گُزِشتہ کالم میں مَیں اپنے قارئین سے وعدہ توکر بیٹھا
تھا کہ آئندہ جہاں بھی ہوا اپنی اِن تحریروں کے ذریعے اُن سے رابطہ میں
رہوں گا مگر اچانک حالات ہی کُچھ ایسے پیدا ہوگئے جِن کے سبب میں اپنا وعدہ
وفا نہ کر سکا اور گزشتہ روز جب میں نے اپنے قارئین کے مسلے مسائل سُننے
کیلئے رکھا ہوا اپنایہ 03143663818 نمبر آن کیا تو فونز اور میسجز کا
تانتلا بندھ گیا پوچھنا سبھی نے یہی تھا کہ اِتنے دِنو ں سے آپ کہاں غائب
ہیں؟آپ کے کالم کے بغیر اخبار ادھورا سا لگتا ہے ،آپ خیریت سے تو ہیں؟
سیاسی وڈیروں یا سرکاری لٹیروںسے ڈر کے لکھنا کہیں چھوڑ تو نہیں دیا ؟
خیرمُجھے اِس پوچھ گِچھ فارغ ہوئے کو ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ایک
سرور نامی نوجوان کی کال آٹپکی سب سے پہلے تو اِس نے بھی یہی شِکوے شکایات
اور سوالات کئے پھِر کہنے لگا کہ خان صاحب ! میں آپ سے ایک بات پُوچھنا
چھاہتا ہوں مگرآپ کی ناراضگی سے ڈرتے ہوئے نہیں پوچھ رہا ،جِس پر میں نے
کہا کہ نہیں میں ناراض نہیں ہوتا ،آپ بِلا جھجک پُوچھیں ،یہ سُن کر وہ بڑا
خوش ہوا اور کہتا کہ خان صاحب بُرا نہ محسوس کیجئے گا میری آپ سے پہلے بھی
دو تین دفعہ بات ہوئی ہے مگر جو میں آج محسوس کر رہا ہو ںایسا پہلے کبھی
نہیں کیا،یہ سُن کر میں نے کہا آج آپ نے ایسا نیا کیا محسوس کر لیا ؟اِس کے
جواب کے ساتھ ہی اُس نے اگلا سوال کیاکہ آپ کے لہجے اور شاعرانااندازِ
گُفتگو سے آج یوںمحسوس ہورہاہے جیسے آپ کا کوئی ایسا نقصان ہو گیا ہے جِس
کے زِندگی میں کبھی پورا ہونے کی کوئی امیدہی نا ہو،کیا بات ہے گھر میں تو
سب خیریت ہے نا؟آپ بڑے مایوس لگ رہے ہیں؟اسرور کے اس سوال پر میں نے کہا
نہیں میں مایوس کبھی بھی نہیں ہوا اورگھر میں بھی سب خیریت ہے ،آپ نے میری
خیریت تو دریافت کر لی مگر اپنا بتایا ہی نہیں کہ آپ کہاں کے رہائشی ہیں؟
آپ کے علاقہ میںآج کل کیا ہو رہا ہے اور آپ کے حلقہ میں کون الیکشن جیتا
اور کون ہارا ؟میرے اِس سوال کا جواب سرور کُچھ یو دیتا ہے کہ میرا تعلق
نور پور سے ہے اور حلقہ پی پی 229ہے جہاں الیکشن کے روز کیا کیا نہیں ؟یہ
سُن کر میں نے کہا کہ ایسا کیا ہوگیاذرا تفصیلاً بتا ئیں؟ سرور کا تفصیلاً
جواب یہ تھاکہ میرے حلقہ پی پی 229میں یوں تو بے شمار امیدوار تھے جبکہ
صحیح کانٹے دارمقابلہ PTIاور (ن) لیگ کے مابین متوقع تھا،مگر الیکشن سے دو
یوم قبل ایک تیسری طاقت (ق) لیگ نے چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر حلقہ کے تمام
تر بااثر لوگ خریدلئے اور اُن با اثر شخصیات نے اپنے اپنے دیہاتوں کا کُچھ
مزدورطبقہ خرید ا اور کُچھ کو بلیک میل کرتے ہوئے پولنگ اسٹیشنز پر لے گئے
،جہاں جاتے ہی یہ بلیک میلنگ کے پول کھُل جانے پر انتہا کے دنگے فسادات
ہوئے جِن میں درجنوں افراد زخمی ہوئے مگر کِسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی ،یہ
سنتے ہی میں نے پوچھا کہ جب یہ سب ہو رہا تھا تب اِنتظامیہ کیا کر رہی تھی
؟اِس کا جواب مُجھے یہ مِلا کہ خان صاحب سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں اپنے
