گو کہ میرا کام کسی کا انٹرویو لینا ہزگز نہیں ہے لیکن
کبھی کبھار ، موضوعات میں اتنی یکسانیت پیدا ہوجاتی ہے کہ کالم نویس کےلئے
اپنے لفظوں کی تکرار سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی آرٹیکل کا کوئی ری میک
لکھ دیا گیا ہو،عمومی طور پر میں کسی بھی ایسی شخصیت کا انٹرویو کرتا ہی
نہیں ہوں ، جو مجھے جانتا نہ ہو ، اسلئے میری جانب سے اُس شخصیت کا انٹرویو
کرنا ، بعض اوقات ایسا ہوجاتا ہے جیسے میں خود اپنا انٹرویو دینے آیا ہوں
ملازمت کےلئے انٹرویو ہو یا کسی مشہور و معروف شخصیت کا انٹرویو ،دونوں میں
ایک بات مشترک ہے کہ انٹرویو کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ
مہمان نواز کی پیشانی پڑی شکنیں ، کہیں میرے جسم پر سرخ لکیروں میں تبدیل
نہ ہوجائیں ۔بعض اوقات انٹرویو کےلئے سوال لکھ کر ، جواب حاصل کرنے کی کوشش
بھی کی تھی تو جس سے سوال کیا ، اُس نے کہا کہ یار جواب بھی خود لکھ دو ،
کیوںمخول کرتے ہو۔۔ اس کے بعد چائے پی کر آنے میں ہی عافیت سمجھی ، کیونکہ
آنے کےلئے ضروری تھا کہ اپنے قدموں پر چل کر آیا جائے ۔حالیہ انتخابات میں
دل کا غبار اتارنے کےلئے کسی ایسے سیاسی قد آور شخصیات کی طرف جانے کی
ضرورت محسوس تو نہیں ہوئی کیونکہ وہ ٹی وی دستیاب ہوجاتے تھے ، پھر ان کی
بار بار کی جانے والی تقریروں پر ہنسنے کے بعد ، مسکرانے اور پھر منہ
بسورتے ہوئے ، چینل تبدیل کرنے کو ہی غنیمت جانا ، کیونکہ ان کی تقاریر از
قدر ازبر ہوگئی تھیں کہ اپنے کالم بھی میں کبھی کھبار بھڑک مارنے کو دل
چاہتا تھا ،انتخابات سے چند دن قبل ، یعنی جلسے جلسوں پر پابندی سے دوقبل ،
قائد تحریک انصاف پاکستان ، لفٹ پر چڑھتے ہوئے حفاظتی حصار میں مقید
اہلکاروں کے دھکے سے نیچے جا گرے ، بس اُن کا گرنا کیا تھا کہ ، جلسے جلسوں
میں ، پھینٹی ، شیروں کی چنگاڑ،سائیکلوں کی چوں چوں ،تیر اندازی سمیت سب کو
خاموشی نے یوں آن گھیرا کہ ، متشدد لب و لیجہ ، یکدم مہذب ہوگیا اور قوم
پاکستان ، اخوت ، اتحاد ،عزم عالی شان کا نظارا پیش کرنے لگی ، دعاﺅں ،
درودوں ، فاتحہ اور قرآن خوانیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ خوشی ہوئی کہ چلو
کسی حادثے پر تو قوم متفق ہوجاتی ہے ، کسی شر پسند نے سوشل میڈیا میں خبر
اڑا دی کہ عمران کو جان بوجھ کر دھکا دیا گیا ۔کسی نے ایسے مستقبل کے
پاکستان بنانے والے قائد انصاف کی قتل کی سازش قرار دیا تو کسی نے آنے والے
وقت میں طالبان کیجانب سے دہماکے کا نشانہ بننے سے بچنے کا قدرت کا تحفہ
قرار دیا ۔ بہرحال میرے لئے یہ بڑا سنہرا موقع تھا کہ فوری طور پر انٹرویو
لینے کی تیاری شروع کردوں ، لیکن مسئلہ یہی تھا کہ مجھے عمران خان سے ملنے
نہیں دیا جائے گا، میں اسلئے شوکت خانم ہسپتال گیا ہی نہیں کیونکہ ان کی
سخت سیکورٹی تھی ، ملک کی اہم شخصیت سراپا بستر ہوچکی تھی ، تحریک انصاف
