میری آج تک یہ بات سمجھ میں نہ آسکی کہ
آخِر گدھا ہی کیوں تمام طعنہ و تِشنوں کا شِکار ہوتا ہے۔ آخر دوسرے بہت سے
جانوروپرند بھی تو ہیں جیسے گھوڑا‘ہاتھی ‘اونٹ‘ ہرن ‘ کبوتر اور مور وغیرہ
لیکن انسان کسی دوسرے کو حقارت سے کیوں نھیں دیکھتا ۔ سوچیۓ پھر آخر گدھا
ہی کیوں۔ کبھی آپ نے بھی اِس موزوں پر تھوڑی سی بھی سر مغزنی کی ہے۔ میں تو
ایک عرصہ سے اس اُدھیڑبن میں ہوں کہ کس طرح اس معصوم خصلت‘سیدھی سی
مخلوق[جانور کہوں تو توہین کا اندیشہ]کو بدنامی کی دلدل سے نکالوں۔ اس لیے
کوشِش کیوں نہ کی جاۓ کہ اس بےزباں معصوم مخلوق کو اگرہم اپنی سطح پر نہ لا
سکیں تو ایک اچھا مقام دینیں کی کوشِش تو کر ہی سکتے ہیں۔
یہ کیڑا میرے زہن میں اس وقت ریںگا تھا جب میرے اسکول کے دنوں میں ایک
بارکلاس میں ماسٹرآفاق صاحب نے مجھے کھڑکی سے باہرکا نظارہ کرتے ہوے دیکھ
لیا اور گرجے ’’کیوں احسن کیا گدھے کی طرح منہ اٹھاۓ باہر دیکھ رہے ہو ادھر
دھیان دو کہ میں کیا بک رہا ہوں‘‘۔ کلاس میں بیٹھے ھوۓ دوسرے لڑکے تو ہںس
دیۓ لیکن مجھے ایسی فکراورپریشانی لاحق ہویٔ کہ اس نے آج تک میرا پیچھا نہ
چھوڑا۔ حیران تھا کہ کیا میری شکل حقیقتاً ان زاتِ شریف سے مُشابہ تھی جو
مُجھے اس خطاب سے نوازہ گیا۔ اس وقت سے آج تک بدنام زمانہ حضرت گدھے کی
بہتری کے لیے کوشاں ہوں اور دعاگو ہون کہ خدا اس بدنامی کے داغ کو جو ہم
انسانوں نے ان کے ماتھے پرلگا دیا ہے جلد دھودے۔ الله کا شکرہے کہ میں نے
کبھی غلطی سے بھی اگر کسی کو اس نام سے پُکارا ہوتو دل ہی دل میں پشیماں
ہوا اور غایٔبانہ اس ذاتِ شریف سے معافی بھی مانگ لی۔ باقی الله معاف کرنے
والا ہے۔۔
آپ سوچ رہے ہیں کہ بھلا انسان کا گدھے کی ناموسی سے کیا تعلُق تو صاحب آپ
یہ تو مانیں گے کہ اگر ایک انسان دوسرے انسان کو بدنام کر نے میں کویٔ
کثراُٹھا نہیں رکھتا تو بھلا اس بے زبان کی کیا حصیت اُسے آپ جب چاہیں جو
چاہیں کھ سکتے ہیں۔۔ اب زرا غور کریں کہ آپ کا نوکرمیز سے چاۓ کے برتن اٹھا
کرلے جارہا ہے کہ اچانک اس کی لاپرواہی سے برتن گرکرٹوٹ گۓ آپ اس پر خفا
ہوتے ہیں اورسختی سے بجاۓ یہ کہنے کے کہ بدتمیز تم سنبہل اور دیکھ کر نہیں
چل سکتے آپ اس پر آنکھ لال پیلی کرکے یوں گرجتے ہیں ’’ ابے کیا آنکھ نہیں
ہے ’گدھوں‘ کی طرح سارے برتن توڑ دیے ۔ سٹ کا ستیاناس کر دیا اب اس کی قیمت
کیا تمھارا باپ ادا کریگا‘‘۔ اب آپ خود غورکریں برتن ایک انسان سے ٹوٹے ہیں
اس میں گدھے بچارے کا کیا قصورآپ نے تو اس کا نام لے کر اسے بدنام ہی تو
کیا ہے۔ آپ نے جو کچھ ملازم سے کہا اس سے تو یہی ظاہر ہو تا ہے کہ گدھا
توڑپھوڑکے سوا اور کچھ کرتا ہی نہیں۔اس نے تو بچپن سے لیکر بڑھاپے تک اپنی
چارہ والی ناند تک نہ توڑی ہوگی۔۔
