شام میں چالیس سال سے اسدی خاندان کی حکمرانی سے
چھٹکاراحاصل کرنے کے لیے مارچ 2011 سے شروع ہونے والی عوامی تحریک ابھی تک
اپنے پختہ عزم کے ساتھ جاری و ساری ہے۔اس تحریک میں اب تک اہل سنت شامی
عوام کی بڑی تعداد اپنی جانوں کے نذرانے دے چکی ہے۔ گزشتہ دنوںلندن میں
قائم شامی آبزرویٹری برائے انسانی حقوق نے شام میں جاری عوامی احتجاجی
تحریک اور خانہ جنگی میں ہلاکتوں کی تعداد پر نظرثانی کرتے ہوئے کہا تھا کہ
شام میں اب تک چورانوے ہزار سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں۔آبزرویٹری کے
مطابق صدر بشارالاسد کے فرقے کے کنٹرول والے علاقوں طرطوس اور اللذاقیہ سے
ہلاکتوں کے نئے اعداد وشمار موصول ہوئے ہیں اوراس کے بعد ہلاکتوں کی کل
تعداد پر نظرثانی کی گئی۔اس تنظیم نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ شام میں
جاری خانہ جنگی میں مارے گئے افراد کی نصف سے زیادہ تعداد عام شہریوں پر
مشتمل ہے۔آبزرویٹری کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق اس تحریک میں مارے جانے
والوں میں 34473 عام شہری ، 4788 بچے اور3049 خواتین شامل ہیں۔ بشارالاسد
کی فوج کے ساتھ لڑائی میں اس عرصے میں 16687 جنگجو اور منحرف فوجی مارے گئے
ہیں۔ 16729 اسدی فوجی بھی کام آئے ہیں۔حکومت کی حامی شبیحہ (ملیشیا) کے
بارہ ہزار سے زیادہ جنگجو اس لڑائی میں ہلاک ہوئے ہیں۔ان کے علاوہ ملک کے
مختلف علاقوں سے 2368 لاشیں ملی تھی مگر ان کی شناخت نہیں ہوئی۔جبکہ عالمی
انسانی حقوق کمیشن کا کہنا ہے کہ شام میں حکومتی فوج کے ہاتھوں قتل ہونے
والوں کی تعداد82 ہزار نہیں، جیسا کہ اقوام متحدہ بتا رہی ہے، بلکہ مقتولین
کی گنتی سوا لاکھ سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔
عرب ممالک، اقوام متحدہ اور عالمی برادری شروع دن سے شام میں جاری خانہ
جنگی کی لفظی مذمت کررہے ہیں۔ عالمی برادری کا کہنا ہے کہ شام کا بحران
پورے خطے کے لیے مسائل پیدا کر سکتا ہے،لہٰذا شام کے مسئلے کو حل کرنے کی
فوری کوشش کی جانی چاہیے۔بشارالاسد فوری طور پر اقتدار چھوڑ دیں، اگر اس نے
اپنی روش نہ بدلی تو شام میں خانہ جنگی میں ہلاکتیں مزید بڑھیں گی ۔ ان
ممالک کا کہنا ہے کہ جو لوگ یا ممالک بشارالاسد کے ساتھ تعاون کررہے ہیں،وہ
شامی عوام پر ظلم کررہے ہیں۔کچھ روز قبل سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ
سعود الفیصل نے بھی اپنے بیان میں کہا تھا کہ سعودی عرب شام کے مستقبل میں
بشار الاسد کے کردار کو مسترد کرتا ہے۔کیونکہ بشار الاسد کے ہاتھ شامیوں کے
خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ ان کا ملک شامی عوام کی حمایت کرتا ہے۔ شامی عوام نے
دوٹوک الفاظ میں واضح کردیا ہے کہ شام میں بشار الاسد کا کوئی کردار نہیں
ہونا چاہیے۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ نے کئی بار ایران اور حزب اللہ پر الزام عائد
کیاہے کہ وہ بشار الاسد کی حمایت کررہے ہیں۔ اور اس الزام کے شواہد بھی
سامنے آچکے ہیں لیکن حزب اللہ نے اس بات کی تصدیق نہیں کی تھی جبکہ تین روز
قبل حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے واضح الفاظ میں بشارالاسد کی حمایت
کا اعلان کیا ہے۔ لبنان کی تنظیم حزب اللہ کے رہنما شیخ حسن نصر اللہ نے
ہفتہ کے روز خبردار کیا ہے کہ شام میں صدر بشار الاسد حکومت کے خاتمہ سے
باغیوں کی انتہا پسندی میں اضافہ ہو گا اور مشرق وسطٰی تاریک دور میں داخل
ہو جائے گا۔ٹیلیوژن خطاب میں حسن نصر اللہ نے اپنے جنگ جوﺅں کی شام میں
موجودگی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ حزب اللہ کے کارکن شام میں اسلامی
