اے ہم نفسو! فکر کرو

آج کل ملک بھرکے عوام ڈبل ٹرپل مار جھیل رہے ہیں۔ ایک طرف تو گرمی نے انہیں بے حال کررکھاہے تودوسری طرف طویل ترین لوڈ شیڈنگ نے ان کا جینا دوبھرکردیاہے۔لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے ہیں۔تو تیسری طرف ملک کا سیاسی موسم بھی ان کی جینے کی راہ میں کسی رکاوٹ سے کم نہیں۔کرپشن و مہنگائی اگر آسمان کو چھو رہی ہے تو گرمی سیاست سے زمین تپ رہی ہے۔بے چارے بے بس و بے کس عوام جائیں تو کہاں اور کریں توکیاکریں۔حکمراں تو اپنے فلک بوس مکانوں میں رہ کر آسمانی جنت کے مزے لے رہے ہیں اور عوام جہنم زدہ زمین میں تڑپ تڑپ کر جانیں دے رہے ہیں۔مشہور قصہ ہے کہ ”جب حکمرانوں کا رشتہ رعایا سے کٹ جاتا ہے تو وہ محض حکمراں ہی رہ جاتا ہے“ عوام کن حالات سے گزر رہے ہیں اس سے ان کا نہ کوئی سروکار ہوتاہے اور نہ ہی کوئی غرض ہوتی ہے۔وہ تو ہر وقت اپنے فلکیاتی بیانوں سے ہی کام لیتاہے۔یہ صورتحال ہے ہمارے جمہوری ملک پاکستان کی،جسے دنیا میں جمہوری ملک ہونے کا شرف حاصل ہے۔دلچسپ اور فکر انگیز بات تویہ ہے کہ اس وقت سیاسی سمندر میں ایسے ایسے سیاستداں غوطہ زن نظر آ رہے ہیں جنہیں معلوم نہیں کہ سیاست کسے کہتے ہیں اور جمہوریت کیا ہے؟لیکن انہیں یہ ضد ہے کہ وہ سیاست ہی کریں گے۔تازہ تازہ ایک سیاستدان صاحب نے آنے والی حکمراں پارٹی میں شمولیت اختیار کیاہے اور اخباری خبر کے مطابق انہوں نے کہاکہ میاں صاحب جہاں چاہیں انہیں فٹ کر دیں کیونکہ وہ عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔کئی بار وزیر اور ایک بار وزیراعظم رہ کر کیا انہوں نے عوام کی خدمت کی ہے جو اب انہیں یہ خیال آگیا۔دراصل سیاست ایک ایسانشہ ہے جس کی لت کسی کو ایک مرتبہ لگ جائے تو عمر بھر اس سے رستگاری مشکل ہے،یعنی چھٹتی نہیںہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔اس میخانے میں آج کل نہ صرف ایسے ایسے بلا نوش داخل ہو رہے ہیںجو معاشرے میں بددیانت اور بدعنوان کی حیثیت سے مشہور ہیں۔اس لئے حکمراں پارٹی کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیئے کہ ان کی کامیابی کو دیکھ کر لوٹے کی طرح ان کی پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے افراد صاف ستھرے ہیں یا نہیں۔ اگر نہیں تو انہیں پارٹی میں جگہ نہ دی جائے ۔کیونکہ ایسے لوگ ملک و قوم کا مفاد نہیں بلکہ اپنا اپنا مفاد اور کرسی ہی عزیز رکھتے ہیں۔احمد ندیم قاسمی صاحب کا یہ شعر بھی کیاخوب ترجمانی کرتاہے۔
ہم سیاست سے محبت کا چلن مانگتے ہیں
شبِ صحرا سے مگر صبحِ چمن مانگتے ہیں
لمحہ بھر کو تو لُبھا جاتے ہیں نعرے ،لیکن
ہم تو اے وطن،دردِ وطن مانگتے ہیں

ملک کے سیاسی حالات کے علاوہ پاکستانی عوام کے حالات اوربھی دگرگوں ہیں،عوام کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان کو اب تک کوئی ایسی قیادت نہیں ملی جو انہیں احتیاج اور بھیک مانگنے سے نجات دلا سکے۔کیونکہ ہماری ضرورت اتنی ہے کہ ہمیں مجبوراً امریکہ اور دوسرے اداروں سے رقم لینا ضروری ہو جاتاہے۔پھر بھی اگر یہ رقم عوامی بھلائی کے لئے خرچ ہوتے تو یقینا اب تک قرضہ اُترچکاہوتامگر عوام سے بڑھ کر ہماری سیاست کے مکینوں کی سیکوریٹی،ان کی اپنی تنخواہیں اور مراعات ہی اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ عوام تک ثمرات پہنچ ہی نہیں پاتے۔ہر حکمران عوام کی جان و مال،عقیدے اور نظریات و تشخص کی ضمانت تو دیتے ہیں مگراس پر اٹل نہیں رہ پاتے۔نسل در نسل عوام ہی تباہی کے دہانے پر پہنچتے ہیں۔اور یہ سلسلہ آج بھی ہنوز جاری و ساری ہے۔نئی حکومت سے عوامی امیدوں کاسحر ابھی باقی ہے دیکھئے وہ کیا کچھ عوام کے لئے کرتے ہیں۔ابھی عوام کو نئی حکومت سے کافی زیادہ ریلیف کی توقع ہے اور عوام اپنی بہتر زندگیوں کے حصول کے لئے حکمرانوں کے دروازوں پر کاسہ گدائی لئے صدا لگا رہے ہیں۔

یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جس عوام کے ہاتھوں عملاً حکومتوں کو بنانے اور بگاڑنے کی قوت مرکوز ہے،جو اپنے اجتماعی وزن کے ذریعہ کسی بھی پلڑے کو جھکانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے،وہ عوام آج بھی زندگی کی بنیادی مسائل سے نہیں نکل سکی۔بے چارگی، کسمپرسی،استحصال،محرومی اور ظلم و ستم کا نہ صرف عوام شکار ہیں بلکہ وہ اس صورتحال پر کسی حد تک قانع بھی نظر آنے لگے ہیں۔ان کی شکست خوردہ ذہن نے انہیں سب کچھ سوچنے پر مجبور کر دیاہے۔جہاں ایک وقت دال پکانا بھی مشکل نظر آتاہے۔گوشت کے بارے میں تو یہ عوام اب کم ہی سوچتی ہے کیونکہ ایک کلو گوشت آج کل چار سو روپئے سے کم میں دستیاب نہیں ہے۔جہاں نوجوانوں کو نوکریاں نہیں ملتیں کہ جنہیں حاصل کرنے کی جستجو میں نوجوان مارے مارے پھرتے نظر آتے ہیں کہ کاش!انہیں کوئی نوکری مل جائے تو وہ اپنے گھر کا کفیل بن جائے۔ظاہرہے کہ ڈگریوں کا جمِ غفیر جمع کرنے کے بعد بھی انہیں نوکری نہیں ملتی توپھریہ نوجوان دوسری بیساکھیوں کی تلاش میں پریشان اور سرگرداں نظر آتے ہیں۔نئی حکومت کو اس طرف خاص توجہ دینا پڑے گاتاکہ اس ملک کا نوجوان کم از کم اپنے گھرکاکفیل توبن سکے۔اگر سنجیدہ کوششیں کی جائیں تویہ حقیقت نظروں سے پوشیدہ نہیں رہے گا اور سب دیکھیں کہ اداروں میں No Vacancyکے بجائے Vacancyکا بورڈ آویزاں ہوگا۔ان نوجوانوں کے اندر شکست خوردگی کا احساس پیدا ہونے سے پہلے انہیں قوتِ عمل اور جوشِ عمل سے محروم کر دینے کی تمام رکاوٹوں کو دورکرنا ہوگا۔

آج ملک میں مہنگائی نے ہر طبقہ کی ناک میں دم کررکھاہے۔پاکستان بھر کے عوام کی زبان پر ایک ہی بات ہے مہنگائی نے مار ڈالا۔ایک دور تھا جب حکومتی سطح پر مہنگائی بڑھائی جاتی تھی تو اس کے لئے باضابطہ منصوبہ تیار کیاجاتاتھا۔برسرِ اقتدار پارٹی خوف زدہ رہتی تھی کہ اگر ایسی ویسی حرکت ہوگئی تو عوام مشتعل ہوکر سڑکوں پر آجائیں گے۔لہٰذا بے حد احتیاط سے مہنگائی بڑھانے کے سلسلے میں غورکیا جاتاتھا۔آج عالم یہ ہے کہ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے نہ کوئی بولنے والا ہے اور نہ اس سلسلے میں کسی کو دلچسپی ہے۔حالت یہ ہے کہ ہر طبقے کے لوگوں میں بے چینی پائی جارہی ہے۔اس بے لگام مہنگائی کے زمانے میں لوگوں کے لئے گھر کا خرچ چلاپانامشکل ہو رہاہے۔کھانے کی اشیاءسے لے کر پہننے اوڑھنے کی تمام چیزیں غریب اور متوسط طبقہ کی دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔مہنگائی سے نجات دلانے کے لئے کوئی بھی پارٹی تیار نہیں ہے۔معمولی تنخواہ پانے والا شخص اپنے اہلِ خانہ کا کس طرح پیٹ پال سکتاہے جبکہ اُسی تنخواہ میں بچوں کو پڑھانا لکھانا بھی ہے۔سرکاری محکموں میں ملازمت کرنے والے لوگ بھی مطمئن نظر نہیں آتے ،مہنگائی نے ان کا جینا بھی دوبھرکر دیاہے۔ان کی اس قدر محدود تنخواہیں ہوتی ہیں کہ جس سے ٹھیک طرح سے گھر بھی نہیں چلایاجاسکتا تو بچوں کا مستقبل کیاخاک سدھار سکتے ہیں ۔اس طرف بھی نئی سرکار کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اس وقت جس طریقے سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے اسی تناسب سے سرکار کو ملازمین کی تنخواہیں بھی بڑھانے پر عمل کرناچاہیئے ،حکومت اس بارے میں خوب جانتی ہے ، مگر تجاہل عارفانہ سے کام لیا جاتاہے اور حقداروں کو اس کا حق اور ملازمین کو مہینے بھر کے خرچے کے مطابق تنخواہیں دینا بھی حکومت کی ہی زمہ داریوں میں شامل ہے۔اے ہم نفسو! فکر کرو ورنہ اس ملک کے لوگوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 368173 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.