پروفیسر نذیر احمد خان لوہانی
عزیزالدین عزیز بلگامی کرناٹک کے ایک کہنہ مشق شاعر ہی نہیں بلکہ ایک اچھے
ادیب بھی ہیں۔موصوف کا کلام اوراُن کے مضامین ادبی و دینی رسائل کے علاوہ
روزناموں اور انٹرنیٹ پر بھی اکثر وبیشترشائع ہوتے رہتے ہیں۔ عزیز بلگامی
ایک مترنم شاعر ہیں۔جن لوگوں نے انہیں مشاعروں میں سنا ہے وہ یہ احساس کیے
بغیر نہیں رہتے کہ کوئی مشاعرہ ہو،اُن کی شرکت کے بغیر گویا پھیکا پھیکا سا
رہ گیا ہو۔ اُن کی دلفریب آواز دلوں کو مسحور کردیتی ہے اور سننے والے سر
دھنتے رہ جایا کرتے ہیں۔ موصوف کو ہر جگہ بلایا جاتا ہے اور جہاں بھی وہ
جاتے ہیں اور جس مشاعرے میں بھی وہ اپنے منفرد ترنم میں کلام پڑھتے ہیں،
اپنے سامعین کے دل و دماغ پر گہری چھاپ چھوڑ جاتے ہیں۔ بہ حیثیت ِ شاعر،
موصوف کا قد فی الواقع کافی بلند ہے۔ اپنے مخصوص لب و لہجہ سے کسی بھی
مشاعرے میں دور ہی سے پہچان لیے جاتے ہیں۔
عزیزبلگامی سے ہماری ملاقات پرانی ہے۔ 1979ءمیں ادارہ ادبِ اسلامی کے زیر
اہتمام ایک مشاعرے میں پہلی بار جب وہ بھٹکل تشریف لائے تھے تو ہم اُن کی
دلنشین آوازسے آشنا ہوئے تھے۔نغمگی کا وہ عالم تھا کہ ہر کوئی ان ہی کے
انداز اور طرز کے ساتھ شعر گنگنانے لگ گیاتھا۔ پھر دوسرے ہی سال 1980ءمیں
دوبارہ انجمن ہائی اِسکول میں آل انڈیا مشاعرہ کا انعقاد ہوا تو اُن کے
کلام کی بلندی سے آشنا ہونے کا موقع ملا۔اِس مشاعرے میں انہوں نے ایک ایسی
نعت پڑھ ڈالی کہ اِسی نعت کے ذریعہ عزیز صاحب پہچانے جانے لگے۔”اہلِ ستم کے
پتھر کھاکر گل برسانے والا وہ“۔یہ نعت آج بھی انٹر نیٹ پر سنی جاسکتی ہے،
جو بھٹکلی ڈاٹ کام کے گوشہ آڈیو میں موجود ہے۔اِس آل انڈیا مشاعرے میں شاید
ہی کوئی ایسا پایا گیا، جس نے نعت کو بار بار سنانے پر اصرار نہ کیا
ہو۔متعدد مشاعروں میں باربار موصوف سے فرمائش کی گئی اور انہوں نے اس نعت
شریف کو سنا کر ہر بار داد و تحسین حاصل کی۔
85-1984ءکرناٹک کی تاریخ میں بد ترین سال مانا جائے گا۔ کیونکہ اس سال
گوکاک کمیشن کی پیش کردہ رپورٹ کا نفاذعمل میں آیاتھا،جس سے اُردو دان طبقہ
کو بھاری نقصانات اُٹھانے پڑے تھے۔ جگہ جگہ احتجاجی جلسہ و جلوسوں میں شرکت
کے لیے احقر بھی کود پڑاتھا۔ اس سلسلہ میں مرحوم ایس ایم یحی ٰ صاحب کے
ہمراہ بھٹکل کاایک وفد ڈانڈیلی(کرناٹک۔انڈیا) پہنچا تھا، جہاں اُردو ہائی
اسکول کے وسیع میدان میں ایک محفلِ مشاعرہ کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔
ناچیز کو مشاعرے کی صدارت سونپی گئی تھی۔ عزیزبلگامی کے علاوہ دھارواڑ سے
قدیر ناظمسرگرو، یوسف ندا نائیک واڈی، پروفیسر نور الدین قادری نور کے بڑے
بھائی صاحب نظام الدین پرواز بھی شریکِ مشاعرہ ہوئے تھے۔ بھٹکل و اطراف
بھٹکل کے کئی شعراءکرام نے اس مشاعرے میں شرکت کی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد
ہے کہ ایک دبلے پتلے شخص نے نہایت دھیمی آواز میں بڑی غضب کی غزل سنائی تھی
اور خوب داد وصول کی تھی۔ یہ شخصیت عطا ہبلوی کی تھی۔ یہ وہی عطاہبلوی ہیں
جن کی 1989ءمیں گمشدگی کی خبر ہم نے بڑے کرب کے ساتھ سنی تھی۔اچھا ہوا کہ
عزیز بلگامی صاحب نے عطا ہبلوی پر جناب میم نون سعید صاحب کی رہنمائی میں
ایک بہترین تحقیقی مقالہ ترتیب دیا اور بنگلور یونیورسٹی سے انہیں اس پر
ایم فل کی ڈگری بھی حاصل ہوئی اور جو اس وقت ”زنجیر دست و پا“ کے نام سے
کتابی شکل میں دستیاب ہے۔
جماعتِ اسلامی میں آپ کی تشریف آوری اور پھر کنارہ کشی کی بھی ایک عجیب
داستان ہے۔ اس کے متعلق تفصیلات میں جائے بغیر اتنا ضرور عرض کروں گاکہ
موصوف نے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے ادارہ ادب اسلامی کی آبیاری کے لیے
جو کام کیااس کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔دین حنیف کی خدمت کے لیے
خود کو قابل بنانے کی خاطرانہوں نے بنک کی ملازمت چھوڑ دی اور جماعتِ
اِسلامی کے رکن بنے ، پھرچند ناگزیرحالات کی بنا پر جماعت سے علاحدگی
اختیار کر لی، تاہم دین حنیف کی اپنی بساط بھر خدمت کے اُن کے جذبے میںکوئی
کمی نہیں آئی ۔جماعتِ اِسلامی کے کل ہند اجتماعات میں انہوں نے بڑا اچھا
تعاون دیا۔اپنے شعروں کے ذریعہ اور مضامین کے ذریعہ تحریکِ اسلامی سے انہوں
نے لوگوں کو روشناس کروایا۔
عزیز صاحب کے دل میں کتاب و سنت کے لیے بے پناہ تڑپ موجود ہے۔ وہ چاہتے ہیں
کہ ہر کلمہ گو خدائے قدوس اور رسول برحق صلی اللہ علیہ و سلم کے احکامات و
اوامر کی تعمیل کا پیکر بن جائے، اِسی صورت میں ہم اسلام کی بر تری دنیا پر
آشکارا کر سکتے ہیں۔عزیز بلگامی کا میلان طبع شعر گوئی کی طرف ہے۔ انہوں نے
اس صنف سے وہی کام لیاجو ایک سچے مسلمان کا شیوہ ہونا چاہیے۔یعنی اپنی ملت
و قوم کی بھلائی ، اپنے بھائیوں کی اصلاح و فلاح، قرآن مجید کے ارشاد ’وبلغ
ما انزل الیک‘(اور پہنچادیں آپ، جو آپ کی طرف اُتاراگیا ہے ) کے مصداق
تابحد امکان تکمیل، یہ بڑا ہی نیک مقصود ہے، جو عزیز بلگامی کے پیش نظر ہے۔
عزیز بلگامی ادب برائے زندگی کے قائل ہیں۔ظاہر ہے جب کوئی شخص بقید ہوش و
حواس ایسی کوئی بات ، کوئی کام نہیں کرتا جو اپنا مقصد آپ ہو تو پھر ادب ہی
کو ایسا کیوں ہو نا چاہیے کہ جس کا کوئی مقصد متعین نہ ہو۔!! ادھر عالمی
ادب میں بھی یہ حقیقت تسلیم کی جاچکی ہے کہ جو فن پارہ فنی جمالیات کے
معیار پر کھرا اُترے اور فن جمیل کا مظہر ہونے کے ساتھ ساتھ کسی اعلیٰ مقصد
کا اشاریہ بن جائے تو یہی فن پارہ عظیم بن جاتاہے ۔ جہاں تک مقصد کی بات ہے
تو اعلیٰ مقصد وہی ہوگا جو زندگی کی عامیانہ سطح اور نام و نمائش سے بلند
ہو اور جس پر زندگی نثار کی جا سکے۔ اس پہلو سے اگر ہم غور کریں تو عزیز
