لکڑی کی عورت

کچھ دوست جن میں ایک درزی، ایک بڑھئی، ایک سنار اور ایک فقیر تھا ، چاروں اکھٹے کہیں جارہے تھے ، راستے میں رات ہوگئی۔ تو یہ ایک جنگل میں ٹھہرے اور آپس میں یہ طے کیا کہ رات کو حفاظت کے لئے ہر ایک دو دو گھنٹہ جاگ کر پہرا دے گا۔ پہلے دو گھنٹے ایک آدمی جاگے گا اور باقی تین سوئیںگے، پھر دوسرا جاگے اور دو گھنٹہ پہرہ دے اور باقی تینوں سوئیں۔

چنانچہ سب سے پہلے بڑھئی کا نمبر آیا اور وہ پہرا دینے لگاجب اس کے تینوں دوست سوگئے تو بڑھئی نے سوچا کہ بیکار کیوں بیٹھوں ، اوزار میرے پاس ہیں ، بیکار بیٹھنے سے بہتر ہے کیوں نہ ایک درخت سے لکڑی کاٹ کرکچھ بناﺅں ۔ چنانچہ اس نے ایک درخت کوکاٹا اور اس کی لکڑی کو تراش کر ان دو گھنٹوں میں ایک عورت کا مجسمہ تیار کردیا۔

دو گھنٹہ کے بعد اس کے دوسرے دوست درزی کے جاگنے کا نمبر آیا۔ اس نے جب وہاں عورت کا مجسمہ دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ بڑھئی کا کارنامہ ہے۔اس نے سوچا کہ میرے پاس بھی سارا سامان ہے کیوں نہ میں کپڑے سے سی اسے پہنادوں ، چنانچہ اس نے دو گھنٹہ میں اس عورت کے مجسمہ کا لباس تیار کرکے اسے پہنادیا۔

اس کے بعد سنار کی باری آئی جب اس نے وہاں پر عورت کا مجسمہ دیکھا تو اس نے اسے کے ہاتھوں میں گہنے بناکر پہنا دیئے ۔ آخر میں فقیر کا نمبر آیا اس نے جب وہاں پر عورت کابنا سنورامجسمہ دیکھا توسجدے میں گر کر اللہ سے دعا کی کہ، الٰہی ! مجھ بے سر و ساماں کی لاج رکھ۔ اور اس مجسمے میں جان ڈال دے ، چنانچہ وہ لکڑی کی عورت زندہ ہوگئی۔

صبح جب اس کے دوست اٹھے اور انھوں نے وہاں اس عورت کو دیکھا تو آپس میں جھگڑنے لگے ۔ بڑھئی بولا عورت میری ہے ، درزی بولا یہ عورت میری ہے ، سنار بولا یہ میری ہے اور فقیر کہنے لگا کہ یہ عورت میری ہے میری دعا سے اللہ نے اس میں جان ڈالی ہے۔ جب جھگڑا حد سے بڑھ گیاتویہ چاروں قریبی شہر کے حاکم کے پاس گئے۔ تاکہ اس سے فیصلہ کروائیں لیکن جب حاکم نے اس عورت کو دیکھا تو وہ بولا تم چاروں جھوٹے ہو ، یہ عورت تو میری ہے۔

اس عورت نے جب یہ معاملہ دیکھا تو کہنے لگی کہ میں بتاﺅں میں کس کی ہوں ۔ حاکم نے کہا ، ہاں بتاﺅ تم کس کی ہو؟ قریب ہی ایک درخت تھا وہ عورت دوڑ کر اس درخت سے چمٹ گئی اور پھر لکڑی بن کر اس درخت میں غائب ہوگئی اور سب کے سب ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ (ماخوذ)

جب دنیا میں بچہ پیدا ہوتا ہے تو ماں باپ کہتے ہیں ، ہمارا بچہ ہے ، ماموں کہتا ہے میرا بھانجا ہے ، چچا کہتا ہے میرا بھتیجا ہے ، بھائی کہتا ہے میرا بھائی ہے ۔ تھوڑے عرصے بعد کے بعد وہی بچہ لقمہ قبر بن جاتا ہے اور مٹی کا پتلا پھر مٹی بن جاتا ہے ۔ سارے رشتہ داراور میرا میرا کہنے والے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں ۔

M. Zamiruddin Kausar
About the Author: M. Zamiruddin Kausar Read More Articles by M. Zamiruddin Kausar: 97 Articles with 322981 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.