نوٹ ! (28مئی یوم تکبیر کے حوالے
سے اشاعت کیلئے )
نعرہ تکبیر ہرمسلمان کی قوت ایمانی کاآئینہ دار ہے۔'' نعرہ تکبیر۔۔۔اللہ
اکبر'' کی جذباتی صدا سے کافر دشمن پرہیبت طاری ہوجاتی ہے اوراس کے پاﺅں
اکھڑ جاتے ہیں۔تکبیر کامعنی ہے بڑاتویوم تکبیر کامطلب ہوابڑا دن۔28مئی
1998ءکے شانداردن کویوم تکبیر کاجلی عنوان دیا گیا اوربلاشبہ پاکستان
اورپاکستانیوں کیلئے یہ ایک تاریخی ،بڑااہم اورقابل فخر دن ہے ۔28مئی
1998ءکواس وقت کے منتخب وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کے تاریخی فیصلے کی
روشنی میں ہندوستان کے اشتعال انگیز ایٹمی دھماکوں اورتوہین آمیز بیانات کے
جواب میں ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کادفاع ناقابل تسخیر بنادیاگیا ۔
14اگست 1947ءقیام پاکستان اور28مئی 1998ءاستحکام پاکستان کا دن
ہے۔28مئی1999ءکوایٹمی تجربات کاایک سال مکمل ہونے کی خوشی میںمسلم لیگ (ن)
کے دورحکومت میں سرکاری اورقومی سطح پریوم تکبیرانتہائی جوش وجذبہ کے ساتھ
منایاگیا مگربدقسمتی سے 12اکتوبر99ءکی شام پرویز مشرف نے اقتدارکی ہوس میں
منتخب جمہوری حکومت پرشب خون مار ااورآئینی وزیراعظم میاں نوازشریف کومعزول
کرتے ہوئے گرفتارکرلیا گیا۔2000ءسے 2012ءتک کسی حکومت کوسرکاری قورقومی سطح
پریوم تکبیر منانے کی توفیق نہیں ہوئی تاہم مسلم لیگ (ن) والے اپنے
طورپراندرون ملک وبیرون ملک یوم تکبیر کااہتمام کرتے رہے جبکہ اس سال
ہونیوالے عام انتخابات کے نتیجہ میں عوام نے ایک بار پھر مسلم لیگ (ن)کووفاق
اورپنجاب میں حکومت بنانے کامینڈیٹ دیا ہے لہٰذا ءآج پورے ملک میں یوم
تکبیر روایتی جوش وجذبہ کے ساتھ منایا جارہا ہے ،نامزدوزیراعظم میاں
نوازشریف شہرلاہورمیںیوم تکبیر کی مرکزی تقریب کی صدارت کریں گے۔دوسری
سیاسی پارٹیوں کے تعصب کی بدولت یوم تکبیر مسلم لیگ (ن) کے ساتھ منسوب
ہوگیا ہے۔دوسری طرف بھارت میں جس روزایٹمی تجربات کئے گئے وہ دن ہرسال
خاموشی سے گزرجاتا ہے۔
آزادی اورعزت خیرات میں نہیں ملتی اسے پانے اوربچانے کیلئے سردھڑ کی بازی
لگانا پڑتی ہے۔ہندوستان شروع دن سے پاکستان کی آزادی اور داخلی خودمختاری
اور سا لمیت کادشمن ہے۔ سقوط ڈھاکہ کی سازش میں جہاں ہمارے کچھ اپنوں کا
بڑامنفی کردارتھا وہاں اندرا گاندھی حکومت بھی پیش پیش تھی۔تنازعہ کشمیر کے
باعث اب تک پاکستان اورہندوستان کے درمیان براہ راست دوتین بارتصادم ہوچکا
ہے،تاہم سردجنگ آج بھی جاری ہے اورابھی دوردور تک اس کااختتام ہوتا دکھائی
نہیں دیتا۔بھارت ہمارا دشمن ہے اوراس کی دشمنی ہمارے مفادمیں ہے اگراس
کومثبت اندازمیں لیا جائے ۔کارگل کی آگ اگر نہیں پھیلی تواس کاکریڈٹ بھی
دونوں ملکوں کی جمہوری قیادت اور ایٹمی طاقت کوجاتا ہے۔ بھارت نے ایٹمی
دھماکے کئے تواس سے پاکستان میں بے چینی اور بے یقینی کا پیداہونا فطری
تھا۔ہندوستان کی ایٹمی طاقت پاکستان کی آزادی اورعزت دونوں کیلئے ایک
بڑاچیلنج تھی ۔ایٹمی قوت نے بھارت کے شدت پسنداور جنونی حکمرانوں کا دماغ
مزید خراب کردیااور انہوں نے پاکستان کیخلاف جارحانہ بیانات اوراقدامات