والوں نے ان کی بیماری کے بھی اشتہار بنا کر اسُی طرح لوگوں کی ہمدردریاں
سمٹنے کی کوشش کی ، جیسے پی پی پی نے بے نظیر کے قتل کے بعد کی تھی ۔ لیکن
اللہ تعالی کا شکر تھا کہ عمران خان محفوظ رہے ، گرنے کے بعد ان سے میرا
انٹرویو لینا ، خود میرے لئے بھی جان جھوکھم کا کام تھا ، کیونکہ گرنے کے
بعد ان کی یاد داشت ، کے متاثر ہونے کا بھی خدشہ بہرحال تھا اور میں جلسوں
میں ہونے والی ان تقاریر سننے کے بعد ہمت نہیں جتُاپا رہا تھا کہ ان کا
انٹرویو کروں ، پھر سوچا کہ ان کے سیکورٹی گارڈز کا انٹرویو کرلوں ، ویسے
بھی ہمارے میڈیا اور قوم کی میموری شارٹ ٹرم لوز ہے ، وہ سب تو بھول چکے
ہیں کہ عمران خان جب گرے ،تو ان کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی گرے تھے ، بلکہ
عمران خان گرتے گرتے اُن پر بھی جا گرے تھے ، مستقبل کے نئے پاکستان کے
بانی کا بوجھ انھوں نے برداشت کس طرح کیا ہوگا ، اب یہ میرے لئے دل چسپ
موضوع بن چکا تھا ، اب ان کی تلاش شروع کردی ، میڈیا والوں سے اینکرز پرسن
سے پوچھا ، جواب ندارد ۔تحریک انصاف سے پوچھا ،اتنا پوچھا اتنا پوچھا کہ سب
پوچھنے لگے کہ بھائی ، عمران خان سے کیوں نہیں پوچھ لیتے ، تو میں نے اُن
سے کہا کہ بھائی میں بہت چھوٹا سا کالم نویس ہوں ، قد چھ فٹ کا ہوا تو کیا
ہوا ، لیکن مجھے تو اُن سے ملنے بھی نہیں دیا جائیگا۔ مجھ سے کہا گیا کہ
بھائی نواز شریف جو مل کر آئے ہیں ، تو تمھارا کیا مسئلہ ہو۔ میں نے ہاں یہ
بات تو ٹھیک ہے کہ نواز شریف کو میں بہت طرح جانتا ہوں ، لیکن بھائی وہ
مجھے نہیں جانتے ، اسلئے ان سے کہہ دیتاکہ مجھے بھی ساتھ لے جاﺅ ، مجھ سے
کہا کہ کچھ اینکرز جو ملے ہیں ، میں نے کہا کہ ارے اینکرز عمران خان سے
نہیں ملیں گے تو کس سے ملیں گے ،لیکن میں انھیں اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ
مجھے ساتھ نہیں لے جائیں گے ،پوچھا کہ کیوں ؟۔ میں نے کہا کہ اس لئے کہ وہ
عمران خان کے بڑے اچھے دوست ہیں ،اور عمران خان میرے دوست نہیں ہیں۔میں نے
پھر سوچا کہ چلو اینکر اور ان جیسے نامور اینکرز ، عمران خان کے اُن
سیکورٹی گارڈز کی خیر خیریت سے بھی کچھ واقفیت رکھتے ہونگے ، جب پروگرام
کریں گے تو عوام کو پتہ چل جائے گا ۔ لیکن مجھے حیرانی ہوئی کہ کسی بھی
چینل نے اُن گارڈز کے بارے میں کوئی خبر نہیں دی اب میرے لئے ضروری ہوگیا
کہ بریکنگ انٹرویو لےکر ، کالموں میںلکھوں گا کہ عمران خان کے زخمی گارڈز
کا پہلا تفصیلی انٹرویو لیکر پہلے نمبر ۔۔ جیسے مشہور الیکشن سیل نے کیا
تھا کہ پہلا نتیجہ 5.10 شام کو جاری کرکے سب چینلوں پر سبقت لے گئے ، لیکن
سب سے پہلے خبر دینے والے خود ہی بھول گئے کہ الیکشن کمیشن دو گھنٹے قبل ہی
ووٹ کا سٹنگ کا وقت6 شام بجے کرچکے ہیں ۔پھر اگلے دن تک یہی ڈرامہ رہا کہ
پہلے نمبر اور دوسرے نمبر پر دو فیصد ووٹ کی بنیاد پر قوم کے اذہان میں
