چینی وزیر اعظم کے پاس اظہار خلوص کے لیئے جو الفاظ تھے
وہ انہوں نے بلاتکلف استعمال کیئے۔ زبان ہی تو قلبی کیفیات کی مظہر ہے۔ چین
کا تعلق صرف پاکستان کے ساتھ ہی نہیں بلکہ تمام دنیائے اسلام کے ساتھ ایسا
پرخلوص رویہ ہے جو شفاف ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ چین کی سیاست نفاق سے پاک
ہے۔یہی وصف اسلامی تعلیمات کا طرہ امتیاز ہے۔ اہل چین بہت حد تک اسلام کے
قریب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اہل چین اور مسلمانوں کے مابین لڑائیاں نہیں
ہوئیں۔سن ۳۹ ہجری میں مسلم جرنیل قتیبہ بن مسلم نے ترکوں پر چڑھائی کی تو
انہوں نے خاقان چین سے مدد مانگی ۔ خاقان چین ابھی مسلمانوں کے جذبہ جہاد
سے نابلد تھا اس نے اپنے نامور جرنیل مع اپنے ایک لڑکے کے اہل صغد کی امداد
کے لیئے روانہ کیئے ۔ شدید خونریز معرکہ کے بعد اسلامی لشکر فتح یاب ہوا۔
اس جنگ میں خاقان چین کا بیٹا بھی مارا گیا۔ قتیبہ بن مسلم نے خاقان چین کی
جانب سے دشمن کی امداد کرنے پر چین کی سرزمین کو روند ڈالنے کی قسم کھائی
لیکن خاقان چین نے امن و سلامتی کی راہ اختیار کرتے ہوئے صلح کی سفارت
بھیجی ۔ قیمتی تحائف اور نذرانے پیش کیئے۔ قتیبہ بن مسلم کی قسم پوری کرنے
کے لیئے چین کی سرزمین سے چند بوریا ں مٹی لا کر ڈالی گئی جس پر مسلم جرنیل
نے چل کر اپنی قسم پوری کی۔ تاریخ میں مسلمانوں کے ساتھ امن و سلامتی اور
دوستی ہی ملتی ہے۔ برصغیر میں اسلامی سلطنت صدیوں قائم رہی پڑوسی ہونے کے
ناطے تاریخ کسی ناخوشگوار واقعہ کی نشاندہی نہیں کرتی۔ جدید انقلاب کے بعد
مسلمانوں کو تنگ کیا گیا مگر جیسے ہی چینی حکمرانوں کے روابط پاکستان کے
ساتھ بڑھے وہاں کے مسلمانو ں کو عزت کا مقام ملا۔ مسلمانان چین اب باقاعدہ
حج بیت اللہ شریف کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور انکی مساجد میں اضافہ کے ساتھ
ساتھ دین اسلام کی تبلیغ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔پاکستان کی چین کے نزدیک
اہمیت کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔ چین دنیا کی سب سے اکثریتی آبادی کا ملک
ہے فوجی لحاظ سے بھی افرادی برتری رکھتا ہے ، جدید ٹیکنالوجی میں اسے وہ
مقام حاصل ہے کہ امریکہ جیسے خناس بھی خائف و لرزاں ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ
امریکہ اور اسکے اتحادی صلیب کے علمبردار ہیں شر اور فسا د انکی گھٹی میں
پڑا ہوا ہے۔ خلوص اور امن و سلامتی کی راہ سے ناواقف ہیں۔ اپنی انہیں
پالیسیوں کی وجہ سے خود بھی بے چینی اور بے سکونی سے دوچار رہتے ہیں۔ کسی
دوسرے ملک کی ترقی انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ دیگر ممالک کے مابین اچھے
تعلقات بھی انکے پیٹ میں دردقولنج پیدا کرتے ہیں۔ جب ہم دوسرے ممالک کے
ساتھ پاکستان کے دوستانہ مراسم کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں امریکہ دوستی کے
مثبت اثرات نظر نہیں آتے البتہ اس دوستی کے نتیجہ میں پاکستان صلیبی سازشوں
کا شکار ہا ہے، شدید قسم کی دہشت گردی نے جنم لیا ہے، مسلمان بھائیوں کو
ایک دوسرے کے قتل عام میں ملوث کیا ہے، افغانستان کے معصوم مسلمانوں کے قتل
عام کے گناہ میں پاکستان کو ملوث کیا ہے۔ پاکستانی معیشت کو تباہ کرکے رکھ
دیا، کرپشن اور بد امنی کے تحفے امریکہ نے ہمیں دیئے، ہمارے ایٹمی اثاثوں
تک رسائی کی کوشش کی۔ ہمارے نامور سائنسدانوں کو پس زندان کرایا، پاکستان