بلگامی کی فن کارانہ زندگی بھی ایک مثالی، بامقصد زندگی کہلاتی ہے۔ عزیز
جوان نہیں، لیکن وہ ابھی اتنے بوڑھے بھی نہیں۔ اِسی لیے وہ نوجوانوں کا
حوصلہ رکھنے کے لیے مشاعروں سے زیادہ ادبی کام میں زیادہ د لچسپی دکھا رہے
ہیں اور کامیاب جا رہے ہیں۔
آج کل عزیز صاحب دوردرشن بنگلور کے انٹرویو پینل کے ممبران میں شامل ہیں
اورنامور ادباء، شعراءاور مختلف شعبہ ہائے زندگی کی ماہر شخصیات کی وقتاً
فوقتاً انٹرویوز کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔ موصوف نے پتہ نہیں کتنے درجن
انٹرویوز اب تک لے چکے ہیں،البتہ خاکسار کے تین عدد انٹرویوز انہوں نے دور
درشن میں رکارڈ کرائے ۔ ایک انٹرویوکو چھوڑ کرجس میں بابری مسجد کے بارے
میں ہماری بے باکانہ رائے پر اربابِ حل و عقدنے ناگواری ظاہر کی تھی،دیگردو
انٹرویوزنشر ہوئے۔ان میں سے ایک وہ انٹرویو تھی جو میری دوعدد تصانیف کے
اجراءکے بعد نشر ہوئی اور جس نے بھی اِس انٹرویو کو سنا پسندیدگی کا اظہار
کیا۔ بلاشبہ کسی کی انٹرویو لینا بھی ایک مشکل فن ہے، جو اردو ادب و صحافت
کی ترقی کے ساتھ مائل بہ ارتقاءہے۔پھر انٹرویو محض چند روایتی سوالات
دہرانے کا نام بھی نہیں۔ یہ تو شخصیات کی ”سیر باطن“ کا فن ہے جو
چابکدستانہ اور برمحل سوالات ہی کے ذریعہ ممکن ہے۔ انٹرویور کی ذہانت ،
شخصی مطالعہ کی ہمہ گیری اور اخلاقی جرات ہی کسی انٹرویو کو کامیاب بناتی
ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو عزیز بلگامی بحیثیت انٹرویور کامیاب جارہے
ہیں۔
عزیز بلگام کا مجموعہ کلام” سکون کے لمحوں کی تازگی“ کے نام سے شائع ہو چکا
ہے۔ ان کی نعتوں کی انفرادیت تو ہے ہی، تاہم ان کی غزلوںمیں صرف حسین اسلوب
بیاں، نیرنگی خیال اور مناسب ترتیب و تہذیبِ الفاظ ہی سے شعر کا حسن اُبھر
کر سامنے نہیں آتا بلکہ اس کے ساتھ نغمگی وموسیقیت بھی شعر کے اجزائے
ترکیبی بن کر اُجاگر ہوتی ہیں۔ سچ پوچھا جائے تو اس ضمن میں عزیز بلگامی نے
ایک منفرد مثال قائم کی ہے۔ انہوں نے ایک خاموش اورغیر مرئی نغمگی کے ساتھ
اپنی غزلوں کو ترتیب دیا ہے۔دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ انہوں نے اپنی
دلربا غزلوں کو اپنی ترنم ریزی کی چاشنی عطا کرکے قارئین اور غزل سراﺅں کے
لیے ایک صوتی سنگیت کا سامان فراہم کیا ہے۔
یہ بات بھی باعثِ مسرّت ہے کہ آج کل وہ شعر و شاعری سے زیادہ مضامین نگاری
میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اُن کے مضامین میں نہایت ہی اچھے اسلوب و انداز میں
اصلاحی پہلو سامنے آرہے ہیں۔ میں چاہوں گا کہ اِن مضامین کو موصوف ایک
کتابی شکل میں شائع کریں تاکہ مستقل استفادے کی صورت نکل آئے۔ آخر میں دعا
گو ہوں کہ اللہ رب العزت انہیں صحت و توانائی عطاکرے۔آمین۔ |