بیٹھا دیا کہ کون کامیاب ہوا۔جب الیکشن کے حتمی نتائج آئے تو اس وقت الیکشن
میڈیا کام بند کرچکا تھا اور پاکستان بھر میں دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوچکا
تھا ، جیسے این اے ۲۵۲ کے حلقے کے امیدوار عارف علوی کو خود معلوم نہیں تھا
کہ وہ تیس ہزار ووٹوں سے جیت رہے تھے اور وہ خواہ مخواہ چیختے چلاتے رہے
کیپٹل ٹاک کے پروگرام میں ان کی حیرانی قابل دید تھی کہ وہ اپنے حلقے کا
الیکشن لڑ رہے ہیں اور ان کو معلوم ہی نہیں کہ انھیں کتنے ووٹ ملے تھے ، کس
قدر حیرانی کی بات تھی کہ 43پولنگ اسٹیشنوں کے علاوہ جتنے رزلٹ بھی پولنگ
اسٹیشن کے ایجنٹ لیکر آئے تو دنیا کو پتہ تھا کہ کون پانچ سو ووٹوں سے جیت
رہا ہے ۔ پھرا ایک اور کمال یہ بھی آیا کہ ایک چینل پر ری پولنگ میں پہلا
نتیجہ 371ووٹ کا تحریک انصاف کے حق میں پانچ بجکر چھ منٹ میں جاری ہوا ۔
یعنی بیلٹ بکس کھلنے ، ووٹ گننے ،چھانٹی سے پہلے صرف پانچ منٹ میں 371ووٹوں
کا نتیجہ نشر کردیا گیا اور اگلے دن تحریک انصاف کے ساتھ دنیا بھی حیران
تھی کہ ہزاروں ووٹوں کی سبقت سے عارف علوی کامیاب ہوئے ، دو صوبائی نشستوں
سے بھی پی ٹی آئی اسی طرح کامیاب ہوئے ، جس طرح پہلے مرحلے میں پی ایس
93میں 7774 لینے والے اگلے دن اچانک پندرہ ہزار ووٹ لیکر کامیاب ہوگئے ۔میں
اپنی اس حیرانی میں انٹرویو کا خیال دماغ سے نکال دیاا ، حالاں کہ سب نے
کہا کہ عمران خان ، اداکارہ میرا سے ملاقات کرچکے ہیں ، تم سے بھی کرلیں گے
، لیکن اب اداکارہ میرا کے بعد تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ مجھ سے
ملاقات اور انٹرویو دےتے ۔ اس لئے چپ ہی رہے کہ چھوڑو یہ انٹرویو وغیرہ ،
دھرنوں مرنوں کی سیاست کو بھی گولی مارو ، کسی اچھی خبر پر ہی کچھ لکھوں گا
اور پھر پتہ چلا کہ عمران خان ڈسچارج ہو کر ہسپتال سے گھر شفٹ ہوگئے ہیں ،
لاہور میں ایک ہفتہ آرام کریں گے پھر اسلام آباد جائیں گے ۔میرے لئے یہی
اچھی خبر تھی کہ عمران خان نواز شریف سے ملنے کے بعد جب میرا سے ملے تو
امید ہوگئی تھی کہ اب ڈسچارج ہوجائیں گے اور پھر امید سے قبل جلد ڈسچارج
ہوگئے ۔ اللہ انھیں صحت دے ۔ آمین۔ دعا گو ہوں کہ ان زخمی محافظ بھی جلد
ڈسچارج ہوجائیں ۔ ان کے بارے میں علم نہیں ہے اب اُن کی طبعیت کیسی ہے ۔ اب
جیسی بھی ہو ۔ اللہ ان کو جلد از جلد صحت یاب کرے ۔ عمران خان سے بھی یہی
امید ہے کہ انھوں نے نواز شریف سے ملاقات کے بعد غصہ تھوک دیا تھا ۔ کافی
نامور لوگوں ، جیسے امریکیوں ، بر طانوی سفیروں اور اداکار میرا کے بعد اب
وہ ڈسچارج ہوچکے ہیں اس لئے قوم کو امید ہے کہ پاکستان کے حقیقی مسائل پر
توجہ دی جائے گی ۔ نوز شریف فرینڈ لی میچ کی دعوت تو دے آئے تھے ، برائے
مہربانی عوام سے بھی فرینڈلی فرینڈلی ہوجائیں اور حقیقی اپوزیشن کا کردار
ادا کریں۔ |