انتہا پسندوں کے خلاف لڑ رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم لبنان سے ملحقہ سرحد
پرشامی باغیوں کو کنٹرول حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ حسن نصر اللہ نے
پہلی مرتبہ عوامی سطح پر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کے گروپ ارکان شام
میں لڑ رہے ہیں۔ حزب اللہ کے جنگجو لبنانی سرحد سے ملحقہ قصیر شہر میں جنگ
میں ملوث ہیں،حالیہ دنوں میںقصیر میں انقلابیوں اور حزب ملیشیا میں شدید
جھڑپیں ہوئی ہیں۔ حزب کو بشارالاسد کی فورسز کے ساتھ لڑائی میں اپنے ملک
اور بیرون ملک سخت تنقید کا سامنا ہے۔اپنے خطاب میں حسن نصر اللہ نے اپنے
گروپ کی شام میں ملوث ہونے کی دفاع کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ اس جنگ میں
لبنان کے مفادات بھی داو ¿ پر لگے ہوئے ہیں۔ ’یہ جنگ ہماری ہے اور میں آپ
سے فتح کا وعدہ کرتا ہوں۔‘حسن نصر اللہ کا کہنا تھا کہ اگر سنّی اسلام پسند
شام پر غالب آگئے تو یہ لبنان کے شیعوںاور عیسائیوں سب کے لیے ایک خطرہ
ہوگا۔ ان کی تحریک شامی باغیوں کا ساتھ نہیں دے سکتی۔یاد رہے گزشتہ ہفتے
امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے کہا تھا کہ حزب کے ہزاروں جنگجو شام میں
جاری تشدد میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے ایران پر حزب ملیشیا کے
اس کردار کی حمایت کا الزام بھی عائد کیا تھا جسے ایران نے رد کر دیا
تھا۔اس کے ان دنوں سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر علاوہ لبنانی حزب ملیشیا کے
سربراہ حسن نصر اللہ کی جانب سے شام کی خانہ جنگی میں اپنے جنگجووں کی شرکت
کے اعتراف کے حوالے سے بھی ایک ویڈیو گردش میں ہے۔
دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ ایرانی پاسدران انقلاب کے ذیلی یونٹس نے شامی
خانہ جنگی میں بشار الاسد نواز فوج کی مدد کے لیے رضا کاروں کی بھرتی شروع
کی ہوئی ہے۔ شامی جنگ میں شرکت پر آمادہ رضاکاروں کے لیے ”ابو الفضل العباس“
کے نام سے خصوصی یونٹ قائم کیا گیا ہے۔ایرانی میڈیا رپورٹس کے مطابق رضا
کاروں کو پاسداران انقلاب کی کور فورسز کے ہیڈ کوارٹرز کی جانب جاتے دیکھا
گیا ہے۔ یہ رضاکار شامی فوج کے ساتھ مل کر باغیوں کے خلاف لڑنے کے لیے اپنے
نام رجسٹرڈ کروا رہے ہیں۔شام میں اہل سنت عوام کے خلاف لڑائی کے لیے رضاکار
بھرتی مہم کے اشتہار کی ٹیگ لائن ”بلند مرتبہ سیدات کی دہلیز کا تحفظ“ رکھی
گئی ہے۔ اس نعرے میں سیدہ بی بی زینب کے مزار کا حوالہ دیا گیا ہے جو دمشق
کے نواح میں واقع ہے۔ اسی نعرے کو لبنان میں حزب اللہ اور عراقی "الحق
بریگیڈ“ شامی جنگ میں شرکت کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ایرانی پارلیمنٹ کی
نیشنل سیکورٹی اور خارجہ پالیسی کمیٹی کے رکن محمد صالحی جوکار نے شامی فوج
کے ہمراہ جیش الحر سے لڑنے کے لیے ایرانی بھرتی کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا
کہ یہ مہم غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) چلا رہی ہیں۔ یہ سب ایرانی
ثقافت و اقدار کے تحفظ کے لیے ایسا کر رہی ہیں جس کے لیے انہیں فری ہینڈ
دینا ضروری ہے۔انہوں نے مزید کہا ”شامی فوج کو اکیلا چھوڑنا جائز نہیں۔ ۔واضح
رہے کہ شامی اپوزیشن اور دنیا بھر کے مختلف ممالک ایران، لبنان اور حزب
اللہ پر شامی معاملے میں براہ راست مداخلت کا الزام لگاتے آئے ہیں۔ ان کے
بہ قول ایران، بشار الاسد حکومت کی بھرپور مدد کر رہا ہے۔حال ہی میں ایران
کی فوجی حمایت یافتہ لبنانی ملیشیا حزب اللہ کی شامی جنگ میں عملی شرکت کا
اعتراف بھی سامنے آیا تھا۔ |