انسانوں کی کوتاہیوں کا کہاں تک رونا روؤں ۔۔ گھرمیں آپ اپنے بیوی بچّوں کے
ساتھ بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔ خوشی کا ماحول ہے کہ انجانے میں بارہ سال کے
بیٹے چُنّو کی زبان پھسل گیٔ آپ نے سخت ناگواری سے اس کی طرف دیکھا اور
چھوٹتے ہی کہا ’’ چُنّو ابھی تک تم کو بات کرنے کا سلیقہ نہ آیا جب دیکھو
’گدھوں‘ کی طرح بات کرتے ہو۔ بھلا یہ کیا‘ بات آپ کے صاحبزادہ نے کی تو اس
میں معصوم گدھا کہاں سے آکودا۔ غصل خانہ میں نہاتے ہوۓ ترنگ میں آپ نے محمد
رفیع مرحوم کی لۓ میں بیجوباورا کا کویٔ گیت چھیڑا تو باہر سے آپ کے بہنویٔ
صاحب کی آواز آیٔ ’’ ارے بھایٔ کیا ’گدھے‘ کی طرح رینک رہے ہو جلدی نکلو
مجھے دفتر جانا ہے‘‘ایک بار میں اپنے جگری دوست کے ساتھ مُمبیٔ کی میرین
ڈرایٔو پر شام کو چہل قدمی کررہا تھا میرا مرحوم دوست حثب معمول مجھ سے
باتیں کررھا تھا کہ بُرا ہو میری عادت کا کہ میں اس کی طرف سے گردن گُھما
کر اس خوبصورت جوڑے کو دیکھنے لگا جو سمندرکے کنارے دیوار پر بیٹھا چناجور
کھا رہا تھا۔ ابہی چند منٹ ہی ہوے تھے کہ مرحوم نے للکارا ’’یاراحسن میں تم
سے بات کر رہا ہون اور تم ہو کہ ’گدھے‘ کی طرح لمبی گردن کیے اُدھردیکھ رہے
ہو‘‘ یہ کیا بات ہویٔ اگر میں نے زرا دیر کواپنی تسکین نظرکے لیے نگاہیں
دوسری طرف پھیر لیں تو اس میں لمبی گردن لیےگدھا کیون بدنام ہوا۔ ایک تو یہ
کہ گردن لمبی اُونٹ کی ہوتی ہے نا کی گدھا کی اور دوسرے یہ کہ دیکھ تورہا
تھا انسان‘ معصوم کوبدنام کرنے کا بھلا کیا مقصد۔
ہم سب ہی کی آخر یہ کیا ادا ہے کہ ہرموقعہ‘ہربات اورمعمولی معمولی حرکت
پرجو ہم انسانوں سے سرزد ہواس میں آخر گدھا زاتِ شریف کو کیوں گھسیٹا
اوربدنام کیا جاتا ہے۔۔ جب کہ تمام چوپایوں میں ان سے ذیادہ
شریف‘عقلمند‘باعصول اور فرمابردار[انسانوں سے ذیادہ]چوپایہ نا تو ابھی تک
عالمِ وجود میں پایا جاتا ہے نہ امّید ہے کہ آیٔندہ الله ایسا منفرد تحفہ
انسان کو دوبارہ کبھی دے گا ۔
غورطلب بات تو یہ ہے کہ آخردوسرے جانور‘ پرندے بہی تو ہیں۔ ہم نے تو انہیں
کسی طرح بہی بدنام نہ کیا بلکہ کچھ کو تو ہم نے بہت پیارے نام تک دے رکھے
ہیں۔ گھوڑے ہی کو لیں کویٔ عربی‘ شایٔر‘اصیل‘اسٹیلین ہے تو کویٔ پونی یقین
کریں گھوڑے تقریبا انچاس ناموں سے جانے جاتے ہیں۔ کبوتر کویٔ لقّا کے نام
سے پکارا جا رہا ہے تو کویٔ لوٹن ہاں ہاتھی کے متعلق کسی نے یہ شعرکہھ کر:
’بڑاشورسن تے تھے ہاتھی کی دُم کا
جو دیکھا تواُس کے سُتلی بندہی تھی‘
پھلجھڑی ضرور چھوڑی ہے۔ لیکن اس شعر سے ہاتھی کو شرم تو آسکتی ہے لیکن
بدنامی کا خدشہ نہیں۔ صرف بیچارہ گدھا ہی ہے جو ہرطرح لعن تعن کا شِکار