کے شہریوں کے قاتلوں کو امریکہ اپنے روائیتی ایجنٹوں کے ذریعے چھڑا کر لے
گیا، امریکہ اعلانیہ پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت پر تابڑ توڑ حملے
ڈرون حملے کررہا ہے، ہمارے نام نہاد حکمران امریکہ خبیث کی بدکرداریوں اور
مسلم کش پالیسیوں میں اس کے برابر کے حصہ دار ہیں۔ پیارے آقا کریم علیہ
الصلوة والتسلیم نے قرآنی احکامات پر عمل کرتے ہوئے ہمیں غیر مسلم امن پسند
لوگوں کے ساتھ دوستانہ رکھنے ، انکے ساتھ تجارت و دیگر امور میں اچھے
تعلقات قائم کرنے کی تعلیم دی ہے۔ ہاں وہ لوگ جنہوں نے مسلمانوں کو انکے
گھروں سے نکالا، قتل کیا، مال اسباب لوٹے، عزتیں برباد کیں جیسا کہ مشرکین
مکہ اور پھر اس دور میں انگریزوں، ہندﺅں اور سکھوں نے کیا یا وہ لوگ جنہوں
نے یہود مدینہ کی طرح دشمنان اسلام کی مدد کی۔ایسے لوگوں کے ساتھ دوستانہ
تعلقات اور تجارتی و ثقافتی روابط رکھنے پر سختی سے منع فرمایا گیا اور
خلاف ورزی پر سخت وعید ہے۔ ان تفصیلات کے لیئے سورة الاحزاب کا مطالعہ
کرلیا جائے۔پاکستان دنیائے اسلام میں بڑا اہم مقام رکھتا ہے کیونکہ اس کا
وجود ریاست مدینہ کا ظل ہے۔ اگرچہ کہ ایک بازو کٹ گیا تاہم اس کے وجود کی
اہمیت برقرار ہے۔ خطہ ارضی پر عمومی طور پر بھی پاکستان کی اہمیت سیاسی اور
معاشی لحاظ سے پوری دنیا کے لیئے اہم ہے۔پاکستان کا جنوبی حصہ بحیرہ عرب کے
ساتھ ملتا ہے اور سات صد کلومیٹر ساحل سمندر کے ساتھ پھیلا ہوا ہے۔ جہاں
جتنی چاہیں بندرگاہیں تعمیر کرلیں۔ ہمارے ساتھ مغرب اور شمال کے ممالک
سمندری تجارت سے محروم ہیں ۔ روس نے زبردستی یہ سہولت حاصل کرنے کی کوشش کی
مگر وہ اپنا وجود ہی کھو بیٹھا۔ افغانستان ہمارا مسلمان بھائی ہے۔جسے بلا
ٹوک پاکستانی بندرگاہوں تک رسائی حاصل رہنی چاہیئے۔ اسی طرح ہمارے دوسرے
وسط ایشیا کے مسلم ممالک کو پاکستانی بندرگاہیں تجارتی سہولتیں بہم فراہم
کرسکتی ہیں۔ چین ہمارا انتہائی مخلص دوست ہے جس کی دوستی عملی طور پر نظر
آتی ہے۔ گوادر کی بندرگاہ کا انتظام پاکستان نے چین کودیا تو امریکہ حسب
عادت آتش حسد میں جل بھن رہا ہے ۔ امریکہ کی ناگواری بے جا ہے۔ ہزاروں میل
دور کا منافق دوست ہمارے کس کام کا ۔ مشرقی پاکستان پر بھارتی حملہ ہوا تو
ساتواں امریکی بحری بیڑہ پاکستان کی مدد کو آرہا ہے جو آج تک نہیں پہنچا
لگتا ہے کہ وہ بحر ہند میں غرق ہوگیا ہے۔ امریکہ کی بھارت نواز پالیسی کس
سے پوشیدہ ہے۔ لیکن اسکے مقابلے میں کامرہ اور ٹیکسلا کے منصوبے چین کی
دوستی کے جیتے جاگتے ثبوت موجود ہیں۔ کیا ہمارے سیاستدان اور اعلیٰ افسران
بھی چین کی پرخلوص دوستی کا جواب اسی پیمانے پر دیتے ہیں؟ افسوس سے کہنا
پڑتا ہے کہ ان لوگوں کو تھر کول منصوبے ، گوادر بندرگاہ، ٹیکسلا اور کامرہ
یا دیگر چین دوستی کے مظہر نظر نہیں آتے۔ چین ہمارا انتہائی قریبی پڑوسی
بھی ہے۔جس نے شاہراہ ریشم تعمیر کرکے پاکستان اور چین کو بہت قریب کردیا
اور مزید بھی بہت کچھ ہو رہا ہے۔ ہمارے آنے والے حکمرانوں کو چین کے خلوص
کا جواب زیادہ پرخلوص دینا ہوگا۔ اگر امریکہ کی پیدا کردہ پریشانیوں سے
نجات حاصل کرنی ہے تو مخلص دوست اور منافق کی پہچان کرنا ہوگی۔ پاکستان کس
قدر خوش قسمت ہے کہ ایران ، افغانستان اور چین جیسے مخلص پڑوسی اسے ملے ہیں۔
دوستی کے یہ رشتے پاکستان میں خوش حالی اور معاشی و اقتصادی استحکام میں
معاون ثابت ہونگے۔ |