فرض کو فرض سمجھتا ہی کون ہے ہم لوگ میڈیا کو آزاد اور آرمی کو خود مختار
ادارہ سمجھتے ہیں مگر افسوس کہ میڈیا کے لوگوں میں سے ایک مخصوص طبقہ کے
سوا کِسی کو سیکیورٹی پاس ہی جاری نہیں کیا گیا اِس لئے وہ پولنگ اسٹیشنز
کے اند ر نہیں جا سکتے تھے جبکہ آرمی اپنے اعلیٰ حکام کے حکم کی پابند ہوتی
ہے -
خیر یہ سب سُنتے وقت مُجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہاں ایسا ہوا ہوگا اس
لئے میں نے اپنے اس قاری کی کال کاٹتے ہوئے صحیح حقائق تک پہنچنے کیلئے اسی
ہی حلقہ کی رہائشی تقریباً تیس سے بھی زائدمختلف معزز شخصیات سے رابطے کئے
جِن میں سے بیس افراد نے تواِس بات چیت کے دوران ڈھیر سارے دلائل کے ساتھ
اور بھی بہت سارے انکشافات کر دیئے جِن میںمختلف پولنگ اسٹیشنز پر جعلی ووٹ
کاسٹنگ ،14کے قریب پولنگ اسٹیشنز پر جبراً ووٹ ڈلوانے کی بنا پر دنگے
فسادات ،اور الیکشن جیتنے پر نو منتخب ایم کے پانچ کروڑ خرچ آنا وغیرہ قابل
ذکر ہیں ،اِن تیس افراد میں سے آٹھ کے بڑے مختصر جوابات تھے کہ لگانے سے ہی
ملتا ہے جبکہ دو نے حضرت با با فرید الدین مسعود گنج شکر ؒ کا پنجابی کلام
پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ خان صاحب !ہم تو بس اِتنا جانتے ہیں کہ
پنج رکن اِسلام دے تے چھیواں ٹُک
جے نہ لبھے ٹُک تے پنجے جاندے چھُٹ
بھوک پیاس کے مارے لوگ بِکیں نہ تو اور کیا کریں؟
خیر اِس کے بعد میں نے نو منتخب ایم پی اے کا موقف جاننے کیلئے اُنہیں فون
کیا اور پُوچھا کہ پیر جی لوگ آپ پر ووٹ خریدتے ہوئے الیکشن میں بھرپور
دھاندلی کے ذریعے منتخب ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں،آپ کا کیا خیال ہے ؟میرے
اس سوال پر پیر صاحب اپنی ٹھوس دیہاتی پنجابی زبان میں بولے کہ
میرا خیال اے بئی ۔۔۔۔۔۔چَلوایس بہانے ای سئی مشہوری تاں ہوندی ای پئی اے
ناں؟
یہ جواب سُن کر میں اگلا سوال کرنے ہی لگا تھا کہ مُجھے جواب بھی مِل گیا،
چَنگا مُڑخان صاحب ہُن تاں میںچلیاں کِسے پھوتگی تے ،تے باقی گلا ںمُڑ کِسے
ویلے کرسائں،
یہ بات سُنتے ہی میں جان گیا کہ پر صاحب نے یہ سب عوامی مسائل کے حل کیلئے
نہیں بلکہ شہرت اور دولت کیلئے کیا ،اِس لئے میںنے کال کاٹی اور اپنا ای
میل اِن بوکس کھولا تو وہاں بھی میرے قارئین کے شکوے شکایات اور پیغامات کے
انبار لگے پڑے تھے مگر شِکوہ سبھی کو ایک ہی تھا کہ اِتنے دِن ہوگئے نہ آپ
سے رابطہ ہو رہا تھا اور نہ ہی آپ کا کالم کِسی اخبار میں مِلا آپ کہاں
غائب تھے ؟
لہذا سبھی کیلئے میرا ایک ہی جواب ہے کہ حالات ہی کُچھ ایسے تھے جِن کے سبب
میں کالم نہیں لِکھ سکا ،رہی بات فون کی تو فون مغرب سے پہلے صرف دو گھنٹوں
کیلئے آن ہوتا ہے اس دوران آپ بات بھی کر سکتے ہیں-
میرے کالم کی عدم دستیابی پر بھی مُجھ سے رابطہ میں رہنے ،میری خیریت
دریافت کرنے اور میری تحریروں کواِس قدر پسند کرنے کا آپ سب کا بہت بہت
شکریہ ! اپنا خیال رکھیئے گا اور اپنی قیمتی آرا سے ضرور نوازتے رہئے
گا،(فی ایمان اِللہ) |