ہوتا ہے۔ مثالیں بھی اس کے نام سے دی جا رہیں تو ایسی کہ سُن کر ہی دعاء
مغفرت کرنے کا دل چاہتا ہے۔ جیسے ’’دھوبی کا گدھا گھر کا نہ گھاٹ کا‘۔
’دھوبی سے جیت نا پاۓ تو گدھے کے کان اینٹھ رہے ہیں‘ اگر کویٔ ایک عرصہ تک
دکھایٔ نہ دیا اور جب ملاقات ہویٔ تو بجاۓ خیریت و آفیت دریافت کرنے کے اس
سے کہا جارہا ہے ’’ یار تم تو ایسا غایٔب ہوے جیسے گدھے کے سر سے سینگھ‘‘
اب آپ الله والی کہیں کیا بچارے گدھے کے سینگھ ہوتے ہیں کہ جو غایٔب ہو گۓ۔
آپ یہ بھی تو کھہ سکتے تھےکہ ’’ گھوڑے کی سینگھ کی طرح غایٔب ہو گۓ لیکن
نہیں آپ کو اس معصوم سے بغض للّاحی جو ہے‘‘۔ یعنی کسی پہلو اس کو چین و
سکون نہیں۔
ہاں جب ایک باراس کو یہ پتا چلا کہ اُردوکےایک نامور ادیب کرشن چند نے اپنی
تخالیق ’گدھے کی سرگزشت‘ بارہ بنکی کا گدھا‘ اور گدھے کی واپسی‘ میں اس کا
ذکرکیا ہے تو اس نے زندگی میں پہلی بار خوشی محصوس کی اور اپنی سُریلی لۓ
میں گانے لگا لیکن پہلی ہی تان پر مسجد کے امام نے لاہول پڑھی اور دھوبی نے
ایک ڈنڈا جڑا۔
حد تو یہ ہے کہ اس کے دوری رشتہ دارگھوڑا اور خچّرسے بھی اس کی صدیوں سے ان
بن چلی آرہی ہے۔ ان دونوں سے گدھےکی نفرت کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ گھوڑے
کے آباؤاجداد نے کبھی کسی گدھی کو زبردستی گھر بٹھا لیا ہو گا اور اس سے جو
اولاد ہویٔ اسے آج ہم سب خچّر کہتے ہیں جسے آج بھی ہم نے اسے گھوڑے سے کم
لیکن گدھے سے بہتر درجہ دے رکھا ہے۔ گدھے پر ان دونوں کی فوقیعت کا اندازہ
آپ اس سے کر سکتے ہیں کہ پہلی و دوسری جنگ عظیم میں خچّرکو فوجیوں کے دوش
بدوش رسد رسانی اورگھوڑے کو توپیں مورچہ پرلے جانے کے لیۓمعمورکیا گیا تھا
جب کہ گدھا بیچارہ وہی دھوبی کے گھاٹ‘جمعدار کی چوکھٹ پراور بھٹہ کے میدان
میں کھڑا اپنی قسمت کو کوستا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ گدھا ان کو اور یہ دونوں
گدھے کوبیحد ناپسند کرتے ہیں۔
جہاں تک گدھے کی شرافت کا معاملہ ہے تواگرآپ اس کی پوری زندگی کی تواریخ
پرنظرڈالیں تو میں آپ سے یقین سے کھہ سکتا ہوں کہ اس میں آپکو کہیں بہی
جھول نظر نہ آۓ گا۔ صبح سے شام تک یہ لو دھوپ میں گھاٹ پر دھوبی سے آگے کی
دونوں ٹانگیں بندھوا کرخاموشی سے سوکھی گھاس پرمُنہ مارا کرتا ہے
اوراگرکبھی دھوبی سے آنکھ بچا کر گھاٹ پر سوکھ رہے کپڑوں پر دانت صاف کرنے
کی کوشِش کی تواکثروبیشترڈنڈے بھی کھاتا ہے۔
مہلّہ کے بچّے اسکی دُم میں ٹین باندہ کر دوڑاتے پھریں لیکن مجال ہے کہ وہ
بچّوں کو دانت بھی دِکھاۓ ‘ ناچ کود کر ان کا دِل ہی بہلاتا ہے۔ گدھے پر
جھول ڈالیں یا پتھر لادیں اُس کی کمربھلے ہی خم کھا جاۓ پر مجال ہے کہ وہ
زرا سا بھی اُچھل کود کرے‘ پینترے بدلے یا جسم کو جُمبش تک دے ۔ سَرِتسلیم
