میں نے کچھ دور دراز
علاقوں میں ایسا اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ایک شخص ووٹ ڈال کر آرہا ہے
واپسی پر ایک دوسرے شخص نے اس پہلے شخص سے پوچھا کہ کہاںسے آرہے ہو تو اس
نے بتایا کہ ووٹ ڈال کر آرہا ہوں۔ تو دوسرے شخص نے کہا کہ میں بھی ووٹ
ڈالنے جارہا ہوںاور پوچھا کہ تم نے کس کو ووٹ دیا ہے؟پہلے شخص نے اسے بتایا
کہ وہ فلاں پارٹی کو ووٹ ڈال کر آرہا ہے اور پوچھا کہ تم کسے ووٹ ڈالنے
جارہے ہو؟ دوسرے شخص نے کہا کہ میں تو لوگوں سے اسی لئے پوچھ رہا ہوں جدھر
زیادہ لوگ ووٹ ڈال رہے ہیں میں بھی ادھر ووٹ ڈال کر آﺅں گا۔
پاکستان میں ووٹ نظریات کو نہیں شخصیت کو پڑتا ہے۔یہ بات تو سب کی سمجھ میں
آ ہی گئی ہوگی۔اگر نظریات کو ووٹ پڑتا یا یوں کہ لیجئے کہ اگر عوام باشعور
ہوتی تو آج وہ پارٹی برسراقتدار ہوتی جس کا نظریہ devolution of power to
grass root level یعنی طاقت کی نچلی سطح تک منتقلی تھا۔ جو عوام کو غلامی
سے نجات دلانا چاہتی تھی۔لیکن افسوس سے یہ کہنا پڑرہا ہے کہ اس ملک کی قوم
جذباتی اور غلامانہ سوچ کی حامل ہے۔جو کام اس قوم کے باپ دادا کرتے آئے
چاہے وہ کام غلط تھے یا ٹھیک تھے یہ بھی وہی کام کرنا چاہتی ہے۔کبھی خود
ریسرچ کرکے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ کیا غلط ہے اور صحیح۔مجھے میرے
پیارے استاد محترم جناب احمد فرید صاحب کی ایک بات یاد آرہی ہے انہوں نے
کہا تھا کہ آپ اس قوم کی تاریخ پڑھ کر دیکھ لیںاس قوم نے ہمیشہ غلامی کی
ہے۔کبھی جاگیرداروں اور سرمایہ کاروں کی غلامی تو کبھی باہر سے آنے والے
حملہ آوروں کی غلامی۔اور یہ قوم ہمیشہ confuse رہی ہے کبھی کوئی بہتر فیصلہ
نہیں کر پائی۔
اب ایک بار پھر میری عزیز قوم غلامی کے مزید پانچ سالوں میں جکڑی جا رہی
ہے۔اس پارٹی کے ہاتھوں جو بلاشبہ خاندانی پارٹی ہے۔جو برائے نام جمہوریت
ہے۔اور اس ملک کا کوئی بھی جاگیر دار یہ نہیں چاہتا کہ اس کے علاقوں کے لوگ
تعلیم یافتہ ہوں۔اس کی مثال میں کچھ یوں دوں گا جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ
اربوں روپے نام نہاد منصوبوں کی نذر ہوگئے۔ اگر انہیں پیسوں سے یونیورسٹیاں
قائم ہوتی تو خدا کی قسم وہ طالب علم جو بہت غریب ہیں اور جو پرائیویٹ
یونیورسٹیوں کی تعلیم حاصل نہیں کر سکتے وہ آج تعلیم حاصل کر رہے
ہوتے۔انہیں پیسوں سے کالجز بنائے جاتے۔نظام تعلیم ٹھیک کر دیا جاتا۔مساوی
نظام تعلیم ہوتا اور انہیں پیسوں سے ہسپتال بنائے جاتے۔آپ سب لوگ جانتے
ہیںسرکاری ہسپتالوں کی صورتحال کیا ہے،ایک تو وہاں لائن اتنی بڑی ہوتی ہے
کہ اگر مریض کی باری آبھی جائے تو ڈاکٹر بغیر چیک اپ کے دوائی لکھ دیتے ہیں
جو آپ کو ہسپتال سے باہر والے میڈیکل سٹور سے لینا ہوتی ہے۔اگر انہیں پیسوں
سے ہسپتالوں کی کمی کو دور کیا جاتا تو کتنا اچھا ہوتا۔آج بھی بہت سے غریب
لوگ ہسپتالوں کی کمی کی وجہ سے اور مناسب میڈیکل کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ
سے جان سے ہاتھ دو بیٹھتے ہیں۔
یہاں میں ایک اور وضاحت ان لوگوں کے لئے کرتا چلوں جو طلباﺅطالبات کو ملنے
والی نام نہادسہولیات یا یوں کہی لیجئے کہ نام نہاد رشوت کو بڑے فخر سے
بتاتے ہیں۔ان لوگوں کیلئے ایک چینی کہاوت کا حوالہ دوں گا ۔”بھوکے کو مچھلی
مت دو بلکہ اسے مچھلی پکڑنے کا طریقہ سکھا دو“۔ میرا خیال ہے کہ اس کہاوت
سے ان کی غلط فہمی کافی حد تک دور ہوگئی ہوگی۔میں بہت معذرت کے ساتھ کہنا
چاہوں گا کہ ہم کاسمیٹک پولیٹکس کے ذریعے سے باآسانی بے وقوف بن جاتے ہیں
جو نام نہاد کام جو کروائے گئے وہ کاسمیٹک پولیٹکس یعنی دکھاوے کی سیاست کا
عملی نمونہ تھے۔میری دلی دعا ہے کہ اورمیںاس کے لیے کوشش بھی کروں گا کہ اس
ملک میں تعلیم عام ہو۔یونیورسٹیاں قائم ہوں۔لوگ اچھی تعلیم حاصل
کرسکیں۔ہسپتال قائم ہوں۔لوگوں کو مفت تعلیم اور مفت ادویات مل سکیں۔صاف
پانی کی سہولیات مل سکیں۔بجلی اور گیس کامسئلہ حل ہو۔تھانہ اور پٹواری کلچر
ختم ہوسکے۔انصاف کی فراہمی عام ہو۔بے روزگاری کا خاتمہ ہوسکے۔اقتدار
ایوانوں کی بجائے عوام کے پاس ہو۔اگر آپ 1973کا آئین پڑھیں یہ بنیادی
سہولیات آپ کا جمہوری حق ہے۔اور میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ اگر اس ملک میں
تعلیم عام ہوگئی تو اس ملک کو کو ئی بھی جاگیردار یا خاندانی پارٹی اپنی
جاگیر نہیںسمجھے گا۔اور ایسا کچھ علاقہ جات میں ہوا بھی ہے جہاں پڑھے لکھے
کوگوں کی تعداد زیادہ ہے وہاں ایسا ہوا بھی ہے۔لوگو ں نے وہاں شخصیت کی
بجائے نظریے کو ووٹ دیاہے۔اور مجھے امید ہے کہ آہستہ آہستہ عوام میں شعور
آئے گااور عوام فیصلہ کرنے کے قابل ہوجائے گی۔ |