کے
پاکستان نے بھارت کی برتری کا غرور خاک میں ملا دیا۔ اس کےساتھ ہی پاکستان
ایٹمی قوت رکھنے والا دنیا کا ساتواں اور عالم اسلام کا پہلا ملک بن
گیا۔چاغی میں ہونےوالے دھماکوں کی قوت بھارت کے 43کلو ٹن کے مقابلے میں50
کلو ٹن تھی۔ اس لمحے نے اہل وطن کو ایک نئی زندگی دی اور تحریک پاکستان کے
گم نام ہیروز کو انمول خراج عقیدت پیش کیا ۔28 مئی 1998 کی سہہ پہر کو وزیر
اعظم نواز شریف نے قوم کے نام اپنے خطاب میں اعلان کیا کہ پاکستان نے بھارت
کے ایٹمی دھماکوں کا جواب دے دیا ہے۔ یہ اعلان سنتے ہی خیبر سے کراچی تک
لوگوں نے جشن منایا، مٹھائیاں تقسیم کی گئیں، لوگ فون کرکے اپنے پیاروں کو
اطلاع کرتے رہے، نوجوانوں نے بھنگڑے ڈالے اور خوشیاں منائیں، پوری پاکستانی
قوم ایٹمی دھماکے کرنے پر خراج تحسین پیش کر رہی ہے۔پوری پاکستانی قوم کا
سر فخر سے بلند ہوچکا تھا۔اس تاریخی فیصلے کے اعزاز کی اصل مستحق پاکستانی
قوم ہے جو تمام رکاوٹوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے صرف پاکستان کی عزت کی خاطر
ہرقسم کی قربانی دینے کے لیے تیار تھی۔ اسی خوشی میں پاکستانی قوم ہر سال
28مئی کو یوم تکبیر مناتی ہے۔ |