خم کیے خاموش کھڑا جگالی کرتا رہتا ہے۔ اس کے آگے چلیں یا پیچھے کسی کو
کویٔ خطرح نہیں‘ یہ ہے شریفوں کا وتیرہ ۔ اِسے کہتے ہیں شرافت۔ اب زرا آپ
ایسی کویٔ حرکت گھوڑے یا خچّرسے کرکے تو یکھیں اگر یہ دن میں تارے نہ
دیکھادیں تو جو چور کی سزا وہ میری ۔ گھوڑے کی شرافت تو بزرگوں نے یہ
کہکرجتا ہی دی کہ ’افسر کی اگاڑی اور گھوڑے کی پچھاڑی کبھی نہ چلو‘ یہ تو
آپ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ گھوڑے کے پیچھے چلنے کو کیوں منع کیا ہے۔
گھوڑے پر زین رکھتے وقت آپ کو پتہ چلے گا کہ وہ کتنا شریف ہے۔ اب رہاخچر کا
معاملہ توجناب زرا کبھی آپ اُس پر ہلکا یا بھاری بھوج لاد کرتودیکہیں کہ وہ
کیسے پینترے بدل بدل کر آپ کے چھکّے چھڑاتا ہے۔
وفاداری کا جہاں تک تعلق ہے تو گدھے کی وفاداری کا کیا کہنا ۔ بچپن سے
جوانی تک ایک ہی چوکھٹ پر جما رہتا ہے۔ کبھی اینٹ گارہ کبھی ہم انسانوں کے
گندے کپڑون کے گٹّھر اپنی کمزور کمر پَرلاد کربہٹہ اورگھاٹ پر لے جاتا ہے
پھر بھی تنگ ہوکرگھرنہیں چھوڑتا۔ کہیے اس سے بڑھ کرہے کوی مثال وفاداری کی۔
زرا اپنے نوکرپر اتنی سختی تو کریں پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے‘ وہ رہتا ہے کہ
بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ اب آپ یہ کہیں گے کہ بھایٔ دوسرے جانور اور پرند بھی تو
ہیں وہ بھی توگھر نہیں چھوڑتے۔ مانتا ہوں کتّا ہی دوسرا چوپایہ ہے جوایک
بار آپ کا نمک کھا کرآپ کا دروازہ نہیں چھوڑتا۔ وہ سب کچھ کریگا لیکن مار
کھانے پر چُپ نہیں رہیگا اتنا شور اور اُدھم مچاۓ گا کہ آپ کے پڑوسی آپ کے
پیچھے پڑجایٔنگے۔ ایسی کسی بات کا کویٔ خطرح گدھے سے ہرگز نہیں بلکہ مار
کھاتے ہوۓ گدھے کو دیکھ کر بچّے اور پڑوسی سب خوش ہوتے ہیں۔ گھر میں چڑیاں
پالیٔے‘خاص کرطوطا‘خاطر مدارات کیجۓ اگر غلطی سے پِنجڑہ کھلا چھوڑ دیں تو
پھر کبھی ان کی شکل دکھایٔ نہ دے گی۔
اب آپ یہ ضرور کہیں گے کہ چلۓ یہ سب تو ٹھیک لیکن انسان سے بڑھ کر عقلمند
کیسے ہوا تو جناب میں یہ کہوں گا کہ ہم خود ہی دن میں کتنی ہی بار ایک
دوسرے کو بیوقوف کے لقب سے نوازتے رہتے ہیں۔ والدین اولاد کو بات بات پر
’بیقوف ہو‘، مالک ملازم کو،افسرکلرک اور استاد شاگرد کوبیوقوف کہتے ہیں۔
غور کریں تو پتہ چلے گا کہ اس کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ بار بار کسی بھی
کام کوکرنے کا طریقہ کارسمجھانے کے باوجود انسان کام کوٹھیک طرح نہیں کرتا۔
ہم اگر آنکھیں کھلی رکھیں تو قدم قدم پر لوگ بیوقوفیاں کرتے دکھایٔ دینگے۔
آپ نے ہسپتال،آفس کی سیڑھیوں اور دوسری کتنی ہی جگہ ’تھوکنا منع ہے‘ لکھا