شروع کردیے تھے ۔بھارت کے حکمرانوں اورمتعصب سیاستدانوں کالب ولہجہ توہین
آمیز اورتکبر کاآئینہ دار تھا۔تحریک آزادی کشمیر سے دستبردار نہ ہونے کی
صورت میںپاکستان سے آزاد کشمیرچھین لینے کی دھمکیاں دی جارہی تھیں۔پاکستان
اور ہندوستان کے بار ے میں امریکہ ،برطانیہ اوریورپ کاڈبل اسٹینڈرڈ بھی
پوری طرح ایکسپوز ہوچکا تھا۔پاکستان کومسلسل دباﺅ اورخطرات کاسامنا تھا ۔
ایسے میں قوم کوایک نڈرقیادت اور پاکستان کوقومی یکجہتی کی اشد ضرورت تھی ۔ہندوستان
کی طرف سے ایٹمی دھماکوں کے بعدخطے میں طاقت کا توازن بری طرح بگڑ گیاتھا ۔برصغیر
پر جنگ کاخطرات منڈلارہے تھے۔کشمیر کی آزادی کا خواب بکھرتا ہوانظر
آرہاتھا۔یہ صورتحال پاکستان کے منتخب اورمقبول وزیراعظم میاں محمدنوازشریف
اوران کی کابینہ کیلئے ایک بڑاامتحان تھی،میاں محمدنوازشریف نے پورے صبرو
تحمل اور بھرپورطاقت سے اس کا جواب دیا۔ اس آزمائش میں میاں محمد نوازشریف
بجاطور پر قوم کی امیدوں پر پوراترے ۔ پاکستان کے غیورعوام گھاس کھانے
اوراپنے اپنے پیٹ پرپتھر باندھنے کیلئے بھی تیار تھے لیکن انہیں کسی قیمت
پر جنوبی ایشیاءمیںبھارت کی بالادستی یاتھانیداری قبول نہیں تھی۔ ہندوستان
کے تکبر کاجواب پاکستان نے نعرہ تکبیر سے دیااورمیاں محمدنوازشریف کی
بیرونی دباﺅکیخلاف مزاحمت ،سیاسی بصیرت ،شجاعت ،جسارت اورجرا ت انکار نے
پاکستان کودفاعی طورپرناقابل تسخیربنادیا۔
ایٹمی دھماکوں سے قبل بحیثیت وزیراعظم میاں محمدنوازشریف نے اپنے جہاندیدہ
والد میاں محمدشریف مرحوم اوراپنے زیرک بھائی میاں محمدشہبازشریف سے مشاورت
کرنے اوروفاقی کابینہ سمیت پارلیمنٹ کواعتماد میں لے کر ایٹمی دھماکوں
کاآبرومندانہ اور جراتمندانہ فیصلہ کیا۔امریکہ ،برطانیہ ،جاپان اورفرانس
سمیت متعدد ملک پاکستان پر ایٹمی دھماکے نہ کرنے کیلئے دباﺅڈال بلکہ براہ
راست ڈرادھمکا رہے تھے۔قومی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیرخان راوی ہیں کہ امریکہ کے
سابق صدر بل کلنٹن نے پاکستان کوایٹمی دھماکوں سے باز رکھنے کیلئے دباﺅ کے
ساتھ میاں محمد نوازشریف کومراعات کالالچ بھی دیا حتیٰ کہ ان کے نجی بنک
اکاﺅنٹ میں 100ملین ڈالرزکی خطیررقم منتقل کرنے کی آفر کی لیکن صدآفرین ہے
میاں محمدنوازشریف پر جوزراورزورکی پرواہ نہ کرتے ہوئے پاکستان کے قومی
مفادات کی حفاظت کیلئے فیصلے پر ڈٹ گئے اورپاکستان نے ہندوستان کی بالادستی
کا خواب چکناچورکرکے برصغیرمیںطاقت کاتوازن درست کردیا۔برصغیر میںایٹمی
طاقت کی دوڑ کاآغاز انڈیا نے کیا اگر وہ ایسا نہ کرتا تو شاید پاکستان بھی
اس ریس میں شریک نہ ہوتا۔تاہم پاکستان کی جوہری صلاحیت خالصتاًپرامن
اوردفاعی مقاصد کیلئے ہے۔پاکستان آج بھی جیو اورجینے دوکے اصول پرکاربند
ہے۔
یوم تکبیر اپنے نام کی طرح ایک بڑا دن ہے۔یہ دن قومی توقیر او رہمارے
خوابوں کی تعبیر کادن ہے ۔یوم تکبیر ایک قومی دن ہے اوراسے قومی دن کی طرح
منایا جانا چاہئے ۔زندہ دل قومیں اپنے قومی دن تجدید عہداورجوش وخروش کے
ساتھ منایا کرتی ہیں۔ یوم تکبیرکے حوالے سے ڈکٹیٹرپرویز مشرف اورصدرآصف علی
زرداری کے ادوار میںسرکاری سطح پرتقریبات کاا نعقادنہ کیا جاناشرمناک
اورافسوسناک ہے ،تاہم اس حوالے سے ہرسال پاکستان کے محب وطن عوام نے گھر
گھر قومی پرچم لہرائے اور چراغاں کرکے زندہ دل قوم ہونے کاثبوت دیا۔یوم
تکبیر صرف پاکستان مسلم لیگ (ن)کانہیں ہرسچے اورمحب وطن پاکستانی کادن ہے۔
امسال بھی مسلم لیگ (ن) سمیت محب وطن جمہوری قوتوں نے پاکستان سمیت دنیا
بھر میں یوم تکبیر منانے کااہتمام کیا ہے۔ جاپان میں مسلم لیگ (ن) اوورسیز
کے مرکزی سیکرٹری جنرل شیخ قیصر محمود،برادرم لطیف حسن نیازی،میاں
جاویداقبال،برطانیہ میں اقبال سندھو ،امریکہ میں اخترڈار ،کینیڈامیں چودھری
سہیل اختر وڑائچ، اشرف رانا ،محمدندیم طفیل،شہزادکھوکھر ،سپین میں قمرریاض
خان ،یونان میں کاشف عزیز بھٹہ جبکہ تنزانیہ میں سکندرجتوئی کی قیادت میں
اورمسلم لیگ (ن) کے پرچم تلے یوم تکبیرکی تقریب سعید شایان شان انداز سے
منائی جائے گی۔
بہر کیف ذوالفقارعلی بھٹو سے میاں محمد نوازشریف اورڈاکٹرعبدالقدیرخان تک
ہروہ شخصیت قابل تحسین ہے جس نے پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کی بنیاد رکھی
،اسے پروان چڑھایا اوراسے بدترین دباﺅکے باوجود پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ جس
قسم کے نازک اورکٹھن حالات میں میاں محمد نوازشریف نے ایٹمی دھماکوں
کافیصلہ کیا وہ ان کی وطن دوستی کا زندہ ثبوت ہیں ۔ میاں محمد نوازشریف
بیرونی دباﺅ کامقابلہ کرنے میں اسلئے کامیاب رہے کیونکہ ان کے ساتھ عوام کی
طاقت اور پارلیمنٹ کی حمایت تھی ۔اگر انہیں بھی جنرل پرویزمشرف کی طرح تنہا
فیصلے کرنے کی عادت ہوتی تووہ صدربل کلنٹن کے ایک بار کہنے پرہی ان کے تمام
مطالبات مان کر پاکستان کی داخلی خودمختاری اورآزادی کو قربان کر دیتے جس
طرح پرویز مشرف نے9/11کے بعد کالن پاﺅل کی ایک فون کال پر ان کی تمام شرائط
مان لی تھیں۔مگر 1998ءمیںایسا نہیں ہوا کیونکہ اس وقت پاکستان میں جمہوریت
بحال جبکہ عوام کی منتخب اورمقبول سیاسی قیادت برسراقتدار تھی۔حالات
وواقعات اس بات کے گواہ ہیں کہ فوجی ڈکٹیٹرنہیں صرف قومی قیادت ہی مقبول
فیصلے کرسکتی ہے۔پاکستان کے میزائل پروگرام نے بھی سیاسی اورجمہوری
دورحکومت میں کامیاب تجربات کے مراحل طے کئے اوراس کاکریڈٹ بھی میاں
محمدنوازشریف کوجاتا ہے۔آج اگر پاکستان اپنے دشمن ہندوستان کے ساتھ آنکھ
میں آنکھ ڈال کربات کرسکتا ہے تو اس کاسہرابھی مسلم لیگ (ن) کے
نڈرصدراورنامزد وزیراعظم میاں محمدنوازشریف کے سر ہے۔ الحمدللہ آج کوئی ملک
پاکستان کی سا لمیت کومیلی آنکھ سے دیکھنے کاتصور بھی نہیں کرسکتا ۔پاکستان
کے ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے خطرات کاپروپیگنڈا بے بنیاداوردیوانے کا خواب
ہے۔جو ملک بیرونی خطرات اورمزاحمت کے باوجود ایٹم بم بناسکتا ہے وہ اس کی
حفاظت بھی کرسکتا ہے،امریکہ کو خوامخواہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔پاکستان
کے نیوکلیئر اثاثوں کوکس سے خطرہ ہے اورانہیں کس طرح بچانا ہے یہ ہمارے
زیرک حکمران بخوبی جانتے ہیں۔
نوٹ ! (28مئی یوم تکبیر کے حوالے سے اشاعت کیلئے ) |