ضرور دیکھا ہوگا پھر بھی خاص کر وہاں ہی پان کی پیک سے پھول بوٹے بناۓ جاتے
ہیں۔ جہاں پیشاب کی مُمانعت ہوتی ہے وہاں حضرت انسان کھڑے دیوار گرانے میں
مشغول نظرآتے ہیں، جہاں پارکنگ منع ہے وہاں کار کھڑی نظرآتی ہے۔ یہ سب کیا
آپ کو عقلمندی کی علامت دکھایٔ دیتی ہے، جی نہیں اسے آپ سب ہی حماقت کہیں
گے۔
گدھا جس پر ہم بیوقوفیت کی مُہر سی لگا چکے ہیں اُس کے چند پہلو کا اگر ہم
جایٔزہ لیں تو پتہ چلےگا کہ احکام کو سمجھنے اور اسے مالِک کی حصب منشاء
بجا لانے میں وہ ہم انسانوں سے کتنا بہتر ہے۔ اب مُجھے یہ تو نہیں معلوم کہ
آپنےاسکی اِس خوبی کا کبھی اندازہ کیا ہے کہ نہیں لیکن میں نے تو کتنی ہی
بار دیکھا ہے کہ کسی کام کے طریقہ کار کو ایک بار سمجھا دینے کے بعد کبھی
یہ نہیں ہوتا کہ بار بارسمجھانے کی ضرورت پڑے۔ لیکن جیسا میں پہلے ہی کھہ
چُکا ہوں کہ حضرتِ انسان کو ضد سی ہے کہ جب بھی اُنہیں کسی کام کوبھی کرنے
کو کہا جایٔگا تو ایک ہی بارمیں وہ کبھی کرکے نہ دینگے۔ یوں تو کتنے ہی
واقعات ایسے ہیں جن سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ کسی بھی کام کو ایک بار
سمجھا دینے کے بعد دوبارہ کبھی بھی بتانے کی ضرورت نہں پڑتی۔ میں آپ کا
زیادہ وقت نہ لیکر صرف ایک مثال دیکر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔
تقریبا پچاس برس پہلے مَیں ہندوستان کی میٔ جون کی لو دھوپ مِیں اپنے دوست
کے کھریہان [گاؤں کا وہ میدان جہاں غلّہ تیار کیا جاتا ہے] میں بیٹھا تیّار
ہوتے گندُم کی میٹھی میٹھی مہک کا لطف لے رہا تھا کہ سامنے سے پندرہ بیس
گدھے ایٹوں کا بوجھ پیٹھ پر لادے گاؤں کی طرف خراماں خراماں جاتے نظر آۓ۔
یوں تو یہ کویٔ خاس بات نہ تھی لیکن مجھے حیرت اس پر ہویٔ کہ ان کے آگے یا
پیچھے کویٔ آدمی نہ تھا جو انہیں بھٹہ سے اس گھر تک ہنکا کر لے جا رہا ہو۔
مجھ سے رہا نہ گیا تو اپنے میزبان دوست سے دریافت کیا کہ
’بھایٔ کویٔ بھی ساتھ نہیں ہے یہ آخر کہاں جارہے ہیں‘
’’کسی کو ساتھ جانے کی ضرورت نہیں ہے پھلی بار ان کا مالک ایک گدھے کی نکیل
پکڑ کر بھٹہ سے منزل تک لے جاتا ہے اور منزل پر بوجھ گرا کر خود وہیں رُک
جاتا ہے ۔ گدھے خود ہی بھٹہ پر واپس جاتے ہیں وہاں موجود آدمی دوبارہ ایٹیں
لاد کرہنکا دیتا ہے اور یہ سیدھے منزل کی طرف چل دیتے ہیں‘‘
تقریبا آدھ پون گھنٹہ بعد سب ہی فوجی انداز سے ایک قطار میں واپس جاتے نظر
آۓ۔
اس منظر نے میری آنکھوں پر پڑا ہوا تعسب کا پردہ ہٹا دیا اوراگر آپ خفا نہ
ہوں تو آج مجھے آپ سے یہ کہنے میں زرا بھی شرم محصوس نہیں ہوتی کہ ’گدھا‘
ہم انسانوں سے زیادہ عقل رکھتا ہے۔ اب میری آپ سے یہ بصد احطرام درخواست ہے
کہ آپ بھی اسے وہی مقام دیں جو آپ نے عربی گھوڑے کو دے رکھا ہے۔ |